کورونا اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے اور کیسے پتا چلے گا کہ یہ بیماری کورونا ہے یا عام فلُو
آج کل فلُو یا نزلے زکام کا موسم ہے، جسے دیکھیں چھینکیں مارتا یا ناک صاف کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جسے زکام ہوتا ہے وہ خود ہی کہہ دیتا ہے کہ مجھ سے دور رہیں کہیں آپ کو بھی جراثیم نہ لگ جائیں۔
یا پھر آپ خود ہی اس متاثرہ شخص کے پاس جانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ایسا ہر سال ہوتا ہے، تاہم اس مرتبہ ایک بات نئی ضرور ہے۔
آپ لندن میں ٹرین میں بیٹھیں ہیں اور ایک دم کسی کو چھینک یا چھینکیں آنے لگتی ہیں تو پہلے تو لوگ آپ کو غور سے دیکھنے لگتے ہیں اور اس کے بعد آہستہ آہستہ سرکتے ہوئے دور جانے لگتے ہیں۔
یہی حال دوسرے ممالک میں بھی ہے۔ کہیں تو لوگ ایک دوسرے سے ملتے وقت صرف اشاروں کی زبان استعمال کرنے لگے ہیں۔ لطیفے بن رہے ہیں، ویڈیوز اور میمز بن رہی ہیں۔
انٹرنیٹ پر وائرل ایک ویڈیو میں ایران میں دوستوں کو ایک دوسرے سے ہاتھ کے بجائے پیر اور ٹانگیں ملاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایسا ہی تنزانیہ کے صدر نے بھی کیا۔
یہ ڈر ہے اس نئے وائرس کا جسے نویل کورونا وائرس یا کووڈ ۔ 19 کہتے ہیں اور یہ ڈر آہستہ آہستہ ہمارے دماغوں اور سوچوں میں سرایت کرتا جا رہا ہے، جو کبھی لطیفے کی شکل میں نکلتا ہے تو کبھی فکر کے اظہار کی شکل میں۔
میرا بیٹا جس نے کبھی سردی کی بھی پرواہ نہیں کی آج کل جیب میں سینیٹائیزر لیے گھومتا ہے۔
آخر یہ ڈر کیا ہے؟
اگرچہ یہ موسم فلو کا ہے اور امریکہ سے لے کر پاکستان تک لوگ اس کا شکار ہیں تو پھر بھی لوگ فلو کے متعلق نہیں بلکہ کورونا وائرس کے متعلق ہی بات کر رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق انفلوینزا یا فلو کی وجہ سے ہر سال تقریباً 30 سے 50 لاکھ کے قریب انسان شدید بیمار ہوتے ہیں، جن میں سے دو لاکھ 90 ہزار سے لے کر چھ لاکھ 50 ہزار تک متعدد سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔
امریکہ کے سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن سینٹر (سی ڈی سی) کے مطابق 2019 سے لے کر 2020 کے فلو کے سیزن میں اب تک 18 ہزار سے 46 ہزار کے درمیان فلو سے جڑی اموات ہوئی ہیں۔
مطلب یہ کہ فلو ایک انتہائی جان لیوا بیماری ہے لیکن ہم ہمیشہ اس کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ آرام کریں یہ خود ہی ایک یا دو ہفتے میں ٹھیک ہو جائے گا۔ فلو اپنا ٹائم لیتا ہے۔ لیکن کورونا؟ یہاں بات ذرا مختلف ہے۔
کورونا کا خطرہ
عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر دنیا کو ایک ’نامعلوم خطرے‘ کا سامنا ہے۔
عالمی سطح پر اس وائرس سے اموات کی تعداد 3000 سے تجاوز کر گئی ہے، جن میں زیادہ تر چینی باشندے شامل ہیں۔ تاہم نئے اعداد و شمار کے مطابق چین کی نسبت دیگر ممالک میں اس وائرس سے متاثرہ افراد میں نو گنا اضافہ ہوا ہے۔
چین کے بعد اس وائرس کے سب سے زیادہ مریض جنوبی کوریا میں ہیں جہاں تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد 5000 سے تجاوز کر گئی ہیں لیکن وہاں ابھی تک اس وائرس سے صرف 22 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کے ہمسایہ ملک ایران میں متاثرہ افراد کی تعداد 2500 کے لگ بھگ ہے اور وہاں اموات کی تعداد 77 بتائی جا رہی ہے۔
ایران کے بعد کورونا وائرس کے سب سے زیادہ مریض اٹلی میں ہیں جن کی تعداد دو ہزار سے کچھ زیادہ ہے اور اب تک اس وائرس سے وہاں 52 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
برطانیہ میں کورونا وائرس کے ابھی تک 40 تصدیق شدہ مریض ہیں لیکن حکومت کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں کورونا وائرس کے عروج پر اس کی 20 فیصد تک آبادی کام سے چھٹی لے سکتی ہے اور اگر وائرس پھیلا تو فوج کو بھی مدد کے لیے بلایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں ابھی تک پانچ تصدیق شدہ کیسز ہیں اور حکومت کہہ رہی ہے کہ معاملات ابھی اس کے کنٹرول میں ہیں۔ پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے پانچ افراد میں سے تین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے جبکہ دو کا تعلق کراچی سے بتایا جا رہا ہے۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز کے حکام کے مطابق گلگت بلتستان سے مزید 12 مشتبہ افراد کے خون کے نمونے بھی ٹیسٹ کے لیے حاصل کیے گئے ہیں۔ پیر کو گلگت بلتستان حکومت نے تمام نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کو وائرس سے بچاؤ اور حفاظتی اقدامات کے پیش نظر سات مارچ تک بند کر دیا تھا۔
پاکستان نے صوبہ بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن سے ملحقہ افغانستان کی سرحد کو بھی بند کر دیا ہے۔
28 فروری کو کووِڈ-19 یا کورونا پر امریکی جریدے جاما میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس میں مبتلا 83 سے لے کر 98 فیصد افراد کو بخار چڑھتا ہے، 76 سے 82 فیصد کو خشک کھانسی آتی ہے اور 11 سے 44 فیصد کو تھکن اور پٹھوں میں درد کی شکایت رہتی ہے۔
فلُو بمقابلہ کورونا وائرس
برطانیہ میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پاکستانی فیزیشنز اینڈ سرجنز آف دی یونائیٹڈ کنگڈم (اے پی پی ایسی یو کے) کے بانی رکن اور سی ای او ڈاکٹر عبدالحفیظ کہتے ہیں کہ ہم فلو اور کورونا کا موازنہ ابھی نہیں کر سکتے کیونکہ ہمیں فلو کے متعلق تو پتا ہے جبکہ کورونا کے متعلق کچھ نہیں پتا۔ ’ابھی تحقیق ہو رہی ہے لیکن وہ ابتدائی مراحل میں ہے۔ اور جب وہ ایمرجنسی میں ٹیسٹ کی جائے گی تو بھی وہ ان تجرباتی مراحل سے گزر کر نہیں آئے گی جن سے دوائیاں گزر کر آتی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ وائرس جتنی تیزی سے پھیل رہا ہے اتنی تیزی سے اس پر تحقیق نہیں ہو رہی ہے۔
کیسے پتا چلے گا کہ کسی شخص کو عام فلو ہے یا کورونا وائرس؟
ڈاکٹر حفیظ کا کہنا ہے کہ کسی کی چھینک یا نزلے زکام کو بظاہر دیکھ کر یہ پتا لگانا ابھی ناممکن ہے کہ اسے عام فلو ہے یا کورونا وائرس۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم یونیورسل پریکاشن (عالمی احتیاط) کے اصول کے مطابق جب مریضوں کے خون کا نمونہ لیتے ہیں تو ہم یہ مان کر چلتے ہیں کہ سب کو ہی کورونا ہے اور اسی طرح کی احتیاط کرتے ہیں جیسی بتائی گئی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹیسٹ کے بعد نتیجہ منفی نکلے۔‘
’یہ بڑھ رہا ہے، اس کے متعلق زیادہ پتا نہیں لیکن پھر بھی ہمیں چاہیے کہ خوف میں مبتلا نہ ہوں۔ اگرچہ ابھی اس کی کوئی ویکسین نہیں آئی لیکن اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سے ہلاک ہونے والے اکیس اعشاریہ نو فیصد افراد کی عمر اسی سال سے زیادہ ہے جبکہ نو سال سے کم عمر ایک بچے کی بھی موت کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
’سو اس سے زیادہ خطرہ ان کو ہے جو پہلے سے کسی بیماری میں مبتلا ہیں یا ان کی عمر زیادہ ہے۔‘
کورونا اور فلو میں مماثلت
فلو اور کورونا سے ہونے والی بیماریاں دونوں ہی سانس کی بیماریاں ہیں۔ اگرچہ یہ دونوں بظاہر ایک ہی طرح کی دکھائی دیتی ہیں لیکن دونوں بیماریاں مختلف قسم کے وائرس سے لگتی ہیں۔
دونوں ہی میں بخار چڑھتا ہے، کھانسی آتی ہے، جسم درد کرتا ہے، تھکاوٹ کا احساس رہتا ہے اور کبھی کبھار متلی یا اسہال (دست) ہوتا ہے۔
یہ دونوں کچھ عرصے کے لیے بھی ہو سکتی ہیں اور ایک لمبے عرصے کے لیے بھی۔ کئی کیسز میں بیمار افراد کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
ان دونوں بیماریوں سے نمونیہ بھی ہو سکتا ہے جو کہ کئی کیسز میں خطرناک ہو سکتا ہے۔
دونوں ہی ایک شخص سے دوسرے شخص کو ہوا میں قطروں کے ذریعے لگتے ہیں یعنی ایک متاثرہ شخص سے یہ دوسرے شخص کو اس کی کھانسی، چھینک یا بہت قریب سے باتیں کرتے ہوئے بھی لگ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر حفیظ کہتے ہیں کہ یہ مماثلت سب سے زیادہ ذہن میں رکھنے والی ہے اور اس سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
‘کورونا کے مریض سے سب سے زیادہ خطرہ اس کے گھر والوں کو ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ وائرس آنکھ، ناک اور منہ سے جسم میں داخل ہو جاتا ہے اس لیے سب سے زیادہ احتیاط مریض کے قریب رہنے والوں کو کرنی چاہیے۔
‘یہ کمرے کے دروازے کے ہینڈل سے بھی لگ سکتا ہے اور وہی برتن استعمال کرنے یا پکڑنے سے بھی جو مریض استعمال کر رہا ہے۔ اس سے احتیاط کی کنجی صرف یہ ہے کہ مریض کے بہت قریب نہ جائیں لیکن ایسا نہیں کہ اسے بالکل چھوڑ ہی دیں۔ بس احتیاط کریں۔’
کورونا اور فلو میں فرق
ابھی تک سامنے آنے والی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ صرف ایک ہی وائرس ہے جبکہ فلو کی مختلف قسمیں اور وائرس ہیں۔
اگرچہ یہ دونوں وائرس ہوا میں قطروں اور چھونے سے لگتے ہیں لیکن ابھی تک سامنے آنے والی تحقیق سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ کورونا وائرس ایک شخص سے دوسرے کو اس وقت بھی لگ سکتا ہے جبکہ وہ وہاں موجود نہ ہو۔
یعنی کہ متاثرہ شخص کے جراثیم ہوا میں موجود قطروں میں زندہ رہتے ہیں اور جب وہ وہاں سے چلا بھی جاتا ہے تو وہ وہاں موجود یا آنے والے کسی دوسرے شخص کو لگ سکتے ہیں۔
اس بات کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ فلو کے متعلق سائنسدان کئی دہائیوں سے تحقیق کر رہے ہیں۔ اگرچہ اس سے اب بھی دنیا بھر میں بہت سی اموات ہوتی ہیں پر ہم اس کے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں لیکن کورونا وائرس کے متعلق ایسا نہیں ہے۔
یہ نیا ہے، ہم اس کے متعلق زیادہ نہیں جانتے، اس سے نمٹنے کے لیے ہماری پاس ابھی مناسب ادویات نہیں اور اسی لیے یہ زیادہ خطرناک ہے۔