صحت

مینوپاز کیا ہے اور یہ خواتین کی ذہنی اور جسمانی صحت پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟

Share

’مجھے اپنے شوہر، بچوں اور ملازمین پر بے وجہ غصہ آنے لگا تھا، مجھے لگتا تھا مجھے ڈیپریشن یا کوئی اور ذہنی بیماری ہوگئی ہے، اکیلے میں بیٹھ کر روتی تھی کہ میں نے بچوں کو کیوں ڈانٹا، شوہر پر غصہ کیوں اتارا، ملازمین کہ ساتھ یہ رویہ کیوں اپنایا‘۔ 48 سالہ یاسمین نے مینوپاز سے متعلق ذاتی تجربات اور علامات کہ بارے میں بی بی سی سے بات کی۔

یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے پروفیسر اولین ٹیلفر کی تحقیق کے مطابق ’جب خواتین عمر کے ایک خاص حصے تک پہنچتی ہیں تو ان کی اووریز میں انڈوں کی مقدار کم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے زچگی کی امید ختم ہوجاتی ہے۔ مینوپاز کی سب سے واضح علامت خواتین میں ماہواری کا رک جانا ہے۔ جس کے باعث مختلف جسمانی اور ذہنی بیماریاں واقع ہوتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ایسٹروجن ہارمون ہے جو اووریز میں پیدا ہوتا ہے لیکن جیسے ہی خواتین 40 سال کی عمر کو پہنچتی ہیں تو ان میں یہ ہارمون پیدا ہونا بند ہو جاتا ہے۔ ہارمون ایسٹروجن کی کمی انڈے بننے کی ساخت پر اثر انداز ہوتی ہے۔‘

اکثر خواتین میں یہ دیکھا گیا ہے کہ مینو پاز کے ہوتے ہی ان کے اندر کچھ خاص علامات ظاہر ہوتی ہیں، جس میں ذہنی بیماریاں، جیسے کہ ڈیپریشن، اینگزائٹی، چہرے اور جسم پر بالوں کا بڑھنا اور مثانہ کمزور ہوجانا شامل ہیں۔

شاہانہ عباس کے تین بچے ہیں اور وہ تعلیم کہ شعبے سے وابستہ ہیں۔ جس وقت ہم ان کے گھر پہنچے تو وہ باغبانی میں مصروف تھیں۔ ان کے مطابق مینوپاز سے ان کی روز مرہ زندگی شدید متاثر ہوئی لیکن انھوں نے خود کو گھر کے کاموں میں مصروف کرلیا۔

’مینوپاز کی پہلی علامت پیریڈز میں بے قاعدگی تھی، اور مجھے یہ اندازہ ہوا کہ کہیں میں حمل سے تو نہیں، جب ڈاکٹر سے رجوع کیا تو پتا چلا کہ میں مینوپاز کے سائیکل میں داخل ہوچکی ہوں، مجھے اس وقت اچانک پریشانی لاحق ہوئی کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ یا اس کے بعد کیا ہوتا۔ اس کے لیے کسی میڈیسن کی ضرورت تھی یا نہیں۔ انٹرنیٹ کی ذریعے اور کچھ ڈاکٹرز سے مشورہ کرنے کہ بعد مجھے یہ پتا چلا کہ اس کا تعلق ہارمونز سے ہے اور اس کی وجہ سے میرے جسم میں بہت سی تبدیلیاں اور کمیاں ہونے کا اندیشہ ہے جن میں ایک کمی کیلشیم کی بھی ہے۔‘

مینو پاز کیا ہے؟

ڈاکٹرز کی عمومی رائے یہ ہے کہ اگر ایک سال تک ماہواری نہیں آتی تو یہ مینوپاز ہے۔

گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر رابعہ نسا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ عمل 40 سے 55 سال کہ دوران کسی وقت بھی ہوسکتا ہے۔ کچھ خواتین میں ماہواری 60 سال کی عمر تک بھی چلتی رہتی ہے۔ کہیں یہ وقت سے پہلے 30 سال کی عمر میں بھی بند ہوسکتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’قدرت نے ہر لڑکی کہ اندر ایک مخصوص تعداد میں انڈے رکھے ہیں، وہ مخصوص انڈے جب تک بیضہ دانی میں پیدا ہو رہے ہیں تو ماہواری کا عمل جاری رہتا ہے، جب وہ انڈے بننا بند ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد مینسس یا ماہواری کا عمل رک جاتا ہے۔‘

مینو پاز کی وجہ سے ذہنی الجھن

ڈاکٹر نسا کا کہنا ہے کہ جب بیضہ دانی انڈے بنانا بند کردیتی ہے تو ہارمونز بھی ڈسٹرب ہوجاتے ہیں۔ ایف ایس ایچ اور ایسٹروجن لیول ڈسٹرب ہونے کی وجہ سے موڈ میں اتار چڑھاؤ ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’خواتین کا ذہنی دباؤ محسوس کرنا، ہاٹ فلیشز آنا یعنی اچانک گرمی لگنا خاص طور پر جسم کے اوپر والے حصے میں یا رات کو بہت زیادہ پسینہ آنا، اندرونی جسم میں خشکی کا محسوس ہونا، یہ تمام علامات ہارمونز کی ڈسٹرب ہونے کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہیں اور یہ قدرتی طور پہ ہوتا ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ خواتین میں یہ علامات زیادہ ہوتی ہیں اور کچھ میں کم۔ ’ہمارے ہاں آگاہی کی کمی کہ باعث خواتین ماہواری کے رکنے پر پریشان ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے ذہنی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔‘

صحت
ایسے موقعے پر اگر شوہر بیوی کا اچھے طریقے سے ساتھ دے تو یہ ذہنی الجھن اور ڈیپریشن پہ قابو پایا جاسکتا ہے: ڈاکٹر رابعہ

خاندان کی حمایت اور ساتھ

یاسمین کہتی ہیں کہ ’مجھے اس وقت بالکل اندازہ نہیں ہوا، مجھے ہر وقت ڈیپریشن رہنے لگا۔ آپ ایسی باتیں اپنے بچوں سے نہیں شیئر کر سکتے، شوہر کو بتایا تو انھوں نے کہا کہ میرا غصہ آنا ڈرامے دیکھنے کی وجہ سے ہے۔ میں خاموش ہوجاتی تھی۔

’اس سب کی وجہ سے مجھے کافی اکیلا پن محسوس ہونے لگا اور میں زیادہ قرآن پاک پڑھنے لگی۔‘

یاسمین کا کہنا ہے کہ یہ علامات ظاہر ہونے کے بعد بھی وہ کبھی ڈاکٹر کہ پاس نہیں گئیں کیونکہ ’سب یہی کہتے ہیں کی یہ تو سب کہ ساتھ ہوتا ہے۔‘

ڈاکٹر رابعہ کہتی ہیں ’لائف پارٹنر ہی سب سے زیادہ سپورٹ دے سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو خواتین ماں باپ کے بعد شوہر سے ہی زیادہ شئیر کر پاتی ہیں۔

ان کے بقول ’جو ہارمونز میں تبدیلی آنے سے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور علامات ظاہر ہورہی ہیں اس صورت میں دوائیں بھی تجویز کی جاتی ہیں اور اگر بہت زیادہ علامات ہیں تو ہارمونل ریپلیسمنٹ تھیریپی بھی تجویز کی جاتی ہے۔ لیکن اگر علامات کم ہیں اور فیملی سپورٹ ملتی رہے، شوہر کی طرف سے اور گھر والوں کی طرف سے تو وہ کچھ بہتر محسوس کرتی ہیں۔ ایسے موقعے پر اگر شوہر بیوی کا اچھے طریقے سے ساتھ دے تو یہ ذہنی الجھن اور ڈیپریشن پہ قابو پایا جاسکتا ہے اور علامات شاید عورت کو اتنا محسوس نہ ہوں۔‘

ناخواندگی اور مینوپاز سے متعلق آگاہی

صحت

شاہانہ عباس نے بتایا ’مجھے نیند نہیں آتی تھی، تھکن بہت محسوس ہورہی تھی اور خاص طور پر جسم میں اور ہڈیوں میں درد محسوس ہورہا تھا۔ میں نے اس لیے آرتھوپیڈک ڈاکٹر کو بھی دکھایا۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر مینوپاز کے سائیکل کے دوران اگر یہ علامات ظاہر ہوں تو ڈاکٹر سے کنسلٹ ضرور کرنا چاہیے، کیونکہ آرتھوپیڈک ڈاکٹر سے کنسلٹیشن کہ بعد مجھے پتا چلا کہ مینوپاز سے آپ کی ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں اور اوسٹوپوروسس ہونے کا بھی اندیشہ ہوسکتا ہے۔ ‘

شاہانہ عباس جو انٹرنیٹ کی مدد سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’ہماری سوسائٹی میں خواتین کی صحت سے متعلق کوئی بات نہیں کی جاتی یا بات کرنا برا محسوس کرتے ہیں۔ اور نہ ہی معلوماتی پروگرامز ہوتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ گھر میں موجود افراد کو بھی اس بات کا پتا ہونا چاہیے کہ جب ایک عورت مینو پاز کہ دائرے میں آتی ہے تو موڈ سوئنگز، بات بات پر غصہ آنا اور چڑچڑاپن، رونا آنا ایک فطری عمل ہے۔ لیکن اگر گھر والے آپ کی اس کیفیت کو نہیں سمجھیں تو ان کی جسمانی اور ذہنی مسائل میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سکول، کالج اور یونورسٹیز میں ان باتوں کہ بارے میں آگاہ نہیں کیا جاتا جو کہ بہت ضروری ہے۔

انھوں نے کہا کہ مینو پاز کہ بعد ’میں نے کوشش کی کہ اپنا وقت ورزش، واک میں، باغبانی اور کتابیں پڑھنے میں صرف کروں جس سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔‘

شاہانہ عباس نے کہا کہ ’یہ کوئی بیماری نہیں بلکہ ایک قدرتی عمل ہے، اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کس طرح ان علامات پر قابو پا سکتی ہیں۔‘

ڈاکٹر رابعہ کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے مینوپاز کے حوالے سے ہمارے ہاں خواتین میں کوئی آگاہی نہیں۔

انھوں نے کہا ’اکثر خواتین پریشان ہوکر آتی ہیں کہ ہماری ماہواری بند ہوگئی، اب حمل نہیں ہوگا، یا کیوں بند ہوگئی اس کو آگے رہنا چاہیے۔ ان کو یہ تو پتا ہے کہ قدرتی طور پر ایک عمر میں آکر ماہواری بند ہوجاتی ہے لیکن وہ عمر کیا ہے، پہلے یا دیر سے بھی یہ عمل ظاہر ہوسکتا ہے، اس کے ساتھ کچھ علامات بھی ہوسکتی ہیں اس بارے میں انہیں علم نہیں ہوتا۔ ‘

ڈاکٹر رابعہ کے بقول ’جہاں تک کوشش ہوتی ہے ہم مریضوں کو اس حوالے سے جتنی معلومات ہوسکتی ہیں وہ فراہم کرتے ہیں۔ لیکن ایسا کوئی پلیٹ فارم نہیں کہیں جو ہماری خواتین کو مینوپاز کہ بارے میں معلومات فراہم کرسکے۔

’اب کم سے کم یہ ہے کہ اس بارے میں بات کی جاسکتی ہے، اس کہ برعکس پہلے خواتین کی ری پروڈکٹو (تولیدی) صحت کہ حوالے سے کوئی بات بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ مینوپاز کہ بعد ہڈیاں کمزور ہوجانا اور دیگر علامات کہ ظاہر ہونے کہ بارے میں اگر ہم خواتین کو سوشل میڈیا کہ ذریعے معلومات فراہم کرسکیں تو مینوپاز کی علامات کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔`