اپوزیشن کے لیے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ وہ پارلیمان میں احتجاج اور ہنگامہ کرے لیکن حکومت کی طرف سے پارلیمان میں احتجاج اور شور بہت افسوسناک اور حیران کن ہے۔ بجٹ سیشن شروع ہونے کے ایک ہفتہ کے بعد بھی ابھی تک فائنانس بل پر بحث شروع نہیں ہو پائی ہے۔ کاروائی کو متاثر کے لیے اس طرح کا رویہ حکومت کی طرف سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا اوراس سے ملک کے سب سے بڑے منتخب ادارے کا مذاق بن گیا ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے گرفتار لیڈران کے پروڈکشن آرڈر نہ جاری ہونے اور حکومت کی طرف سے سختی سے اپوزیشن کا مطالبہ نہ ماننے کے رویہ سے لگتا ہے کہ پارلیمان میں عقل پر مبنی کوئی بھی جلد دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ حکومت اگرچہ پھر بھی فائنانس بل کو بلڈوز کر سکتی ہے لیکن اس سے حکومت اور اپوزیشن کے بیچ سٹینڈ آف ختم نہیں ہو گا۔
اگرچہ متحدہ اپوزیشن نے پارلیمان کے باہر ہنگامہ کر کے معاملہ گرم کیا ہے لیکن وزیر اعظم عمران خان بھی بہت جارحانہ موڈ میں نظر آتے ہیں۔ ان کی ٹون زیادہ سخت ہو چکی ہے۔ صورتحال کو بہتر کرنے کی بجائے عمران خان چاہتے ہیں کہ ان کے ممبران زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کریں اور نیشنل اسمبلی میں اپوزیشن کی تقاریر کے راستے میں روڑے اٹکائیں۔
منتخب پارلیمانی ممبران کی طرف سے ایک دوسرے کو چور ڈاکو قرار دینا اور تلخ کلامی بہت تکلیف دہ امر ہے۔ اس سے قبل کبھی پارلیمان کے تقدس کو اس طرح پامال نہیں کیا گیا جتنا اب کی بار کیا جا رہا ہے۔ آج کل اس طرح کے تکلیف دہ مناظر ایک روٹین بن چکے ہیں اور عوام کا منتخب اداروں پر اعتماد بحال کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔
پچھلے دس ماہ میں اہم پالیسی مسائل پر بہت کم گفتگو اور بحث و مباحثہ نیشنل اسمبلی میں دیکھنے کو ملا ہے ، قانون سازی تو بہت دور کی بات ہے۔ اس کی ذمہ داری دونوں اطراف پر عائد ہوتی ہے لیکن زیادہ کردار حکومتی بنچوں کا رہا ہے۔ صورتحال کو بہتر کرنے کی بجائے کچھ وزرا اپوزیشن کو اشتعال دلانے میں زیادہ دلچسپی دکھاتے نظر آتے ہیں۔بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن رہنماوں کی طرف سے نعرے اور احتجاج جس کا مقصد حماد اظہر کی تقریر میں خلل ڈالنا تھا اور پھر پی ٹی آئی ممبران کے خلاف عملی طور پر گھمسان کی لڑائی ایک افسوسناک امر تھا۔ یہ سچ ہے کہ اس طرح کے مناظر ہمارے پارلیمنٹ میں نئے نہیں ہیں لیکن تیسری بات جمہوری انتقال اقتدار کے بعد ایم این ایز سے بہتر رویہ کی توقع کی جا رہی تھی ۔ شاید یہ سچ ہے کہ موجودہ پارلیمان کی پرفارمنس سابقہ دونوں اسمبلیوں کے مقابلے میں شرمناک ہے۔
حکومتی پارٹی کے لیے یہ کسی طرح بھی قابل فہم بات نہیں کہ وہ پارلیمانی ممبران جنہیں نیب نے گرفتار کر رکھا ہے کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے انکار کرے۔ یہ سابقہ روایات سے دست برداری کی علامت ہے اور سپیکر جسے عام طور پر غیر جانبدار قرار دیا جاتا ہے کا کردار اس معاملے میں بہت متنازعہ ہے۔ ایسے لیڈران جو ابھی تک سزا یافتہ نہیں ہیں اور محض الزامات کی بنیاد پر گرفتار ہیں کے پروڈکشن آرڈ جاری نہ کرنے کے پیچھے کوئی عقلی دلیل نظر نہیں آتی۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے ممبران کے علاوہ پارلیمان میں موجود ہر شخص کو کرپٹ سمجھتے ہیں اور انہیں پارلیمان میں دیکھنا نہیں چاہتے۔ خود پسندی کا یہ نظریہ ملک میں سیاسی ٹینشن میں اضافے کا باعث ہے اور اس کی وجہ سے منتخب جمہوری ادااروں کی توقیر میں بھی کمی آ رہی ہے۔
اپوزیشن لیڈرز پر نیب کا دھاوا نہ دیکھ کر عمران خان نے اب فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایک کمیشن بنائیں گے جو قرض کے مسئلے پر تحقیقات کرے گا ۔ وہ اس قرض کے معاملے کو پچھلی حکومتوں کے ادھار لیے گئے اربوں روپے کے غلط استعمال سے تعبیر کرتے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ اتنے بڑے قرضے جو ماضی میں حکومتوں نے لیے انہیں ان کی وجہ سے ملک سخت ترین مالی بحران کا شکار ہے۔ لیکن اس کا زیادہ تعلق غلط معاشی اور خسارہ کی پالیسیوں سے ہے اور اس کا کرپشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عمران خان کے مطابق معاشی ماہرین اورفنانشل ایکسپرٹس کی بجائے ملٹری اور سول خفیہ ایجنسیاں قرض کے مسئلے کی تحقیقات کریں گی۔ اس کا مقصد مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہونا چاہیے نہ کے مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائی ۔
عمران خان معاملات کو بہت تنگ نظری سے دیکھتے ہیں۔ وہ پیچیدہ معاملات کو حل کرنے کے لیے بھی بہت سادہ سی اپروچ رکھتے ہیں۔ حکومت میں آنے کے بعد پے درپے غلطیوں کی وجہ ان کا یہی رویہ رہا ہے۔ لیکن ان کی حکومت کے لیے اس سے بھی زیادہ خطرناک چیز ان کا خفیہ ایجنیوں پر غیر ضروری انحصار اور انہیں اپنے اختیارات پر قابض ہونے کی اجازت دینا ہے۔ انہوں نے پچھلے ہفتہ آدھی رات کو جو خطاب کیا وہ قومی سطح پر ایک سبکی تھا۔ بجٹ کے اعلان کے کچھ گھنٹے بعد اپوزیشن کو دھمکانے کی کوئی عقلی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وزیر اعظم عوام کو بتائیں گے کہ اس قدر سخت معاشی اقدامات اٹھانا کیوں ضروری ہے اور اس اصلاحاتی پروگرام کے لیے عوامی رائے کو اپنی طرف مائل کریں گے۔
لیکن انہوں نے پوری تقریر میں ادھر اُدھر کی باتیں کرتے ہوئے صرف سابقہ حکومتوں پر الزامات پر اکتفا کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ معیشت کو استحکام بخشنے کے بعد کرپشن کے خلاف کاروائی کے وعدے پر زیادہ توجہ دیں گے۔ البتہ ان کی طرف سے معیشت کو راہ پر ڈالنے کا وعدہ قبل از وقت ہے۔ معاشی بحران کو ختم ہونے میں ابھی بہت عرصہ لگے گا۔ یہ سچ ہے کہ پی ٹی آئی گورنمنٹ کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ اس معاشی بحران کو ختم کریں جو انہیں وراثت میں ملا ہے اور ایسا کرنے کے لیے انہیں سخت اور غیر مقبول اقدامات بھی اٹھانا پڑیں گے۔ لیکن عمران خان کی طرف سے مقابلہ بازی کا رویہ حکومت کے لیے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دے گا۔
ان مشکل لیکن ضروری بجٹ اقدامات کے لیے، حکومت کو سیاسی درجہ حرارت کو بڑھانے کے بجائے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ بےشک معشیت بحالی کی چند علامات سامنے آ رہی ہیں ، لیکن مسلسل سیاسی عدم استحکام اسکے احیاء پر اثر ڈال سکتا ہے ۔ پارلیمنٹ کوغیرمتعلقہ بنا کر،حکومت غیرمنتخب تنظیموں پراعتمادکرنےکی کوششکررہی ہے۔ ٹیکنوکریٹس بعض شعبوں میں مہارت فراہم کرنےکےلئےمفید ہیں لیکن انہیں فیصلہ سازی کے عمل پر اختیار اورحکومت چلانےکی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔
چندغیرمصدقہ رپورٹس یہ ظاہر کرتی ہیں کہ حکومت ‘معاشی سلامتی کونسل’ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے جن میں ٹاپ سکیورٹی لیڈر شپ شامل ہو گی۔ ۔اس طرح کا اقدام سویلین اتھارٹی کو کمزور اورباقاعدہ طور پر فوج کے کردارکو وسیع ہی کر سکتا ہےاگرچہ پی ٹی آئی حکومت میں فوج کا سایہ پہلے ہی کافی وسعت حاصل کر چکا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کی لیڈر شپ میں حالیہ تبدیلی سے بھی بہت سے سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔ اپوزیشن اتحاد کو دیکھتے ہوئے یہ تبدیلی زیادہ اہمیت کی حامل بن چکی ہے۔ یہ خدشات مبالغہ آرائی پر مبنی ہو سکتے ہیں لیکن زاویہ نظر زیادہ اہم ہوتا ہے۔
معاشی اور سیاسی استحکام کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ سویلین جمہوری عمل کومضبوط بنانا اقتصادی بحالی کےلئےایک اہم شرط ہے۔یہ بات حکومت کے مفاد میں ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی کشیدگیوں کوکم کرے۔ایک مخاصمانہ سوچ حکومت کو اور زیادہ نقصان پہنچاسکتی ہے۔پارلیمنٹ کے تقدس اور اس کے کردار کو ایک نمائندہ ادارہ کے طور پربحال کرناضروری ہے۔