کیلنڈر پر مارچ کا مہینہ اتر آیا ہے اور نامیاتی ترتیب سے خشک ٹہنیوں پر کونپلیں بھی ہر برس کی طرح نمودار ہو رہی ہیں لیکن بہار کا کوئی نشان نہیں۔
بہار تو ایک کیفیت ہے نئی فصلوں کے بادام اترنے کی امید، دوستوں کے ساتھ کچھ قہقہہ بار شاموں کی ترنگ، محبت کرنے والی آنکھوں سے بن کہے لفظ سننے کی سرخوشی، ایک کتاب جو پہلے صفحے سے اپنی گرفت میں لے لے گی۔
ایک گیت جو آنیوالے وقتوں میں اس برس کا استعارہ ٹھہرے گا، اپنے درمیان موجود لوگوں میں سے کسی سے ایسے ارفع کردار کا اظہار کہ جس سے انسانیت پر یقین بڑھ جائے۔ دکھ تو سانس سے بندھا ہے۔
دکھ سے مفر نہیں، انسان کی سعی مشکلات کی سنگی دیوار پر ہمت کے نقش ابھارنے سے عبارت ہے۔ یہ برس لیکن عجیب بے رنگی لئے نمودار ہوا ہے۔
احمد مشتاق نے بہت پہلے ہماری کیفیت بیان کی تھی، رات ساری کسی ٹوٹی ہوئی کشتی میں کٹی / آنکھ بستر پہ کھلی، خواب میں دریا دیکھا…
ہمارے قلم ٹیڑھے ہو گئے ہیں اور حرف حق لکھنے سے معذور ہیں۔ مصور کا موقلم سوکھ گیا ہے، سامنے کے منظر کی تصویر نہیں بنا رہا، ملکہ عالیہ کے نشیب و فراز کی جھْریاں مٹا رہا ہے۔
پارلیمنٹ کو قوم کی معتبر ترین اور بااختیار مجلس ہونا تھا، وہاں اجڑی ہوئی بزم طرب کے چراغوں سے دھواں اٹھ رہا ہے، اترے ہوئے سیلاب کے گیلے کیچڑ پر مردہ مچھلیوں کے گلنے سڑنے کا تعفن پھیلا ہے۔
درس گاہ میں استاد عالی قدر صاحبان کی خوشنودی کے لئے جلوس مرتب کر رہا ہے۔ ایوان عدل سے صادر ہونے والے فیصلوں میں حرف قانون کا عکس نہیں بلکہ میزان اقتدار کے مد وجزر کی جھلک ڈھونڈی جا رہی ہے۔
جو بندی خانوں میں ہیں، انہیں اپنے جرم کا علم نہیں، جو آزاد ہیں، انہیں اپنی بے گناہی کا یقین نہیں۔ جو اقتدار کی مسند پر ہیں، انہیں مذاق سخن نہیں ہے۔ رہبری کا ہنر جاننے والے اپنی دستار بچانے کی فکر میں ہیں۔
کتاب دستور میں ضابطے کا زائچہ موجود ہے لیکن تقویم کے ہندسے تہ و بالا ہو چکے۔ معیشت کی ناؤ کا قطب نما گہرے پانیوں میں گر گیا ہے۔ اب لئے پھرتا ہے دریا ہم کو۔
کارخانہ بند ہے، بازار میں مندی ہے، روزگار چھن گیا، قوت خرید معدوم سے مفقود تک آ پہنچی۔ درون خانہ ایسی ویرانی ہے اور خارجی دنیا کے اشاریے دیکھیے۔ افغانستان میں امن معاہدے ہو گیا۔ آنیوالے ہماری مرضی سے نہیں آئے تھے، اور ہم سے پوچھ کر نہیں جا رہے۔ پاکستان تو معاہدے میں فریق ہی نہیں۔ کیا اچھی بات ملتان کے گدی نشین نے کہی کہ ہم نے کوئی ضمانت نہیں دی۔ یہ بھی تو کہیے کہ ہمیں کوئی ضمانت دی بھی نہیں گئی۔
غیر ملکی افواج کے جانے کے بعد جو آگ بھڑکے گی، اس کا دھواں ہمارے شہر سے ہو کر گزرے گا۔ ہندوستان میں کشمیر کے بندی خانے پر قفل پڑے سات مہینے گزر گئے۔
اور اب بیس کروڑ مسلمان اقلیت کو پاڑ پر باندھ دیا گیا ہے۔ سیکولر بھارت کی ارتھی اٹھ گئی لیکن ہم کس کے منہ میں دانت گنیں۔ ہم نے تو سیکولر بندوبست کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا۔ ہم نے تو جمہوریت کو گالی بنا کے رکھ دیا۔ سابق آمریتوں پر تنقید کو بھی قومی مفاد سے غداری قرار دیتے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ کسی آئندہ حادثہ فاجعہ کے خلاف رائے عامہ کی تشکیل کا امکان دفن کر دیا جائے۔
نتیجہ یہ کہ اسلام آباد کی لال مسجد دو ماہ سے سلگ رہی ہے، عوام حقیقت حال سے بے خبر ہیں۔ چونیاں کا 22 سالہ سلیم مسیح ٹیوب ویل پر نہانے کے جرم عظیم میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ایک انگریزی اخبار کو چھوڑ کے کہیں خبر دکھائی نہیں دی۔
بیس ماہ میں ایک اچھی بات وزیر اعظم عمران خان نے کہی کہ پاکستان میں کسی نے غیر مسلم شہریوں کے جان و مال کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو سختی سے نمٹا جائے گا۔ ضرورت تھی کہ وزرا اور مشیران کی فوج وزیر اعظم کے اس درست بیان کو عوام تک پہنچاتی، لیکن بھاڑے پر آئے ہوئے بے کماں لشکر تو ایک بیمار شخص کی طبی رپورٹوں پر دست و گریبان ہو رہے ہیں۔
احتساب کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ کیوں نہ ہو، تھالی کے بینگن ہیں۔ بز اخفش سے سخن فہمی کا درس لیا ہے۔ سنیے عزیزان من، جمہوریت میں بدعنوانی کے لئے قوانین موجود ہوتے ہیں جو سیاست دان اور عام شہری کے لئے یکساں ہوتے ہیں۔ منتخب نمائندوں کی جواب دہی ووٹ سے کی جاتی ہے۔
احتساب کی اصطلاح تو تیرہویں صدی کے کلیسا سے تعلق رکھتی ہے۔ اونچی مسند پر براجمان زور آور فیصلہ پہلے کرتے تھے اور پھر نشان زد کئے گئے مظلوم کو عبرت کا نشان بنا دیتے تھے۔ ماضی میں الوہی احکامات کی آڑ میں احتساب ہوتا تھا، اب ہم نادیدہ آنکھ کی گواہی پر فرد جرم مرتب کرتے ہیں۔
سیاست دان کوئی قبیلہ نہیں اور سیاست کوئی پیشہ نہیں۔ بالغ رائے دہی پر مبنی جمہوریت میں ووٹ دینے والا ہر شہری سیاست دان ہے، سیاست دان کو گردن زدنی سمجھنے والا فریق ثانی بھی سیاست ہی کا مرتکب ہوتا ہے، فرق یہ ہے کہ دستور سے انحراف کی سیاست تجاوزات میں شمار ہوتی ہے۔ بستی میں تجاوزات کو تسلیم کر لیا جائے تو ٹیکس کی ثقافت ختم ہو جاتی ہے اور بھتے کا چلن پھیل جاتا ہے۔
کھلی منڈی کی معیشت میں بھتے کے لئے جگہ نہیں ہوتی۔ ہماری معیشت کسی فرد واحد کی نااہلی سے نہیں بیٹھی، ہم نے معیشت کی نامیاتی کونپل پر بٹالہ انجینئرنگ کمپنی کا آہنی ٹوکہ لگا رکھا ہے۔ ہم نے جواب دہی کے انصاف کو احتساب کی تعزیر میں بدل دیا ہے۔
برادر عزیز حامد میر کو بھی ایک ہی سوجھتی ہے۔ بیٹھے بٹھائے 30 برس پہلے کا قصہ نکال لائے کہ نواز شریف کرکٹ کھیلتے تھے تو اپنا امپائر ہمراہ لاتے تھے۔ امپائر کا قصہ ہماری سیاست کی ردیف ہے۔
کوئی کھیل کے میدان میں امپائر کے ساتھ اترتا ہے تو کوئی سیاست کے میدان میں امپائر کی انگلی کی دہائی دیتے ہوئے داخل ہوتا ہے۔ جمہوریت میں عوام ہی غیر جانبدار امپائر ہوتے ہیں۔ دساور سے امپائر درآمد کیا جائے تو کھیل کا میدان اجڑ جاتا ہے اور سیاست کے چمن سے بہار روٹھ جاتی ہے۔ من ایں معاملہ را کردم و زیاں کردم۔