28 فروری 2019 کو جب ابھینندن ورتمان کی اہلیہ تنوی ماروا کے موبائل فون پر سعودی عرب کے نمبر سے ایک کال آئی تو وہ حیران بھی ہوئیں اور پریشان بھی کیونکہ دوسری جانب سے لائن پر انھیں پاکستانی جیل میں قید ان کے شوہر ونگ کمانڈر ابھینندن کی آواز سنائی دی۔
آئی ایس آئی کی جانب سے یہ کال سعودی عرب سے روٹ کی گئی تھی۔
مبینہ طور پر ایک جانب پاکستانی اہلکار ابھینندن پر گھونسوں کی بوچھاڑ کر رہے تھے تو دوسری جانب ان کا ہی ایک آدمی ابھینندن کی اہلیہ سے فون پر ان کی بات کروا رہا تھا۔ جاسوسی کی دنیا میں اسے ‘گڈ کاپ، بیڈ کاپ’ تکنیک کہا جاتا ہے اور اس کا مقصد کسی شخص سے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے۔
پھر اسی روز عمران خان نے پاکستانی پارلیمان میں اعلان کیا کہ ان کا ابھینندن کو قید میں رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، وہ اسے چھوڑ رہے ہیں۔
پاکستانی ارکانِ پارلیمان نے ویسے تو تالیاں بجا کر ان کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا لیکن کئی حلقوں میں سوال بھی اٹھے کہ کیا یہ سمجھداری کا فیصلہ ہے؟
ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے پہلےابھینندن کی رہائی کا عندیہ دیا تھا
دوسری جانب انڈیا کے سیاسی رہنماؤں نے یہ تاثر دینے میں کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ عمران خان نے انڈیا کے سخت رخ سے گھبرا کر یہ قدم اٹھایا ہے۔
انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی کے صدر امت شاہ نے پانچ مارچ کو ریاست جھارکھنڈ کے ایک انتخابی جلسے میں کہا کہ ‘انھوں نے ہمارے پائلٹ کو پکڑا لیکن مودی جی کی وجہ سے انھیں 48 گھنٹے کے اندر چھوڑنا پڑا۔’
امت شاہ کے اس بیان سے پہلے ہی عندیہ ملنے لگا تھا کہ ابھینندن کو چھوڑا جانے والا ہے۔
28 فروری کو ہی شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ملاقات کرنے ہنوئی پہنچنے والے امریکی صدر ٹرمپ سے جب صحافیوں نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ ‘میں سمجھتا ہوں جلد ہی آپ کو پاکستان سے ایک اچھی خبر سننے کو ملے گی۔ ہم اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں، جلد ہی یہ حل ہو جائے گا۔’
اور صدر ٹرمپ کے اس دعوے کے چند گھنٹے بعد ہی پاکستان نے ابھینندن کو انڈیا کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا۔
شہزادہ سلمان کا اہم کردار
اس معاملے میں امریکہ کے علاوہ سعودی عرب نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ پلوامہ حملے کے بعد سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پہلے پاکستان کا دورہ کیا پھر انڈیا کا۔
انڈیا کے دفاعی ماہرین کے خیال میں ان دوروں کے دوران شہزادہ سلمان نے سفارتی لحاظ سے ایک تنی ہوئی رسّی پر چلتے ہوئے پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں تعاون کی تعریف کی وہیں انڈیا میں انھوں نے وزیر اعظم مودی کی اس بات پر رضامندی کا اظہار کیا کہ دہشتگردی کو کسی بھی طرح جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
یہی نہیں سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اسلامی ممالک کے اجلاس میں اس دوران انڈیا کی وزیر خارجہ سشما سوراج سے بات کی لیکن انڈیا اور پاکستان کے درمیان اس معاملے کے حل میں سعودی عرب کی دلچسپی کی وجہ کیا تھی۔
سعودی عرب میں انڈیا کے سفیر رہ چکے تلمیز احمد کا خیال ہے کہ ‘سعودی عرب اپنے ایران مخالف اشتراک میں پاکستان کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی انڈیا کو ایران سے دور کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔’
پاکستان نے سکیورٹی کونسل کے پانچ ممبران سے رابطہ کیا
بالاکوٹ میں انڈیا کے حملے کے بعد پاکستان نے دنیا کے بااثر ممالک اور سلامتی کونسل کے مستقل ممبران سے رابطہ کر کے انھیں مطلع کیا کہ انڈیا بالاکوٹ حملے کے نتائج سے مطمئن نہیں ہے۔ اس کے بحری جہازوں نے کراچی کی جانب بڑھنا شروع کر دیا ہے اور وہ پاکستان پر بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ بھی کہ انڈیا اور پاکستان کی سرحد پر انڈیا کی فوجی سرگرمی تیز ہو گئی ہے۔ ان معلومات سے پریشان ہو کر متعدد ممالک نے انڈیا سے رابطہ کیا۔
انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’انڈیا نے ان الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ اصل میں اس کی بحری فوجیں کراچی کے بندرگاہ کی جانب نہیں بلکہ دوسری جانب جا رہی ہیں۔ ان ممالک کے پاس سیٹیلائٹس کے ذریعہ اس نقل و حرکت کو دیکھنے کی صلاحیت ہے اور وہ چاہیں تو پاکستان کے دعوؤں کی آزادانہ تفتیش کر سکتے ہیں۔
’ان ممالک نے انڈیا سے پوچھا کہ کیا وہ طیارے کو گرائے جانے اور انڈین پائلٹ کو پاکستان میں قید کیے جانے کے خلاف کارروائی پر غور کر رہا ہے تو انڈیا نے جواب دیا کہ گیند اب پاکستان کے کورٹ میں ہے۔ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ کشیدگی کم ہو تو اسے اس بارے میں اقدامات کرنے ہوں گے۔ انڈیا نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر ابھینندن کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو پاکستان کو نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔‘
انڈیا کی تنبیہ
یہی نہیں ’را‘ کے ڈائریکٹر انل دھسمانا نے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹنینٹ جنرل عاصم منیر سے بات کر کے ان پر واضح کر دیا کہ اگر ابھینندن کے ساتھ سختی برتی گئی تو پاکستان کو نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
اسی دوران قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال نے امریکہ میں اپنے ہم منصب جان بولٹن اور وزیر خارجہ مائک پومپیو کو ہاٹ لائن پر بتایا کہ اگر ونگ کمانڈر ابھینندن کے ساتھ کوئی بھی بدسلوکی ہوتی ہے تو انڈیا کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔
اتنا ہی نہیں دووال اور دھسمانا نے متحدہ عرب امارات سے بھی بات کر کے انڈیا کی منشا واضح کر دی تھی۔
پاکستان کے بڑے شہروں میں بلیک آؤٹ
اسی دوران پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو خفیہ معلومات ملیں کہ انڈیا 27 فروری کو رات نو سے دس کے درمیان پاکستان پر نو میزائلوں سے حملہ کرے گا۔
پاکستان نے اس کا جواب دینے کے لیے انڈیا پر 13 میزائلوں سے حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اسی دوران اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے آس پاس ‘بلیک آؤٹ’ کرنے اور فضائی راستے بند کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔
سعودی عرب کا سفارتی کردار
کشیدگی کے دوران سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ عادل الجبیر امن کا پیغام لے کر اسلام آباد گئے۔ اسی وقت انڈیا میں سعودی عرب کے سفیر ڈاکٹر سعود محمد نے وزیر اعظم مودی سے ملاقات کی۔
پلوامہ حملے سے قبل مودی حکومت نے سعودی حکومت کو بہت زیادہ توجہ دینی شروع کر دی تھی۔ شہزادہ محمد بن سلمان اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ذاتی تعلقات مضبوط ہو چکے تھے۔ جب پلوامہ حملہ ہوا تھا تو سعودی حکومت نے پاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے ایک سخت بیان جاری کیا تھا۔
سفارتی معاملوں کے ماہر ہرش پنت نے بتایا کہ ’سعودی عرب نہیں چاہتا تھا کہ یہ معاملہ اتنا بڑھے اور اسے واضح طور پر دنیا کے سامنے انڈیا اور پاکستان میں سے کسی ایک کا ساتھ دینا پڑے۔‘
ان کے مطابق ’حکمت عملی کے معاملوں میں پاکستان اور سعودی عرب کی سوچ ایک دوسرے سے بہت قریب ہے۔ سعودی عرب نے ‘بیک چینل’ سے کوشش کی کہ پاکستان اس معاملے کو مزید نہ بڑھنے دے۔ اس نے انڈیا سے بھی بات کی اور جب اسے انڈیا سے اس بات کے اشارے مل گئے کہ کوئی بیچ کا راستہ نکل آنے پر انڈیا کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا، تو اس نے پاکستان سے رابطہ کیا۔
’اس نے پاکستان پر واضح کر دیا کہ اگر اس نے کشیدگی کم کرنے کی کوشش نہیں کی تو وہ پاکستان کے ساتھ کھڑا نہیں رہ سکے گا۔’
پاکستان کو اسلامی ممالک کے درمیان تنہا ہو جانے کا خوف
ہرش پنت نے بتایا کہ ‘سعودی عرب پر مغربی ممالک کا دباؤ تو تھا ہی، لیکن سعودی عرب کے اس موقف سے پاکستان کو لگا کہ وہ اسلامی ممالک کے درمیان اکیلا رہ جائے گا۔ پاکستان مغربی دباؤ برداشت کرنے کے لیے کسی حد تک تیار ہو سکتا تھا لیکن سعودی عرب کے خلاف کھڑا ہونے کا مطلب تھا کہ اسلامی ممالک بھی اس کا ساتھ دینے میں گھبراتے۔’
قومی سلامتی کے مشیروں کی کونسل کے رکن تلک دیویشور کا کہنا ہے کہ ‘پاکستانی حکمران نے یہ ضرور سوچا ہوگا کہ اگر سٹینڈ آف بڑھتا ہے تو پاکستان کا ساتھ کون کون سے ممالک دیں گے۔ اگر ان کو یہ لگتا کہ اس معاملے میں مغربی یا اسلامی ممالک اس کا ساتھ دیں گے تو شاید کشیدگی کو اور بڑھانے کے بارے میں وہ سوچ سکتا تھا۔ لیکن جب انھیں لگ رہا ہو کہ اس معاملے میں اکیلا پڑ جانے کا خطرہ ہے تو ان کے سامنے ابھینندن کو چھوڑ کر کشیدگی کم کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ ‘