اشرف غنی کو ’’اسی تنخواہ‘‘ پر گزارا کرنا ہو گا
قطر کے شہر دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے مابین ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تو ہمارے ہاں مبارک سلامت کا شوربرپا ہوگیا۔افغانستان کی تاریخ اور گزشتہ 40برس کے تلخ مگرٹھوس حقائق بھلاتے ہوئے ہم پاکستان کے ’’اصولی مؤقف‘‘ کی کامیابی کی بابت شاداں محسوس کرنا شروع ہوگئے۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب کے پرستار اپنے تئیں بہت فخر سے دنیا کو یاد دلانے میں مشغول ہوگئے کہ ان کے ممدوح ہمیشہ افغان مسئلے کے حل کے لئے مذاکرات پر اصرار کرتے رہے ہیں۔ انہیں حق کی آواز بلند کرنے کی بناء پر ’’طالبان خان‘‘ پکارا گیا۔ ان کے ’’لبرل اور ترقی پسند‘‘ مخالفین کو دوحہ میں ہوئے معاہدے کے بعد شرمساری کا اعتراف کرنا چاہیے۔
متحرک صحافت کے دنوں میں کم از کم 20برس افغان امور پر بھی نگاہ رکھی ہے۔ اس ملک کے حقائق کو برسرزمین دیکھنے کے لئے کئی بار اس ملک بھی گیا ہوں۔دومرتبہ اس کی وجہ سے میزائلوں کی بدولت آئی موت کا خطرہ بھی مول لیا۔افغان تاریخ اور ثقافت سے تھوڑی واقفیت نے لہذا یہ درخواست کرنے کو مجبور کردیا کہ فی الوقت شادیانے بجانے کے بجائے اندیشہ ہائے دور ودراز کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔اتوار کی صبح اس ضمن میں کالم لکھ کر دفتر بھجوادیا تو چند ہی گھنٹوں بعد دریافت ہوا کہ میرے اندیشے اتنے بھی دورودراز نہیں تھے۔افغان صدر اشرف غنی نے کابل میں ایک طولانی پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔بعدازاں موصوف بھارتی نژاد امریکی اینکر فریدذکریا کے CNNوالے پروگرام میں بھی نمودار ہوگئے۔دونوں مقامات پر افغان صدر اصرار کرتے رہے کہ ان کی حکومت دس مارچ تک پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کی پابند نہیں ہے۔ان کی حکومت ’’خودمختار‘‘ ہے۔اپنی حراست میں موجود قیدیوں کو امریکہ کے حکم پر رہا کرنے کی پابند نہیں۔امریکہ نے دوحہ معاہدے میں ویسے بھی فقط یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو دس مارچ سے قبل رہا کروانے میں ’’سہولت کار‘‘ کا کردار ادا کرے گا۔امریکہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے بھی افغان حکومت طالبان قیدیوں کی رہائی کے معاملے میں ’’کیس ٹو کیس‘‘ غور کرے گی۔’’دہشت گردی‘‘ کی سنگین کارروائیوں میں مبینہ طورپر ملوث قیدیوں کو یکمشت رہا نہیں کیا جاسکتا۔اشرف غنی اپنی حکومت کی ’’خودمختاری‘‘ یا ددلاچکے تو ٹرمپ اپنے حامیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرنے چلا گیا۔وہاں اس نے اپنے مخصوص انداز میں طالبان کی جنگجو صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ان کے ہاتھوں سوویت یونین کی شکست کو مکارانہ طنز سے یاد کیا۔اپنے مزاج کے عین مطابق اگرچہ یہ حقیقت فراموش کرگیا کہ سوویت یونین کو ’’طالبان‘‘ نے نہیں ’’مجاہدین‘‘ نے دیوار کے ساتھ لگایا تھا۔ طالبان مابعدسوویت یونین صورت حال کی وجہ سے نمودار ہوئے تھے۔ ٹرمپ مگر ٹرمپ ہے۔اسے ’’تاریخ‘‘ کا واجبی علم بھی میسر نہیں ہے۔حال ہی میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں حیران کن انکشاف یہ بھی ہوا کہ جاپان کے دورے میں اسے یہ خبر بھی نہ تھی کہ ’’پرل ہاربر ‘‘کیا ہے جس کی وجہ سے امریکہ جنگ عظیم میں جاپان کو شکست دینے کے لئے متحرک فریق کا کردار ادا کرنے کو مجبور ہوا تھا۔عالمی منظر نامے پر ٹرمپ کو ڈرامائی ماحول پیدا کرنے کی علت لاحق ہے۔ وہ خود کو دنیا کا حتمی Deal Makerتصور کرتا ہے۔اسے یہ زعم ہے کہ امریکی سفارت کار نکمّے ہیں۔ان کے مقابلے میں اگر وہ امریکہ کے کسی دیرینہ حریف سے مل لے تو اسے گفتگو سے رام کرسکتا ہے۔اپنی ’’پُرکشش‘‘ شخصیت کا اثرثابت کرنے کے لئے وہ گزشتہ برس جنوبی کوریا سے شمالی کوریا کی سرحد میں چلا گیاتھا۔شمالی کوریا کے صدر سے وہاں اس نے ’’گرم جوش‘‘ ملاقات کی۔ اس ملاقات سے اگرچہ حاصل کچھ نہیں ہوا۔وقتی طورپر ڈرامائی فوٹیج اور Photo OPsکا اہتمام البتہ ہوگیا۔گزشتہ ہفتے دوحہ میں امریکہ-طالبان معاہدے ہونے کے بعد اس نے کیمروں کے آگے یہ اعلان کیا ہے کہ ’’جلد ہی‘‘ اس کی طالبان رہ نمائوں سے ملاقات بھی ہوگی۔طالبان سے ملاقات کا وہ گزشتہ برس بھی منتظر تھا۔ان کے رہ نما کیمپ ڈیوڈ جاکر امریکہ سے معاہدے پر دستخط کے لئے تیار نہ ہوئے۔طیش میں آکر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ لکھ کر طالبان سے جاری مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کردیا۔مذاکرات کے احیاء کے لئے امریکی سفارت کاروں کو صبر سے بہت دنوں تک انتظا رکرنا پڑا۔دوحہ کا معاہدہ ہوجانے کے بعد وہ ایک بار پھر طالبان رہ نمائوں سے ملاقات کا متمنی ہے۔ ٹرمپ کے بہت قریب تصورہوتے امریکی وزیر خارجہ سے جب ایک ٹی وی اینکر نے طالبان سے ممکنہ ملاقات کی تاریخ جاننا چاہی تو وہ حیران ہوکر یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہوگیا کہ اسے امریکی صدر کی طالبان رہ نمائوں سے ملاقات کے امکان کے بارے میں کچھ خبر نہیں۔سفارتی زبان میں اگرچہ اس نے اشرف غنی کو اس کا نام لئے بغیر پیغام دیا کہ دوحہ میں جو تحریری معاہدہ ہوا ہے اس پر عملدرآمد ’’فریقین‘‘ کے لئے ضروری ہے۔اس تناظر میں ہم یہ سوچنے کو مجبور ہیں کہ اپنی ’’خودمختاری‘‘ کا ڈھول بجاتے اشرف غنی طالبان قیدیوں کو دس مارچ سے قبل رہا کرنے کو مجبور ہوں گے۔’’بین الاافغان مذاکرات ‘‘کے آغاز کے لئے یہ رہائی ضروری ہے۔اشرف غنی کی تلملاہٹ مگر ٹھوس وجوہات کی بناء پر سمجھی جاسکتی
ہے۔موصوف کی ’’خودمختار‘‘ حکومت زلمے خلیل زاد اور طالبان کے مابین ہوئے مذاکراتی عمل کے بارے میں عموماََ بے خبر رہی۔ افغان انتظامیہ کو محض مرحلہ وار چند تفصیلات سے آگاہ کیا جاتا رہا۔نظر بظاہر اشرف غنی ایک اور صدارتی انتخاب کے نتیجے میں اپنے ملک کے دوبارہ صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ان کی ’’جیت‘‘ کا اعلان مگر انتخابی عمل کے کئی ماہ گزرنے کے بعد ہوا ہے۔اس ’’جیت‘‘ کو اگرچہ عبداللہ عبداللہ ہی نہیں افغانستان کے کئی تگڑے افراد بھی تسلیم نہیں کررہے۔ اپنی ’’جیت‘‘ کے بارے میں اٹھے سوالات کو نظرانداز کرتے ہوئے ڈاکٹر اشرف غنی فروری کی 27تاریخ کو ’’حلف‘‘ اٹھانے کے بعد اپنی نئی Termکا آغاز کرنے جارہے تھے۔ حلف برداری کی اس تقریب میںشرکت کے لئے پاکستان کے چند اپوزیشن رہ نمائوں کو شرکت کی باقاعدہ دعوت بھی دی گئی تھی۔امریکی حکام نے مگر موصوف کو قائل کردیا کہ ہفتے کے دن امریکہ-طالبان معاہدے پر دستخط کو یقینی بنانے کے لئے مذکورہ تقریب مارچ کی دس تاریخ تک مؤخر کردی جائے۔10مارچ کو ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنے ’’دوسرے دورِ صدارت‘‘ کے آغاز کاحلف اٹھالیا تو شاید اپنی ’’شکرگزاری‘‘ والی تقریر میں اسے پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کا اعلان بھی کرنا پڑے گا۔ یہ نہ ہوا تو موصوف ’’بین الاافغان ‘‘ مذاکرات کے آغاز میں بنیادی رکاوٹ ٹھہرادئیے جائیں گے۔یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ افغان حکومت کی ’’خودمختاری‘‘ وسیع تر تناظر میں نہایت کھوکھلی ہے۔اس کا انتظامی ڈھانچہ اپنی بقاء کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے آئی رقوم کا مرہون منت ہے۔ڈاکٹر اشرف غنی کی ’’خودمختاری‘‘ ان کی جانب سے آئے ایک جھٹکے کی مار ہے۔اشرف غنی کے مقابلے میں حامد کرزئی ایک بہت ہی کائیاں سیاستدان ہے۔ افغانستان کی قبائلی حرکیات کو بھی وہ جبلی طورپر خوب سمجھتا ہے۔اشرف غنی کے مقابلے میں وہ اکثراپنی ’’خودمختاری‘‘ مؤثر انداز میں بروئے کار بھی لاتا رہا۔تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ملابرادر سے روابط استوار کرنے کے بعد طالبان سے مذاکرات کی راہ بھی اسی نے 2011میں تلاش کی تھی۔امریکہ نے کمال رعونت سے مگر اس کی خواہش کو ویٹو کردیا۔ایک ’’خطرناک دہشت گرد‘‘ کی حیثیت میں ملابرادر بلکہ آٹھ برس تک حکومتِ پاکستان کا قیدی رہا۔ طالبان سے مذاکرات کے لئے زلمے خلیل زاد کو ملابرادر کی رہائی یقینی بنانا پڑی۔کوئی پسند کرے یا نہیں فی الوقت ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ نومبر2020کے صدارتی ا نتخاب میں اپنی جیت یقینی بنانے کے لئے امریکی عوام کو یہ دکھانا چاہ رہا ہے کہ اس نے افغانسان میں 19برسوں سے جاری ’’بے مقصد جنگ‘‘ کے خاتمے کا بندوبست کرلیا ہے۔اس بندوبست کا عملی مظاہرہ وہ فقط طالبان کی معاونت ہی سے حاصل کرسکتا ہے۔ پاکستان کا بھرپور تعاون بھی اس ضمن میں اسے درکار ہے۔نومبر2020تک لہٰذا وہ طالبان اور پاکستان کی چاپلوسی کو مجبور رہے گا۔ اس کی بنیادی ترجیح ہے کہ امریکی صدارتی انتخاب تک دوحہ میں ہوئے معاہدے پر عملدرآمد ہوتا نظر آئے۔ڈاکٹر اشرف غنی کے پاس اس معاہدے کیخلاف Spoilerکا کردار ادا کرنے کے لئے مناسب پتے موجود نہیں ہیں۔ موصوف کو ’’اسی تنخواہ‘‘ پر گزارہ کرنا ہوگا۔دوحہ میں ہوئے معاہدے کو ’’سبوتاژ‘‘ کرنے کی طاقت موصوف کے پاس موجود ہی نہیں۔یہ معاہدہ اگر نومبر2020سے پہلے سبوتاژ ہوا تو Spoilerکوئی اور قوتیں یا کردار ہوں گے۔