Site icon DUNYA PAKISTAN

پاکستان کا برطانیہ کو خط: ’پردیسیوں کی وطن واپسی کا کہا گیا ہے‘

Share

پاکستان کی وزارت خارجہ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے برطانوی حکومت کو خط لکھ دیا ہے۔ یہ خط پنجاب حکومت کی سفارش پر وفاقی حکومت نے وزارت خارجہ کے ذریعے برطانوی حکومت کو لکھ کر بھیجا۔

اس خط کی خبریں ترجمان کے ذریعے نہیں بلکہ ذرائع سے میڈیا پر چلنا شروع ہوئیں تو ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں نہیں معلوم میڈیا کو یہ خط کس نے لیک کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس کی تردید کرتی ہیں۔

تاہم کچھ دیر بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس خط کی تصدیق کردی۔

منگل کو فردوس عاشق اعوان نے میڈیا کو بتایا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں نوازشریف کی واپسی سے متعلق بھی بریفنگ دی گئی۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف 19 نومبر 2019 سے علاج کی غرض سے لندن میں مقیم ہیں۔ پنجاب حکومت نے گذشتہ ماہ 25 فروری کو نوازشریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کردی تھی، جس کے بعد صوبائی حکومت نے وفاق کو کارروائی کے لیے خط لکھا تھا۔

حکومت نے خط میں کیا لکھا ہے؟

معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ نواز شریف کی پاکستان واپسی کی چٹھی لکھ دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ نواز شریف کے سہولت کار شہباز شریف سے درخواست کی گئی ہے کہ اپنے وعدے کے مطابق واپس لائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’چٹھی میں پردیسیوں کی وطن واپسی کا کہا گیا ہے۔‘

حکومت کی طرف سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر چلائے جانے والی خبر میں کہا گیا ہے کہ خط میں یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ نواز شریف کی ضمانت ختم ہو چکی ہے, اب وہ ایک مجرم ہیں۔ ذرائع سے میڈیا کو لیک کیے گئے خط کے مطابق نواز شریف ضمانت پر نہیں ہیں، انھیں پاکستان بھیجا جائے تاکہ وہ باقی سزا مکمل کر سکیں۔

سیاسی ردعمل

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ حکومت سو خط لکھ دے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ان کے مطابق نواز شریف کی صحت سے متعلق عدالتی فیصلے موجود ہیں اور وہ عدالت سے ضمانت ملنے کے بعد علاج کی غرض سے باہر گئے اور اب وہ علاج کے بعد ہی واپس آئیں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ عمران خان نے خود این آر او دے کر نواز شریف کو باہر بھیجا ہے اور اب وہ انجان بن رہے ہیں۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ 105 دن اگر کوئی شخص اسپتال میں داخل نہیں ہوتا اور اپنی صحت سے متعلق رپورٹ نہیں بھیجتا تو کیا کیا جائے، ریسٹورنٹ کی تصاویر آنے سے ہی واضح ہوگیا تھا آپ کس لیے باہر گئے۔ آپ کے حوصلے بلند رہنے چاہیئں آپ نے واپس آکر کیسز کا مقابلہ کرنا ہے۔ آپ اپنی پارٹی کو ایک بار پھر تنہا اور لاوارث چھوڑ کر چلے گئے۔

انھوں نے منگل کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’میڈیا سے میرا گلہ ہے کہ آپ نے نواز شریف کے پلیٹ لیٹس سٹاک مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کی طرح دکھائے، اب نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کی خبر کوئی میڈیا نہیں دکھا رہا۔‘

ان کا کہنا ہے تھا کہ چٹھی لکھتے ہی لندن سے آہ و بکا شروع ہو چکی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے یہ لمبے دورے پر گئے ہیں۔ ان کے مطابق عدالت نے نواز شریف کی صحت سے متعلق میڈیکل بورڈ کو اختیار دیا تھا۔

ان کے مطابق جس میڈیکل بورڈ کی سفارش پر آپ باہر گئے وہی بورڈ کہہ رہا ہے آپکی رپورٹس حوصلہ افزا ہیں۔ شریف برادران کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’آپ نے ہمیشہ اپنی سہولت کے مطابق قانون کو استعمال کیا ہے اور عدالتی سہولت کو غلط استعمال کیا۔‘

نواز شریف کو علاج کی غرض سے ضمانت اور پھر بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی

قانونی ماہرین کی رائے

ماہر قانون سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ کیونکہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان حوالگی کے قانون کا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے اس لیے برطانوی حکومت اس بات کی پابند نہیں ہے کہ وہ پاکستانی حکومت کی طرف سے نواز شریف کی حوالگی کی درخواست پر عمل بھی کرے۔

برطانوی وکیل مزمل مختار نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر پاکستان اور برطانیہ میں حوالگی سے متعلق کوئی معاہدہ ہو بھی جائے تو نواز شریف کی واپسی آسان نہیں ہے کیونکہ ایک تو محض ایک خط کی بنیاد پر کسی کے خلاف ملک بدری کی کارروائی شروع نہیں کی جاتی اور دوسرا یورپی قوانین کے تحت کوئی بھی حق زندگی اور حق علاج کے قوانین کے تحت ایسے فیصلے کو چیلنج کر سکتا ہے۔

کسی شخص کی حوالگی سے متعلق بین الاقوامی قوانین کے بارے میں بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے وکیل ہاشم احمد خان نے بتایا کہ نواز شریف کو پاکستان لانے کے لیے حکومت کو ایک مخصوص طریقہ کار اپنانا پڑے گا۔

ان کے مطابق ’اگر حکومت پاکستان برطانوی حکومت سے درخواست کرتی ہے کہ میاں محمد نواز شریف کو پاکستان بھیجا جائے تو اس کے لیے سب سے پہلے انھیں برطانوی ہوم سیکریٹری کی رضامندی درکار ہوگی جس کے بعد ہی برطانیہ میں نواز شریف کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی کی جا سکے گی۔ جبکہ اس کے بعد بھی برطانوی حکومت اپنے قانون کے مطابق اس بات کا جائزہ لے گی کہ اس شخص کو وہ نکالیں یا نہیں۔‘

Exit mobile version