امریکی خلائی ایجنسی ناسا کی جانب سے جاری کردہ تازہ سیٹلائٹ تصاویر میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حالیہ دنوں میں چین میں فضائی آلودگی کی سطح ڈرامائی حد تک کم ہوئی ہے۔
ناسا کے مطابق فضائی آلودگی میں کمی کی وجہ کورونا وائرس کے باعث چین بھر میں معاشی سرگرمیوں کا ماند پڑنا ہے۔
ناسا کی جانب سے جاری کردہ نقشے ظاہر کرتے ہیں کہ چین کی فضاؤں میں حالیہ دنوں میں گذشتہ برس کے انھی دنوں کے مقابلے میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی سطح کم ہوئی ہے۔
بظاہر ایسا چین میں لگی فیکٹریوں میں سرگرمیاں ماند پڑنے کی وجہ سے ہے کیونکہ فیکٹری مالکان کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کی غرض سے لیے جانے والے اقدامات کے تحت فیکٹریاں بند کیے بیٹھے ہیں۔
چین کورونا وائرس کے 80 ہزار تصدیق شدہ کیسز سامنے آ چکے ہیں۔
یہ وائرس اب 50 ممالک میں پھیل چکا ہے تاہم اس وائرس سے متاثرہ زیادہ تر افراد چین میں ہی ہیں اور وہیں سب سے زیادہ ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ چین ہی اس وبا کے پھوٹنے کا مرکز بھی ہے۔
ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، جس کا اخراج سب سے زیادہ گاڑیوں اور صنعتی یونٹس سے ہوتا ہے، کی فضا میں کمی سب سے پہلے چین کے شہر ووہان میں دیکھنے میں آئی۔ ووہان وہ شہر ہے جہاں سے کورونا وائرس کی ابتدا ہوئی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے پورے چین اور بعد میں دیگر ممالک میں پھیل گیا۔
ناسا کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی کی سطح میں کمی کی ایک اور وجہ چین کے بعض علاقوں میں ذرائع آمدورفت اور کاروباری سرگرمیوں پر لگنے والی پابندی ہے، جس کے بعد بہت سے افراد کو قرنطینہ میں بھی رکھا گیا۔
ناسا کے خلائی فلائٹ سینٹر میں فضا کی کوالٹی پر تحقیق کرنے والی فی لیو کہتی ہیں کہ ’میں نے پہلی مرتبہ اتنے بڑے رقبے پر (فضائی آلودگی میں) اتنی ڈرامائی حد تک کمی دیکھی ہے۔‘
اپنے ایک بیان میں ان کا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے سنہ 2008 میں عالمی سطح پر آنے والی معاشی کساد بازاری کے دوران فضا میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں کمی کا مشاہدہ کیا تھا مگر اس وقت ہونے والی کمی بہت بتدریج تھی۔
ناسا کا کہنا ہے کہ ماضی میں چین میں فضائی آلودگی کی سطح میں کمی جنوری کے آغاز اور فروری کی ابتدائی ایام میں اس وقت دیکھی جاتی ہے جب نئے چینی سال کے سلسلے میں عام تعطیلات ہوتی ہیں۔
مگر نئے سال کے جشن کے ختم ہوتے ہیں عمومی طور پر یہ سطح دوبارہ بڑھ جاتی ہے۔
فی لیو کہتی ہیں کہ ’(آلودگی میں) کمی کی شرح گذشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہے اور اس کا دورانیہ بھی طویل ہے۔‘
’مجھے (اس کمی پر) حیرت نہیں ہے کیونکہ ملک بھر میں بہت سے شہروں نے وائرس کے پھیلاؤ کو کم سے کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔‘