نیمی (اصل نام نہیں ہے) ایک نجی کمپنی میں کام کرتی ہیں۔ وہ گذشتہ دس سال سے دلی میں رہائش پذیر ہیں۔
یہاں سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اب وہ یہیں ملازمت کر رہی ہیں۔ بوائے فرینڈز سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ ان کے بہت سے بوائے فرینڈز ہیں لیکن انھوں نے اپنے آپ کو اس شخص کے لیے بچا کر رکھا ہے جس کے ساتھ ان کی شادی ہوگی۔
یہ واضح ہے کہ نیمی اپنے کنوارے پن کو شادی تک برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ جب میں نے اپنے دفتر کے نوجوانوں سے اس متعلق بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ان کی عمر میں 22 سے 30 کے درمیان میں کبھی کبھی سیکس عام بات ہے اور یہ کہ شادی سے پہلے جنسی تعلق ان کے لیے کوئی قابل شرم فعل نہیں ہے۔
تو پھر ایسے میں وہ نوجوان خواتین کہاں سے آرہی ہیں جو جنسی تعلق قائم کرنے کے بعد اپنے باکرہ پن کی بحالی کے لیے ہائیمنوپلاسٹی سرجری کرا رہی ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ گذشتہ 15 برس سے ہائیمنوپلاسٹی میں اضافہ نظر آیا ہے اور بڑی تعداد میں نوجوان خواتین اس طرح کی سرجری کے لیے آ رہی ہیں۔
ڈاکٹرز کے مطابق لڑکیوں کے وجائنا میں ممبرین یعنی جھلی ہوتی ہے جسے ہائمن کہا جاتا ہے۔ جنسی تعلق کے بعد یا اکثر کھیل کود اور سخت جسمانی ورزش سے بھی یہ جھلی متاثر ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر اس ممبرین کو سرجری کے ذریعے بحال کرتے ہیں اور یہی عمل ہائیمنوپلاسٹی کہلاتا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین کی اکثریت 20 سے 30 سال تک کی ہے جو اپنے ہائمن کی بحالی کے لیے آتی ہیں۔ یہ خواتین یا تو جنسی طور پر بہت سرگرم ہوتی ہیں یا پھر ان کے اپنے پارٹنرز کے ساتھ جنسی تعلق ہوتا ہے اور شادی سے قبل وہ ہائیمنوپلاسٹی سرجری کے لیے آتی ہیں۔
غیر شادی شدہ خواتین
میکس ہسپتال کے پرنسپل کنسلٹنٹ اور خواتین کے امراض کی ماہر ڈاکٹر بھاونا چودھری نے بی بی سی کو بتایا کہ اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ یہ خواتین کہاں سے آتی ہیں۔ تاہم یہ ملازمت پیشہ خواتین ہیں اور ان کا تعلق مڈل اور اپر کلاس سے ہوتا ہے۔
یہ خواتین شادی سے پہلے (سرجری کے لیے) آتی ہیں اور یہ اپنے مستقبل کے شوہروں کو یہ نہیں بتانا چاہتی ہیں کہ وہ شادی سے پہلے بھی سیکس کرتی آ رہی ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سرجری ے لیے آنے والی خواتین دوران گفتگو بہت پراعتماد ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ عموماً ان کی بہن یا سہیلی بھی ہوتی ہے۔
تاہم اس بارے میں ڈاکٹر بھاونا کا کہنا ہے کہ کھیل کود، سائیکلنگ، گھڑ سواری اور پیریڈ کے دوران دوا کے استعمال سے بھی ہائمن ضائع ہو سکتی ہے۔
دہلی میں گنگا رام ہسپتال کے ڈاکٹر للیت چودھری ہائیمنو پلاسٹی کی خواہشمند خواتین کو دو درجوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 80 فیصد خواتین 25 سال سے کم عمر کی خواتین ہوتی ہیں اور دوسری طلاق یافتہ خواتین ہوتی ہیں اور ان کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ معلومات حاصل کرنے کے لیے ہفتے میں تین چار لوگ رابطہ کرتے ہیں لیکن دس میں سے ایک خاتون ہی سرجری کے لیے ہسپتال کا رخ کرتی ہے۔
اس کی وجوہات پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر للیت کا کہنا ہے کہ یہ خواتین پہلے ڈاکٹر سے مل کر سرجری سے متعلق مشورہ کرتی ہیں۔ بڑے ہسپتالوں میں اس سرجری کا خرچہ 50 سے 70 ہزار روپے کے درمیان آتا ہے۔ ڈاکٹروں سے مشورے کے بعد یہ لڑکیاں عموماً چھوٹے کلینک میں سرجری کے لیے جاتی ہیں کیونکہ یہ بڑے ہسپتالوں کے مقابلے میں کفایتی ہوتے ہیں اور چھوٹے کلینک میں کوئی پیپرورک بھی نہیں ہوتا اور ان کی رازداری بھی برقرار رہتی ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق یہ سرجری ایک آدھ گھنٹے میں ہوجاتی ہے۔ اگر ایک خاتون بڑے ہسپتال میں سرجری کے لیے جاتی ہے تو اسے پیپر ورک مکمل کرنے کے لیے دو گھنٹے پہلے آنا ہوتا ہے۔ پھر مقامی یا عام بیہوشی کی دوا دینے (اینستھیسیا) کے بعد ہائمن بحال کیا جاتا ہے جس کے بعد خاتون واپس اپنے گھر چلی جاتی ہیں۔
اس طرح وہاں سارا عمل پانچ سے چھ گھنٹے میں مکمل ہوتا ہے۔
نجی کلینکس میں سرجری
اپولو ہسپتال کے پلاسٹک سرجرن ڈاکٹر انوپ دھیر کا دعویٰ ہے کہ وہ دلی کے پہلے سرجن ہیں جنھوں نے ہائیمنوپلاسٹی کا آغاز کیا ہے۔ وہ دلی میں اپنا ایک پرائیویٹ کلینک بھی چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے اس سرجری کے لیے آنے والی خواتین کی ایک تہائی تعداد دلی کے پڑوس ہریانہ صوبے سے آتی ہیں۔ ان کے علاوہ نوجوان مسلم خواتین اور مشرق وسطیٰ سے بھی خواتین اس سرجری کے لیے دلی کے ہسپتالوں اور کلینک کا رخ کرتی ہیں۔
ان کے مطابق زیادہ تر خواتین اپنی شناخت چھپاتی ہیں۔ وہ ہمیں اپنا صیحح نام اور نہ ہی فون نمبر درست بتاتی ہیں۔ بہت دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان لڑکیوں کی سہلیاں سرجری یا مشورے کے لیے وقت لینے کے لیے فون کرتی ہیں اور سرجری کے بعد ہم اگر یہ جاننا چاہیں کہ کوئی مسئلہ تو نہیں ہے تو ایسی صورت میں ہم ان سے رابطہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔
وہ خواتین کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ شادی سے چھ یا آٹھ ہفتے پہلے ہائیمنوپلاسٹی سرجری کرائیں تاکہ سہاگ رات کو زیادہ سے زیادہ خون بہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سرجری کے بعد کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، تاہم ان کے مطابق اس کے بعد کچھ احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کی جانے چائیں جیسے ہائیجین یعنی صاف صفائی برقرار رکھنا، فوری جنسی تعلق قائم کرنے میاحتیاط برتنا اور دو پہیوں والی سواری اور سائیکل سے پرہیز کرنا۔
ڈاکٹر للیت چودھری کا کہنا ہے کہ اپر انکم والی بہت سے خواتین اپنی ماؤں کے ساتھ بھی ہسپتال آتی ہیں۔ اس کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے لیکن اس طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنے معاملات اپنی ماؤں سے شیئر کرتی ہیں اور ان کی مائیں خود بھی اپنی بیٹیوں کو شادی سے قبل اس سرجری کے لیے لے کر آتی ہیں۔
بہر حال سماج کی ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر ایک عورت اپنی مرضی سے کسی مرد سے جنسی تعلق قائم کرتی ہے تو پھر اس کی کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی ہوتی ہے تو اسے اپنی پاکیزگی سے متعلق ثبوت دینے ہوتے ہیں۔
خواتین میں پاکیزگی
یہ ایک مردانہ معاشرے کی علامت ہے جس میں ایک مرد کا یہ خواب ہوتا ہے کہ وہ جس عورت کے ساتھ شادی کرے، اسے کسی نے چھوا تک نہ ہو۔ نیمی کی طرح بہت سی خواتین سہاگ رات کے لیے اپنا کنوارہ پن برقرار رکھنا چاہتی ہیں تاکہ وہ شوہروں کو تحفے کے طور اسے پیش کرسکیں۔
انڈیا کے علاوہ دوسرے بہت سے ممالک میں کنوارہ پن خواتین کی پاکیزگی سے جڑا ہوا ہے اور ان کا وقار صرف جنسی تعلق تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ جنسی زیادتی سے متعلق انڈین فلمیں بھی ایسے ڈائیلاگ سنائی دیتے ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہ اس کی عزت لٹ چکی ہے یا اس کے شوہر یا باپ کی عزت خاک میں مل گئی ہے۔
کنوارہ پن صرف ایک طبقے کے لیے ہی نہیں بلکہ یہ امیر، غریب، دیہاتی یا شہری کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے۔
انڈیا میں ’فیمنزم‘ کی بانی جپلین پسریچا انگریزوں کی مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہاں ایسی خواتین کے لیے لفظ ’ڈی فلاور‘ استعمال کرتے ہیں اور یہ سوال کرتی ہیں کہ اگر خواتین پھول ہیں اور کسی نے انھیں چھو لیا یا ان سے جنسی تعلق قائم کیا تو کیا وہ کمھلا جائيں گی یا بکھر جائيں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ حتیٰ کہ غیرت کے نام پر قتل میں عزت سے مراد عورت کا جسم ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘انڈین معاشرے میں جب ایک لڑکی کی شادی ہونے والی ہوتی ہے تو پھر اس کے کنوارے پن کو اتنی اہمیت کیوں دی جاتی ہے؟ کیا لڑکے سے کبھی کسی نے پوچھا کہ کیا وہ کنوارہ ہے یا نہیں؟ بہت سے علاقوں میں دوسروں کو سہاگ رات والی بیڈ شیٹ دکھا کر کہا جاتا ہے کہ ان کی بہو نیک پروین یعنی پاکیزہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے خاندان کی عزت اس سے جڑی ہے اور اسے کبھی کسی نے نہیں چھوا ہے۔ صرف انڈیا میں ہی نہیں بلکہ بہت سارے افریقی معاشروں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔؛
خواتین کے کنوارے پن کی جانچ
انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کی کانجبیٹ کمیونٹی میں صدیوں سے خاتون کو کنوارے پن کے ٹیسٹ سے گزرنا ہوتا ہے۔ اس ٹیسٹ کے لیے سہاگ رات کو بستر پر سفید چادر ڈالی جاتی ہے اور پھر اگلی صبح اس کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ اس معاشرے میں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ یہاں کے لوگ اپنی کم عمر بیٹیوں کی شادی کرا دیتے ہیں۔
بازار کی ابتدا
منیپال یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر جاگریتی گنگوپادھیائے خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘سارا دباو ایک عورت پر ہوتا ہے۔ وہ ایک مرد کے ساتھ تعلقات قائم کرتی ہے، اس کے بعد ’آئی پلز‘ لیتی ہے اور پھر شادی کے قریب وہ ہائیمنوپلاسٹی سرجری سے بھی گزرتی ہیں۔ وہ صرف اپنے شوہر کی ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کی بن کر رہتی ہے اور اسے یہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ اس کے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔’
ان کے خیال میں اس طرح کی سوچ نے ایک ایسی مارکیٹ کو جنم دیا ہے جہاں سہاگ رات میں خون بہنے کے لیے علاج کی سہولت دستیاب ہوتی ہے یا انٹرنیٹ پر سہاگ رات سے متعلق کیپسول فروخت ہو رہے ہوتے ہیں۔
ہائیمنوپلاسٹی کے علاوہ عورت کے جنسی عضو کو صاف اور خوبصورت بنانے سے متعلق مصنوعات کی تشہیر کی جارہی ہے۔ جب ایک عورت نارمل طور پر بچے کو جنم دیتی ہے تو اس کے بعد اسے شوہر کے لیے اپنے جنسی عضو کے ڈھیلے پن کو ختم کرنے کے لیے ٹانکے لگانے کی تجویز دی جاتی ہے جسے ہسبنڈ سٹچ کہا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری سرجری ہیں جن سے عورت کے جنسی عضو کو خوبصورت بنایا جاتا ہے جس کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ پورن انڈسٹری کی دین ہے کیونکہ اس سے ان کے پارٹنر یا اہلیہ کے جسم کو ایک خاص انداز میں دیکھنے کا موقع میسر آتا ہے۔
شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جہاں خواتین اپنے آپ کو ہر لحاظ سے مساوی ثابت نہ کر رہی ہیں لیکن اس کے باوجود انھیں ہی اپنے کنوارے پن سے متعلق سوالات کا سامنا رہتا ہے۔