امریکا-طالبان امن معاہدے پر دستخط کے 2 روز بعد ہی افغانستان میں بم دھماکا
افغانستان میں چند روز کی جنگ بندی کا اختتام ایک خوف ناک دھماکے سے ہوگیا جبکہ طالبان نے واشنگٹن کے ساتھ کیے گئے امن معاہدے پر دستخط کے 2 روز بعد اپنے جنگجوؤں کو افغان فورسز کے خلاف آپریشنز بحال کرنے کا حکم دے دیا۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان کے مشرقی حصے خوست میں ایک فٹبال گراؤنڈ میں ہونے والے حملے کی اب تک کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی جس میں حکام کے مطابق 3 بھائی ہلاک ہوئے۔
دھماکا اس ہی وقت ہوا جب طالبان نے اپنے جنگجوؤں کو افغان فوج اور پولیس فورسز کے خلاف حملے کرنے کا حکم دیا جو بظاہر سرکاری سطح پر ‘تشدد میں کمی’ کے معاہدے کا خاتمہ تھا۔
امریکا، طالبان اور افغان فورسز کے درمیان عارضی معاہدہ ایک ہفتے تک برقرار رہا جس کے نتیجے میں امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہفتے کے روز معاہدے پر دستخظ ہوئے۔تحریر جاری ہے
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ‘تشدد میں کمی، اب ختم ہوچکی ہے اور ہمارے آپریشنز معمول کے مطابق جاری رہیں گے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘امریکا طالبان معاہدے کے مطابق ہمارے مجاہدین غیر ملکی فورسز پر حملے نہیں کرے گی تاہم ہمارے آپریشنز کابل انتظامیہ کی فورسز کے خلاف جاری رہیں گے’۔
ایک طالبان رہنما کی جانب سے اے ایف پی کی فراہم کیے گئے دستاویزات کے مطابق طالبان کے فوجی کمیشن نے جنگجوؤں کو ہدایات جاری کیں کہ آپریشنز بحال کریں۔
اس کے فورا بعد ہی افغان فوج کے کمانڈر کا کہنا تھا کہ طالبان شمال مغربی صوبے بغدیس میں فوجی تنصیبات پر حملہ کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں کم از کم ایک فوجی ہلاک ہوا ہے۔
افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ وہ عارضے معاہدے کو افغان حکام اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے آغاز تک جاری رکھیں گے جو ممکنہ طور پر 10 مار کو ہوگا تاہم انہوں نے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو مسترد کردیا۔
وزارت دفاع کے ترجمان فواد امن کا کہنا تھا کہ ‘حکومت ابھی اس بات کا مشاہدہ کر رہی ہے کہ معاہدہ ختم ہوگیا ہے یا نہیں’۔
قبل ازیں واشنگٹن کا کہنا تھا کہہ انہیں امید ہے کہ طالبان تشدد میں کمی کو بین الافغان مذاکرات کے آغاز تک جاری رکھیں گے۔
امریکی افواج کے افغانستان کے کمانڈت جنرل اسکوٹ ملر کا کہنا تھا کہ ‘تشدد میں کمی حوصلہ افزائی کے لیے ہے، ہم اپنے اعتراض پر سنجیدہ ہیں اور امید کرتے ہیں کہ طالبان اپنے اعتراضات پر بھی سنجیدہ ہوگی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘امریکا کا اس کی امیدوں کے بارے میں واضح موقف ہے، تشدد کو کم ہونا چاہیے’۔
خیال رہے کہ امریکا نے اس سے قبل کہا تھا کہہ اگر ان کے افغان شراکت داروں پر حملہ ہوا تو وہ اس کا دفاع کریں گے۔
موٹرسائیکل حملہ
دوحہ معاہدے میں افغان حکومت کے پاس قید 5 ہزار طالبان قیدیوں کو ان کے ہزار قیدیوں کے بدلے میں چھوڑنا شامل تھا تاہم اشرف غنی کا کہنا تھا کہ امریکا کو اس طرح کے تبادلے پر مذاکرات کا کوئی حق نہیں ہے۔
پاکستان میں طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ ‘اشرف غنی کا موقف ظاہر کرتا ہے کہ امریکا نے معاہدہ کرنے سے قبل اس پر کام نہیں کیا تھا’۔
قبل ازیں طالبان ترجمان نے افغان حکومت کی جانب سے قیدیوں کو رہا کیے جانے تک بین الافغان مذاکرات کو مسترد کردیا تھا۔
رائٹرز سے بذریعہ ٹیلی فون گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘بین الافغان مذاکرات کے لیے ہم پوری طرح تیار ہیں تاہم ہمیں ہمارے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کا انتظار ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر ہمارے 5 ہزار قیدی، 100 یا 200 کم یا زیادہ معنیٰ نہیں رکھتے، رہا نہیں کیے گئے تو بین الافغان مذاکرات نہیں ہوں گے’۔
خوست فٹبال فیڈریشن کے صدر عبدالفتح واکمان کا کہنا تھا کہ ‘بم سے لیس موٹرسائیکل پھٹ گئی جس کی وجہ سے 3 بھائی ہلاک ہوگئے’۔
واضح رہے کہ معاہدے پر دستخط کے بعد سے طالبان امریکا پر جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
معاہدے کے تحت غیر ملکی فورسز کا افغانستان سے 14 ماہ میں انخلا ہوگا اگر طالبان سیکیورٹی ضمانتیں دیں گے اور کابل سے مذاکرات کریں گے۔
جہاں اس معاہدے کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ امن کی جانب پہلا قدم ہے وہیں کئی افغانوں کو خدشہ ہے کہ اس سے طالبان دوبارہ اقتدار میں آئیں گے۔
خیال رہے کہ 1996 سے 2001 تک طالبان نے افغانستان کے زیادہ تر حصے پر حکمرانی کی ہے۔