دنیابھرسے

طالبان حملوں میں افغان فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکتوں کے بعد امریکا کا جوابی فضائی حملہ

Share

افغانستان میں امن کے لیے دو اہم فریق طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد بھی حالات میں بہتری نظر نہیں آرہی اور طالبان کی جانب سے افغان فورسز پر حملوں کے نتیجے میں 20 اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد امریکا نے عسکریت پسندوں پر فضائی حملہ کردیا۔

واضح رہے واشنگٹن کی جانب سے امریکا-طالبان معاہدے کے بعد طالبان جنگجوؤں پر یہ پہلا فضائی حملہ ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے صوبے قندوز کی صوبائی کونسل کے رکن صفی اللہ امیری کا کہنا تھا کہ ‘ضلع امام صاحب میں کم از کم 3 فوجی چیک پوسٹس پر طالبان کے حملے میں 10 فوجی اور 4 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے’۔

وزارت دفاع کے حکام نے اے ایف پی سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق کی جبکہ صوبائی پولیس ترجمان ہجرت اللہ اکبری نے پولیس ہلاکتوں کی تصدیق کی۔تحریر جاری ہے‎

طالبان نے وسطی اروزگان صوبے میں بھی پولیس پر حملہ کیا جس کے بارے میں گورنر کے ترجمان زرگئی عبادی کا کہنا تھا کہ ‘بدقسمتی سے 6 پولیس اہلکار ہلاک اور 7 زخمی ہوئے’۔

حالیہ واقعات کے بعد افغان امن مرحلے پر شکوک و شبہات بڑھ گئے ہیں جبکہ طالبان کابل سے 10 مارچ کو طے شدہ مذاکرات سے قبل معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ کر رہے ہیں جسے افغان صدر اشرف غنی نے مسترد کردیا ہے۔

دریں اثنا امریکی افواج کے ترجمان نے بتایا کہ امریکا نے جنوبی صوبے ہلمند میں طالبان پر فضائی حملہ کیا۔

یہ فوجیوں کے انخلا کے معاہدے پر دستخط کے بعد امریکا کی جانب سے طالبان پر پہلا حملہ تھا۔

افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان کرنل سونی لیگیٹ کا کہنا تھا کہ ‘طالبان جنگجو (افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز) کی چیک پوائنٹ پر مسلسل حملے کر رہے ہیں، یہ ان حملوں کو روکنے کے لیے دفاعی حملہ تھا’۔

ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ واشنگٹن امن کے لیے پرعزم ہے تاہم طالبان کو ‘غیر ضروری’ حملے بند کرنے چاہیے اور معاہدے میں کیے گئے اپنے وعدوں پر عمل کرنا چاہیے۔

ٹرمپ کی طالبان رہنما ملا برادر سے گفتگو

یہ حملہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کی اور طالبان کے سیاسی سربراہ کے درمیان ‘بہت اچھی’ گفتگو ہوئی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ پاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بغیر کسی کا نام لیے کہا کہ ان کی ‘طالبان رہنما کے ساتھ بہت اچھی گفتگو رہی’۔

بعد ازاں وائٹ ہاؤس نے اس حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ اور ملا عبدالغنی برادر کے درمیان گفتگو کی تصدیق اور کہا کہ امریکی صدر نے طالبان پر افغان حکومت سے مذاکرات میں شرکت کے لیے زور دیا۔

دوسری جانب طالبان نے بیان میں کہا کہ ٹرمپ نے افغانوں کو ‘سخت لوگ’ کہہ کر پکارا اور کہا کہ ‘آپ کے پاس ایک عظیم ملک ہے اور میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ اپنی زمین کے لیے لڑ رہے ہیں’۔

امن معاہدہ

امریکا-طالبان کے درمیان 29 فروری کو امن معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت افغانستان سے 14 ماہ میں غیر ملکی فورسز کا انخلا ہونا ہے جبکہ طالبان سے اس کے بدلے سیکیورٹی ضمانت اور کابل انتظامیہ سے مذاکرات کا کہا گیا۔

تاہم قیدیوں کے تبادلے پر تنازع نے سوالات کھڑے کردیے ہیں کہ کابل اور طالبان کے درمیان مذاکرات آگے بڑھ پائیں گے یا نہیں۔

یہ ڈیڈ لاک اس وقت سامنے آیا جب افغان صدر اشرف غنی نے دوحہ میں دستخط ہونے والے معاہدے کے ایک روز بعد ہی ایک قدیویوں کے تبادلے شق کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرنے کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا ہے’۔

طالبان نے اشرف غنی کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کی رہائی تک بین الافغان مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اس کے ایک روز بعد طالبان کے ترجمان نے کابل انتظامیہ کے خلاف حملوں کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔

معاہدے کے تحت افغان حکومت کے پاس طالبان کے 1 ہزار قیدیوں کی رہائی کے بدلے کابل انتظامیہ کے پاس موجود طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا ہونا ہے۔