پاکستان میں توہینِ مذہب کے جھوٹے الزام میں آٹھ برس تک قید رہنے کے بعد بری ہونے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت اور وزیراعظم سے اپیل کرتی ہیں کہ ملک میں توہینِ مذہب کے مقدمات کی جامع تحقیقات ہونی چاہییں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کسی بےگناہ کو سزا نہ ملے۔
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں بی بی سی کی مشعل حسین کو دیے گئے انٹرویو میں آسیہ بی بی کا کہنا تھا ’جب بھی ایسا کچھ ہو، اس کی جامع تحقیقات ہونی چاہییں۔ کسی بےگناہ کو بلاوجہ سزا نہیں ملنی چاہیے اور وہ بےگناہ لوگ جو جیلوں میں ہیں انھیں رہائی ملنی چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’توہینِ مذہب کے معاملے میں الزام لگانے والوں اور جس پر الزام لگا ہو دونوں سے مناسب پوچھ گچھ ہونی چاہیے کیونکہ ہمارے تفتیشی عمل میں بہت سے مسائل ہیں اور یہ بتانا بھی مشکل ہوتا ہے کہ کون کس سے ملا ہوا ہے اس لیے یقینی بنانا ضروری ہے کہ سچ جانا جائے۔
’چیزوں کو بار بار دیکھیں، کون کیا کر رہا ہے اور اگر کوئی بےگناہ ہے تو اسے رہائی ملنی چاہیے۔ یہ میری وزیراعظم پاکستان سے اپیل ہے۔‘
آسیہ نورین بی بی پنجاب کے ضلع ننکانہ کے ایک گاؤں اِٹاں والی کی رہائشی تھیں۔ 2009 میں اسی گاؤں میں فالسے کے ایک باغ میں آسیہ بی بی کا گاؤں کی چند عورتوں کے ساتھ جھگڑا ہوا جس کے بعد ان پر پیغمبرِ اسلام کے خلاف ‘توہین آمیز’ کلمات کہنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
توہین مذہب کے اس مقدمے میں آسیہ بی بی کو 2010 میں سزائے موت سنائی گئی اور آٹھ سال قید میں رہنے کے بعد اکتوبر 2018 میں پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے ان الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے انھیں بری کر دیا تھا۔
بریت کے بعد آسیہ کچھ عرصے تک پاکستان میں ہی ایک محفوظ مقام پر رہیں جس کے بعد وہ کینیڈا منتقل ہو گئی تھیں۔
سب کچھ پانی کے ایک گلاس سے شروع ہوا
مقدمے کے آغاز کے بارے میں آسیہ کا کہنا تھا کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک گلاس پانی پینے سے بات بڑھ کر یہاں تک پہنچ جائے گی کہ ان پر توہینِ رسالت کا الزام لگے گا اور انھیں قید کاٹنی پڑے گی۔
ان کے مطابق ’ہمارا پڑوسیوں (عورتیں جنھوں نے توہین رسالت کا الزام لگایا) سے پرانا تنازع تھا۔ یہ ایک سال سے چل رہا تھا۔ ہمارا گاؤں کے نمبردار سے بھی تنازع تھا۔ اس سب کی اصل وجہ پانی کا ایک گلاس تھا۔ انھوں نے مجھے پانی دیا جو میں نے پی لیا۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ بات یہاں تک پہنچ جائے گی۔ انھوں نے جا کر قاری اسلام کو بتایا جس نے کہا کہ اس نے اس گلاس سے پانی پی کر ہماری توہین کی ہے، یہ تھی ساری بات۔‘
اس سوال پر کہ جب انھیں معلوم ہوا کہ ان پر توہینِ رسالت کا الزام لگایا گیا ہے تو ان کا ردعمل کیا تھا، آسیہ بی بی کا کہنا تھا ’مجھے تو معلوم بھی نہیں تھا۔ میں تو معمول کے مطابق باغ سے پھل چننے گئی تھی۔ مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ مجھے پکڑ کر لے جائیں گے۔ اگر میں نے کچھ غلط کیا ہوتا تو مجھے اندازہ ہوتا کہ میرے ساتھ کچھ برا ہونے والا ہے۔ میں بالکل بےگناہ تھی اور مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ میرے ساتھ ایسا کریں گے لیکن انہوں نے یہ سب کیا۔
’میرے شوہر کام پر تھے اور بچے سکول، میں باغ میں پھل چننے گئی تھی۔ ایک ہجوم آیا اور مجھے گھسیٹ کر لے گئے۔ میں بالکل بےبس تھی، میری بیٹیاں ایشا اور ایشام سکول سے واپس آ رہی تھیں جب انھوں نے دیکھا کہ کہ ایک ہجوم ان کی ماں کو لے جا رہا ہے۔ وہ مجھ سے لپٹ گئیں۔ میں نے ان سے کہا کہ جا کر اپنے باپ کو بتاؤ کہ کیا ہوا ہے۔ وہ دونوں بہت چھوٹی تھیں، ایشا نو اور ایشام آٹھ سال کی تھی۔ ایشام نے اپنی بڑی بہن نسیم کو بتایا جو گھر تھی اور اس نے اپنے والد کو مطلع کیا۔
’اتنی دیر میں وہ لوگ مجھے پولیس سٹیشن لے آئے۔ اس وقت تک میرے خلاف ایف آئی آر نہیں کٹی تھی۔ مجھے وہاں تک ٹریفک پولیس لائی تھی۔ انھوں نے مجھے مارنے کی بھی کوشش کی۔ ان کے پاس چھریاں تھیں۔ میں نے ان کے ہاتھوں میں چھانٹے، چھریاں اور پستول دیکھے۔ میں نے انھیں کہا کہ میں بےگناہ ہوں پھر انھوں نے مجھے پولیس کے حوالے کر دیا۔
’مجھے چار مہینے تک وہاں رکھا گیا لیکن اس دوران میرا چالان مکمل نہیں ہوا۔ جج نے لکھا کہ اگر یہ مقدمہ جھوٹا ہوا تو ان کے خلاف کارروائی ہو گی تو اپنے آپ کو بچانے کے لیے انھوں نے یہ مقدمہ بنایا۔‘
’جیل پہنچی تو ایک ہفتے روتی رہی‘
پاکستان میں توہینِ مذہب و رسالت کی سزا موت ہے۔ ایسے سخت الزامات پر بات کرتے ہوئے آسیہ کا کہنا تھا کہ وہ بہت ڈر گئی تھیں۔
’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میرے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے۔ میں ڈیڑھ سال تک عدالت میں پیش ہوتی رہی لیکن جج نے ایک بار بھی میرا موقف نہیں سنا۔ میں امید کرتی رہی کہ مجھے بھی بولنے کا موقع دیا جائے گا۔ میں نے پوچھا بھی لیکن انھوں نے مجھے بغیر بات کرنے کا موقع دیے سزائے موت سنا دی۔ اس کے بعد میرا مقدمہ ہائی کورٹ میں گیا۔ وہاں بھی مجھے کبھی کارروائی کے دوران پیش نہیں کیا گیا۔ میں جیل میں تھی۔ پھر میرا مقدمہ سپریم کورٹ پہنچ گیا جہاں مجھے دس برس کے بعد بری کیا گیا۔‘
جیل میں گزرے وقت کے بارے میں یاد کرتے ہوئے آسیہ کا کہنا تھا کہ وہ بہت مشکل وقت تھا۔
جب میں جیل پہنچی تو بہت روئی۔ میں ایک ہفتے تک روتی رہی کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور جو آپ بات آپ مجھ سے پوچھ رہی ہیں اس کے بارے میں بات کرنا میرے لیے بہت مشکل ہے کیونکہ اس طرح پرانی یادیں واپس آ جاتی ہیں۔ میں آپ کو نہیں بتا سکتی کہ میں کس چیز سے گزری، اس وقت کیا محسوس کر رہی تھی، کیونکہ میں رونا شروع کر دیتی ہوں۔
’میں نے جیل کے اندر بہت کچھ برداشت کیا۔ میرے ساتھ وہاں جو کچھ ہوا میں آپ کو بتا بھی نہیں سکتی۔ میں اذیت سے گزری لیکن خدا نے مجھے بہت حوصلہ اور صبر دیا۔ آپ تصور نہیں کر سکتیں لیکن میں نے معجزے دیکھے۔
آسیہ کے مطابق ’یہی نہیں بلکہ میرے بچوں کا مستقبل بری طرح متاثر ہوا، ان کی تعلیم رک گئی۔ ایشام اور ایشا سکول نہیں جا سکتی تھیں۔ میرے شوہر کا بھی میری وجہ سے بہت نقصان ہوا۔ وہ میرے لیے دربدر ہوتے رہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ میرا امتحان تھا، جس میں میں کامیاب ہو گئی یا پھر جس کا میں نے حوصلے اور صبر سے مقابلہ کیا۔
’یہ میرے لیے سب سے مشکل وقت تھا کیونکہ بہت سے لوگوں نے مجھے گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے مجھے کہا کہ مذہب تبدیل کر لو تو چھوٹ جاؤ گی۔ لیکن میں نے کہا نہیں۔ میں اپنی سزا پوری کروں گی، اپنے عقیدے کے ساتھ اور اپنے ایمان کے ساتھ جیوں گی۔ میں نے اپنی سزا پوری کی اور اب میں آپ کے سامنے بیٹھی ہوں۔
قید کے دوران اپنے اہلخانہ سے رابطے کے بارے میں بات کرتے ہوئے آسیہ نے کہا کہ ’میں ان سے بات نہیں کر سکتی تھی لیکن جب میں جیل میں تھی تو چند بار جب میرے شوہر اور میرے بچے مجھ سے ملنے آئے اور انھوں نے مجھے بتایا کہ ساری دنیا میرے لیے دعا کر رہی ہے، پاپائے روم نے بھی میرے لیے دعا کی ہے۔ اس سے مجھے بہت خوشی ملی۔
مجھے معلوم ہوا کہ ساری دنیا میری تکلیف کے خاتمے کے لیے دعاگو ہے۔ مجھے احساس ہوا کہ میں دعاؤں کی بدولت آزاد ہو جاؤں گی، میرا دل مضبوط ہوا۔ یہ سب سچ ہے۔‘
’مجھے لگتا ہے سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی زندہ ہیں‘
آسیہ بی بی کا کہنا تھا کہ انھیں قید کے دوران ہی علم ہوا کہ ان کی رہائی کے لیے کوشاں رہنے والے دو سیاستدان سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی قتل کر دیے گئے۔
’مجھے جیل میں پتہ چلا تھا تو میں بہت روئی تھی۔ میں ان کے لیے ایک ہفتے سے زیادہ روتی رہی۔ آج بھی میرا دل ان کے لیے اداس ہے اور میں انھیں یاد کرتی ہوں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مرے نہیں، وہ زندہ ہیں، خدا کی بادشاہت میں۔‘
اس سوال پر کہ شدید برے لمحات میں کبھی انھیں ایسا بھی لگا کہ وہ جیل سے زندہ باہر نہیں آ پائیں گی، آسیہ کا کہنا تھا کہ ’میں پرامید تھی۔ میں اس لیے بھی پرامید تھی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ باہر کوئی میرے لیے کوشش کر رہا ہے۔
’میرے شوہر نے مجھے بتایا تھا کہ ازابیل نامی ایک عورت میرے لیے کوشش کر رہی ہے جس نے پوری دنیا میں میرے لیے آواز اٹھائی۔ اس کے علاوہ پاپائے روم کی دعائیں بھی میرے ساتھ تھیں۔ یہی میری امید کی وجہ تھی اور اس کے علاوہ میرا ایمان بھی تھا۔ میں بہت مضبوط رہی کیونکہ مجھے احساس تھا کہ میں حق پر ہوں اور میں آزاد ہو جاؤں گی اور اب میں آزاد ہوں۔‘
’فخر ہے کہ مجھے میرے ملک میں ہی آزادی ملی‘
اس سوال پر کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بری کیے جانے پر انھیں کیسا محسوس ہوا، آسیہ نے کہا ’میں بہت خوش تھی۔ سلمان تاثیر نے پہلے بھی تحقیقات کروائی تھیں اور اس معاملے میں میری بےگناہی واضح تھی۔ میرے خلاف کوئی ثبوت نہ تھا اور میں جانتی تھی کہ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔
’اس لیے خدا نے یہ بات یقینی بنائی کہ انھیں میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا اور دنیا نے دیکھا کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا تھا اور مجھے غلط سزا دی گئی تھی۔ جب آپ بےگناہ ہوتے ہیں اور امید برقرار رہتی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ امید ایک دن پوری ہو گی اور خدا نے میرا امید پوری کر دی۔‘
رہائی کے فیصلے کے خلاف احتجاج کے بارے میں بات کرتے ہوئے آسیہ نے کہا کہ ’ملک میں احتجاج ضرور ہوا لیکن دیکھیں مجھے آزادی تو میرے ملک نے ہی دی نا اور مجھے اس پر فخر ہے کہ مجھے میرے ملک میں ہی آزادی ملی۔ اچھے، برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن یہ میرا ملک ہی تھا جس نے مجھے رہائی دی۔‘
آسیہ بی بی کا کہنا تھا کہ وہ قید کے دوران بہت خوفزدہ رہیں۔ ’میں ایک طویل عرصے تک بیمار بھی رہی لیکن اس وقت بھی میں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور خدا کا شکر ادا کرتی رہی کیونکہ خدا ہی مجھے حوصلہ دے رہا تھا اور اسی حوصلے کی بدولت میں آج زندہ ہوں۔‘
’ایک دن آئے گا جب خدا مجھے واپس پاکستان لے جائے گا‘
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی مرضی سے پاکستان چھوڑا۔ ’یہ سچ ہے، مجھے وہاں خطرہ تھا۔ میرے ساتھ وہاں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا تھا اس لیے میں نے اپنا ملک چھوڑ دیا لیکن آج بھی میرے دل میں اپنے وطن کے لیے وہی پیار ہے کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں میں پیدا ہوئی، پلی بڑھی۔ میں وہیں جیل میں رہی اور وہیں مجھے رہائی ملی۔ میں آج بھی اپنے وطن کا احترام کرتی ہوں اور اس دن کی منتظر ہوں جب میں واپس جا سکوں گی۔‘
اس سوال پر کہ کیا وہ سمجھتی ہیں کہ وہ ایک دن پاکستان واپس جا سکتی ہیں، آسیہ کا کہنا تھا کہ ’یقیناً ایسا ممکن ہے کہ چیزیں بہتر ہوں، حالات بدل جائیں اور میں سوچ سکتی ہوں کہ ایک دن آئے گا جب خدا مجھے واپس لے جائے گا اور مجھے اپنا ملک دوبارہ دیکھنے کا موقع دے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اتنی مشکلات سے گزرنے کے بعد بھی وہ پاکستان کو اپنا گھر سمجھتی ہیں۔ ’جب تک میں زندہ ہوں پاکستان ہی میرا گھر ہے۔ میرا ملک ہمیشہ میرے لیے گھر جیسا ہے۔ مشکلات کے باوجود مجھے اپنے ملک سے بےحد پیار ہے اور یہی سچ ہے کہ میں اپنے ملک سے محبت کرتی ہوں۔
’میں نے سب کو دل سے معاف کر دیا‘
اس سوال پر کہ جو ان پر بیتی کیا اس کے بعد وہ خود میں تلخی یا غصہ پاتی ہیں، آسیہ کا کہنا تھا کہ ’مجھے غصہ نہیں آ رہا۔ میں نے سب کو دل سے معاف کر دیا ہے۔ مجھ میں اب سختی نہیں تحمل ہے کیونکہ میں نے سیکھا ہے کہ کیسے اپنے بچوں کو چھوڑ کر صبر کیا جائے۔ میں خود حیران ہوتی ہوں کہ میں نے کیسے اتنا صبر کیا۔ کوئی ماں کیسے اپنی اولاد کو چھوڑ کر صبر کر سکتی ہے لیکن خدا نے مجھے صبر دیا اور میں نے مشکلات پر اسی کی مدد سے قابو پایا۔‘
رہائی کے بعد اپنے اہلخانہ سے ملاقات کے بارے میں آسیہ نے بتایا کہ ایک طویل عرصے بعد اپنے شوہر اور بچوں سے ملاقات کا خیال ہی بہت عجیب تھا۔ ’اس وقت میں اپنے جذبات ہی سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ جب میں نے اپنے بچوں کو گلے لگایا تو پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ میں ان کے بچپن کے بارے میں سوچتی رہی۔ میں ان کا بچپن نہیں بھلا سکتی۔ جب ماضی کی یادیں میرے ذہن میں آتی ہیں تو مجھے اپنی روتی ہوئی بیٹیاں یاد آتی ہیں۔ یہ میرے ماضی کا وہ حصہ ہے جو میں بھلا نہیں سکی ہوں۔‘
انھوں نے کہا ’وہ وقت لوٹ کر نہیں آ سکتا۔ میری زندگی کا وہ اہم حصہ جا چکا ہے لیکن پھر بھی میں خوش ہوں کیونکہ میرے عقیدے نے مجھے مضبوط بنایا ہے۔ اگر ایک طرف مجھے میرے بچوں سے جدا کیا گیا تو دوسری جانب میں نے خدا کے نام کے سہارے وہ سزا کاٹی اور آج میں خوش ہوں۔‘
’کہاں رہنا چاہتی ہوں ابھی فیصلہ نہیں کیا‘
اس سوال پر کہ وہ پاکستان سے نکل کر کینیڈا گئیں اور پھر فرانس آئی ہیں تو وہ اپنی بقیہ زندگی کہاں گزارنا چاہتی ہیں، آسیہ بی بی کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس بارے میں زیادہ سوچا نہیں۔
’جب مجھے آزادی ملی تو بہت کچھ بدل چکا تھا۔ میں ہر تبدیلی کو قبول نہیں کر پائی ہوں اور یہ فیصلہ بھی نہیں کر سکی ہوں کہ کہاں رہنا چاہتی ہوں۔
’جب سے میں یہاں (فرانس) آئی ہوں بہت مصروف ہوں اور اس سے پہلے کینیڈا میں بھی ایسا ہی تھا۔‘ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’مجھے فرانس سے بہت پیار ملا ہے۔ فرانس نے مجھے نام دیا ہے‘ اور ممکن ہے کہ فرانسیسی صدر سے ملاقات کے بعد کوئی خبر سامنے آئے۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ قید کے طویل دورانیے میں جس طرح میڈیا نے ان کے مقدمے کے بارے میں آگاہی پھیلائی وہ قابلِ ستائش ہے۔ ’میں تمام صحافیوں اور میڈیا کی شخصیات کی شکر گزار ہوں اس سب کے لیے جو انھوں نے کیا جس سے مجھے ہمت ملی اور آزادی بھی۔
آسیہ بی بی کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کی جیلوں میں توہینِ مذہب کے الزامات میں قید شگفتہ کوثر اور شفقت ایمینوئل جیسے افراد کے لیے امید کی کرن بن سکتی ہیں۔ ’جیسے ایزابیل نے میرے لیے آواز اٹھائی اور آج میں آزاد ہوں۔ میں تمام میڈیا سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ شگفتہ کے لیے کام کریں تاکہ وہ بھی رہا ہو سکے اور میں اسے کہتی ہوں کہ وہ دن آئے گا جب وہ بھی آزاد ہو گی۔‘