نیب ملک ریاض کے ٹھکانے سے لاعلم، جج کا اظہار برہمی
اسلام آباد: احتساب عدالت میں بحریہ آئیکون ٹاور ریفرنس کی مسلسل دوسری سماعت میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض پیش نہیں ہوئے جبکہ قومی احتساب بیورو (نیب) ان کے ٹھکانے سے لاعلم دکھائی دیا۔
جج محمد بشیر نے سرکاری زمین پر مبینہ تجاوزات کے خلاف دائر ریفرنس کی سماعت شروع کی تو 4 فریقین ملک ریاض، ان کے داماد زین ملک، کراچی سٹی گورنمنٹ کے ماسٹر پلان کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور وقاص رفعت عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
جج نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے غیر حاضری پر ملک ریاض اور دیگر ملزمان کے خلاف اعلان جاری کرنے کی خواہش ظاہر کی لیکن سابق کمشنر عبدالسبحان میمن کے وکیل نے بتایا کہ کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 87-88 کے تحت اعلان اس وقت جاری کیا جاسکتا ہے جب عدالت نے کارروائی کا آغاز کردیا ہو۔
جس پر جج نے نیب کے تفتیشی افسر سے ایک رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت تقریباً ایک گھنٹے کے لیے ملتوی کردی۔
بعدازاں عدالت میں نیب کے تفتیشی افسر نے اعتراف کیا کہ وہ ملک ریاض ان کے داماد زین ملک اور وقاص رفعت کے ٹھکانے سے لاعلم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب کارروائی کرنے والا شخص ملک ریاض کے گھر گیا تو وہاں تعینات عملے نے بتایا کہ وہ بیرونِ ملک گئے ہیں لیکن عملے کو بیرونِ ملک ان کی منزل کے بارے میں معلومات نہیں تھیں۔
جس پر جج نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ جب انسداد بدعنوانی ادارے نے تحقیقات کرنے کی کوشش کی تو ملزم کہاں گیا جس پر افسر نے بتایا کہ بیورو کو متحدہ عرب امارات کے سفر کے علاوہ کسی ملزم کے کہیں اور کے سفری ریکارڈ تک رسائی حاصل نہیں۔
تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ انہوں نے کسی سے سنا ہے ملزم کینیڈا میں مقیم ہے جس پر جج نے نیب افسر کو تجویز دی کہ ان کے قریبی عزیز کو عدالتی سمن سے آگاہ کیا جائے۔
بعدازاں اس معاملے کی مزید سماعت 20 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔
خیال رہے کہ 15 جنوری کو نیب نے بحریہ آئیکون ٹاور کراچی سے متعلق ریفرنس دائر کیا تھا اور جب گزشتہ ماہ عدالت نے اس کی سماعت کا آغاز کیا تو ملک ریاض اور زین ملک غیر حاضر رہے۔
واضح رہے کہ بحریہ آئیکون ٹاور ریفرنس جعلی اکاؤنٹس کیس کا ہی ایک حصہ ہے، یہ پہلا ریفرنس ہے جس میں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین کو نامزد کیا گیا، ان کے ساتھ نیب نے ان کے داماد زین ملک کو بھی ملزم نامزد کیا ہے۔
ان کے علاوہ ریفرنس میں نامزد ملزمان میں پی پی پی کے سابق سینیٹر یوسف بلوچ، وزیر اعلیٰ سندھ کے سابق مشیر ڈاکٹر ڈنشا انکل سریا، سابق چیف سیکریٹری سندھ عبدالسبحان میمن، سابق ڈائریکٹر جنرل پارکس لیاقت قائم خانی، وقاص رفعت، غلام عارف، خواجہ شفیق، جمیل بلوچ، افضل عزیز، سید محمد شاہ، خرم عارف، عبدالکریم پلیجو، خواجہ بدیع الزمان اور دیگر شامل ہیں۔
ریفرنس میں کہا گیا کہ باغ ابنِ قاسم سے متصل رفاہی پلاٹ پر بحریہ ٹاؤن نے آئیکون ٹاور تعمیر کیا ہے، جسے غیر قانونی طور پر الاٹ کر کے قومی خزانے کو ایک کھرب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
واضح رہے کہ یہ بلند و بالا عمارت کراچی میں بحیرہ عرب کے ساحل کے نزدیک واقع ہے جس کی 62 منزلیں ہیں جس میں سے 40 منزلیں مختلف استعمال کی ہیں۔
قبل ازیں گزشتہ برس جون میں سندھ ورکس اینڈ سروسز کے سابق سیکریٹری سجاد عباسی کو آئیکون ٹاور کیس میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا جو بعد میں وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔
عدالت میں دیے گئے بیان میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ جب ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو تعینات تھے اس وقت انہوں نے یہ رفاہی پلاٹ ڈاکٹر ڈشنا انکل سریا کو فروخت کیا تھا، انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈاکٹر ڈشنا انکل سریا نے یہ پلاٹ ملک ریاض کو فروخت کیا جنہوں نے اس پر بحریہ آئیکون ٹاور کی تعمیر کی۔