موجودہ حکومت پر ہی کیا موقوف؟ ماضی کی بھی سبھی حکومتیں جھوٹ کے سہارے چلتی رہی ہیں۔ ہاں! موجودہ حکومت کا ریکارڈ ان سے قدرے بہتر ہے۔ میرا مطلب ہے‘ جھوٹ بولنے میں ان کا درجہ ماضی والوں سے اونچا ہے۔ ویسے بھی موجودہ حکومت میں موجود بہت سے تجربہ کار تو وہی ہیں‘ جو گزشتہ حکومتوں کا حصہ تھے اور سابقہ تجربہ مزید بہتری کے ساتھ بروئے کار لا رہے ہیں۔ ایک انگریزی کہاوت ہے کہThere is no shortcut to experience یعنی تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں‘ لہٰذا ان کو روز افزوں تجربہ مزید پالش کئے جا رہا ہے‘ لیکن اپنے بزدار صاحب داد کے مستحق ہیں کہ اتنے کم پارلیمانی اور حکومتی تجربے کے ‘دیگر حکومتی معاملات میں مکمل طور پر فیل ہونے کے باوجود اس معاملے میں تجربہ کاروں سے کسی طور کم نہیں ہیں۔
حالانکہ یہ بات لکھتے ہوئے ایک خوف لاحق ہے کہ کہیں اس عاجز کے ساتھ بھی وہی کچھ نہ بیت جائے ‘جو عظمیٰ بخاری صاحبہ کے ساتھ آٹے کے بحران پر بیان دینے کے بعد ہوا۔ جونہی انہوں نے آٹے کے بحران پر اسمبلی میں سوال اٹھایا‘ گندم کے حکومتی مدار المہام نے آٹے کا ایک پورا ٹرک ان کے گھر بھجوا دیا۔ اب رکن اسمبلی عجب مشکل میں ہیں۔ ٹرک گھر اتروا لیں تو مصیبت اور واپس بھجوا دیں تو مصیبت۔ بات حکومتی دعووں کی ہو رہی تھی۔ ملک میں جونہی کورونا وائرس کا خوف پھیلا ہے‘ اس وائرس سے بچاؤ کی سب چیزیں غائب ہو گئی ہیں۔ ظاہر ہے غائب کرنے کا واحد مقصد صرف اور صرف ان کی شارٹیج پیدا کر کے مال کمانا ہے‘ جیسا کہ آٹے والے معاملے میں ہوا۔ گندم باافراط موجود تھی ‘مگر ایسا ہوّا کھڑا کیا گیا کہ آٹے کی قیمت دو دن کے اندر اندر ڈیڑھ گنا ہو گئی۔ یہی حال حفاظتی دستانوں کا‘ ہینڈ سینی ٹائزر اور ماسک کا ہے۔ اپنے بزدار صاحب نے آج اپنے اخباری بیان میں فرمایا ہے کہ صوبے میں ماسک وغیرہ کی کوئی قلت نہیں اور کسی کو ماسک کی قیمت بڑھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اب اس قیمت بڑھانے کیلئے اجازت مانگنے کی بات پر تو بقول چودھری شجاعت حسین صاحب ”مٹی پاؤ‘‘ کیونکہ نہ پہلے کسی نے اپنی چیز بڑھانے کیلئے حکومت سے کبھی اجازت مانگی ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی کوئی مانگے گا اور بھلا اجازت مانگنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جن سے اجازت مانگنی ہوتی ہے اگر وہ خود ہی قیمتیں بڑھا رہے ہوں تو پھر کون کس سے اجازت مانگے گا؟ کیا آٹے کی قیمت بڑھانے کیلئے کسی نے حکومت سے اجازت مانگی؟ کیا چینی کی قیمت پینتالیس روپے فی کلو سے اسی روپے فی کلو گرام کرنے سے پہلے کسی نے حکومت سے اجازت مانگی؟ کیا اب اگلے ماہ سے شروع ہونے والے رمضان المبارک میں پھلوں‘ سبزیوں اور پکوڑوں سموسوں کی قیمتیں بڑھانے کیلئے کوئی حکومت سے اجازت مانگے گا؟ ان سب دلیر لوگوں نے نہ تو پہلے ہی کبھی حکومت سے اس قسم کی فضول اجازت مانگی ہے اور نہ ہی آئندہ ایسی حماقت کریں گے۔رہ گئی بات ماسک وغیرہ کی قلت کی تو اس سلسلے میں اس فدوی کا ذاتی تجربہ اور بزدار صاحب کا بیان ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ عاجز اس سلسلے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے تھا کہ کہیں کل کلاں کوئی حکومتی محکمہ ماسک کا ایک عدد ڈبہ اس عاجز کے گھر کے دروازے پر نہ رکھ جائے۔ لیکن اب بات چل نکلی ہے تو میرا خیال ہے ذاتی تجربے کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
میں اگلے ہفتے بیرون ملک جا رہا ہوں اور ایک آدھ ملک میں نہیں‘ بلکہ آدھ درجن ممالک میں جانے کا پروگرام ہے۔ اس سلسلے میں کم از کم چھ سات ایئر پورٹس‘ دو تین ٹرین سٹیشنز اور تین چار بس اڈوں کی یاترا کرنی پڑے گی۔ ظاہر ہے یہ وہ جگہیں ہیں‘ جہاں دنیا بھر سے آنے والے مسافروں سے پالا پڑے گا۔ میں نے احتیاطی تدبیر کے طور پر سوچا کہ ان پبلک مقامات پر کورونا وائرس سے ممکنہ بچاؤ کی خاطر دو چار ماسک ساتھ رکھ لئے جائیں۔ اب ‘اس ارادے کے بعد کی کہانی وزیراعلیٰ کے بیان کی مکمل نفی کرتی ہے کہ ماسک وافر تعداد میں ہیں۔ وافر تو رہے ایک طرف‘ ماسک بمشکل بھی دستیاب نہیں۔
سب سے پہلے تو میں نے اپنے گھر کے قریب واقع تین چار بڑے میڈیکل سٹورز سے ماسک کا معلوم کیا۔ اس سلسلے میں کسی سمجھدار بندے نے بتایا کہ آپ عام قسم کے کاغذی ماسک نہ لینا بلکہ N-Sیا N-95 ماسک لینا۔ اس ہدایت نے مشکل کو مزید بڑھا دیا۔ میڈیکل سٹور والوں نے کہا کہ آپ بہت دیر سے آئے ہیں۔ ماسک وغیرہ نامی چیز کو ختم ہوئے ایک ڈیڑھ ہفتہ گزر چکا ہے۔ پھر میں نے اپنے ایک دوست طاہر کو خانیوال فون کیا کہ اس سے معلومات لی جائیں کہ ماسک کہاں سے مل سکے گا؟ طاہر کا خانیوال میں میڈیکل سٹور ہے اور ایسے معاملات میں ہمیشہ اسی سے مدد لی جاتی ہے۔ طاہر نے میری مشکل کا سنتے ہی مایوسی سے جواب دیا کہ بھائی آپ بہت کاہل اور سست آدمی ہیں۔ آپ کو یہ کام پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ مارکیٹ میں ماسک اول تو دستیاب ہی نہیں اور جن کے پاس ہیں وہ اپنے اگلے پورے سال کی کمائی اسی ایک آئٹم سے کرنا چاہتے ہیں‘ تاہم آپ ملتان میں فلاں سرجیکل والوں کے پاس جائیں اور میرا بتائیں۔ میں بھی انہیں فون کر دوں گا۔ ان شا اللہ بہتری ہوگی۔
اس روز جمعہ تھا اور سرجیکل سٹورز بند تھے۔ جو کھلے تھے وہ ماسک نامی چیز سے مکمل اعلانِ لاتعلقی کر رہے تھے۔ اگلے روز میں طاہر کے بتائے ہوئے دو سرجیکل سٹورز پر گیا اور انہیں طاہر کا حوالہ دے کر ماسک طلب کیے مگر انہوں نے وہی جواب دیا جو میں گزشتہ تین دن سے سن رہا تھا کہ آپ لیٹ ہو گئے ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ اب میں آپ دوکانداروں کی بات پر یقین کروں یا اپنے معزز اور محترم وزیراعلیٰ کے دعوے کو سچ سمجھوں؟ میرے پیارے وزیر اعلیٰ نے بڑے یقین سے فرمایا ہے کہ ماسک کھلے عام دستیاب ہیں اور ان کی کوئی قلت نہیں۔ ادھر آپ فرما رہے ہیں کہ ماسک نامی چیز کا ایک ”دانہ‘‘ آپ کے پاس موجود نہیں۔ ان گستاخوں نے بزدار صاحب کا بیان سنتے ہی ہنسنا شروع کر دیا۔ پہلے پہل تو مجھے شدید غصہ آیا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو وزیراعلیٰ کے نام پر گھبرانے کے بجائے ٹھٹھا اڑا رہے ہیں۔ پھر میں نے بھی ان کے ساتھ مل کر ہنسنا شروع کر دیا۔ جب ہم سب مل کر ہنس چکے تو ان میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا کہ میں کیوں ہنسا ہوں۔ میں نے کہا پہلے آپ نے ہنسنا شروع کیا تھا ‘لہٰذا پہلے آپ بتائیں کہ آپ کیوں ہنسے تھے؟ میرا خیال تھا کہ وہ وزیراعلیٰ کے بیان پر ہنسے ہوں گے‘ مگر میرا خیال غلط تھا۔ وہ کہنے لگا: ہم آپ کے بھولپن پر ہنسے تھے۔ پھر وہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ آپ کیوں ہنسے تھے؟ میں نے کہا میں بھی اپنی حماقت پر ہی ہنسا تھا۔ یہ کہہ کر میں نے دوبارہ ہنسنا شروع کر دیا۔ سرجیکل سٹور کے مالک کے علاوہ وہاں موجود دو چار گاہکوں نے بھی میری صاف گوئی پر ہنسنا شروع کر دیا۔
چارو ناچار لاہور آغا نثار کو فون کر کے کہا کہ وہ کہیں سے ماسک پیدا کر کے بھجوائے۔ اگلے روز آغا نثار نے نہایت افسردہ لہجے میں خبر سنائی کہ ماسک کہیں نہیں مل رہے۔ پھر ایک دم چہکتے ہوئے لہجے میں بولا۔ خالد بھائی! ماسک تو نہیں مل رہے۔ اگر کہیں تو دو درجن باقر خانیاں بھجوا دوں؟ میرا خیال ہے جو پچھلی بار بھجوائی تھیں وہ ختم ہونے والی ہوں گی۔ میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ آغا نثار کا دل توڑوں۔ ویسے بھی اگر ماسک نہ مل رہا ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بندہ باقر خانیوں سے ناشتہ کرنا بھی چھوڑ دے! ویسے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے‘ ملک میں باقر خانیاں باافراط میسر ہیں۔