خواجہ زوار حسین آف جڑانوالہ!
تھوڑا بہت ’’کج بحثیا‘‘ تو میں بھی ہوں لیکن اس ’’شعبے‘‘ میں میرے ہمسائے راجہ زوار حسین کا کوئی ثانی نہیں، بات کہیں کی بھی ہو، مسئلہ کوئی بھی ہو، وہ اسے کھینچ تان کر تنازع بنا دیتے ہیں اور درمیان درمیان میں نفسیات کا تڑکا بھی لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ روز گرمی نے مت ماری ہوئی تھی، میں نے کہا ’’راجہ صاحب! آج گرمی بہت ہے‘‘ کہنے لگے ’’یہ ضروری نہیں کہ آج واقعی زیادہ گرمی ہو، آپ اپنے حافظے پر زور دیں اور سوچیں کہ آپ کی زندگی میں کوئی تکلیف دہ واقعہ گرمی کے موسم میں تو پیش نہیں آیا تھا‘‘ میں نے عرض کی ’’صرف ایک گرمی کے موسم میں نہیں بلکہ یہ تکلیف دہ واقعہ ہر گرمی کے موسم میں گرمی کی صورت میں پیش آتا ہے‘‘ اس پر راجہ صاحب خوش ہوئے، انہیں شاید میری بات سمجھ نہیں آئی تھی، چنانچہ بولے ’’دیکھا، میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ اصل مسئلہ کچھ اور ہے، اب آپ بتائیں وہ کون سا تکلیف دہ واقعہ ہے‘‘۔ میں نے جواب دیا ’’بتایا تو ہے کہ یہ تکلیف دہ واقعہ خود گرمی کا موسم ہے!‘‘ اس پر راجہ صاحب کا چہرہ لٹک گیا اور بولے ’’مجھے علم تھا کہ پوری قوم کی طرح آپ بھی ہر واقعے اور حادثے کو سرسری طور پر دیکھتے ہو، آپ جیسے لوگوں نے کبھی گہرائی میں جا کر اس کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی‘‘ اس پر میں سوائے اظہارِ ندامت کے اور کر بھی کیا سکتا تھا؟
ایک دن میں نے کہا ’’راجہ صاحب! رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک سانپ مجھے ڈسنے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔ اس پر راجہ صاحب ناراض ہو گئے اور کہا ’’شرم آنی چاہئے آپ کو اس طرح کے خوابوں پر، اپنی عمر دیکھیں اور اپنے خواب دیکھیں‘‘ میں گھبرا گیا، میں نے کہا ’’راجہ صاحب! ایسا کون سا گناہ مجھ سے سرزد ہوا جو آپ یوں خفا ہو رہے ہیں؟‘‘ بولے، میں آپ کو فرائیڈ کی کتاب دوں گا، آپ اس میں سے خواب اور ان کی تعبیر والا حصہ خود پڑھ لیں‘ پھر راز دارانہ انداز میں پوچھا ’’تو کیا سانپ آپ کو ڈسنے میں کامیاب ہو گیا تھا؟‘‘ میں نے کہا ’’اللہ جانے آپ کیا کہہ رہے ہیں، میں نے تو کہیں پڑھا تھا کہ خواب میں سانپ کا نظر آنا کوئی اچھا شگون نہیں ہے کیونکہ سانپ دشمن کی علامت ہے۔ میں تو خدا کا شکر ادا کر رہا ہوں کہ میرا دشمن مجھے ڈسنے میں کامیاب نہیں ہو سکا‘‘ لیکن لگتا تھا راجہ صاحب میری تعبیر سے صرف اختلاف ہی نہیں رکھتے بلکہ سانپ کے نہ ڈسنے پر ناخوش بھی ہیں، تاہم انہوں نے بحث میں الجھنا پسند نہیں کیا۔ میری بدقسمتی کہ ایک دن کہہ بیٹھا ’’راجہ صاحب! حافظہ بہت کمزور ہو گیا ہے، لوگوں کے نام یاد نہیں رہتے اور کئی دفعہ شکلیں بھی بھول جاتا ہوں، شاید اس لئے کہ شکلوں جیسے نام نہیں رہے اور ناموں جیسی شکلیں نہیں رہیں‘‘ بولے ’’آپ کی بات سے خود ہی واضح ہو جاتا ہے کہ مسئلہ حافظے کی کمزوری کا نہیں ہے۔ فرائیڈ کہتا ہے‘‘ میں نے کہا ’’مجھے پتا ہے فرائیڈ کیا کہتا ہے، یہی کہ آپ لاشعوری طور پر جن امور کو غیراہم سمجھتے ہیں انہیں بھول جاتے ہیں اور جو امور آپ کے نزدیک اہم ہیں، وہ آپ کے حافظے میں محفوظ رہتے ہیں، یہی کہتا ہے نا فرائیڈ؟‘‘ بولے ’’ہاں، یہی کہتا ہے اور صحیح کہتا ہے‘‘ میں نے کہا ’’صحیح کہتا ہوگا لیکن یہ کوئی ایسا اصول نہیں جس کا اطلاق ہر قسم کی صورتحال پر ہوتا ہو کیونکہ میں تو اپنے بیٹوں کے نام بھی بعض اوقات بھول جاتا ہوں‘‘ اس پر راجہ صاحب نے اپنی زندگی کا دوسرا یا تیسرا قہقہہ لگایا اور کہا ’’مگر یہ بات اپنے بچوں کو نہ بتانا!‘‘ پھر وہ اچانک سنجیدہ ہو گئے اور بولے ’’یاد رکھیں فرائیڈ کی بات یونہی پھینکنے والی نہیں ہے، ہم پاکستانی سقوطِ ڈھاکا کا سانحہ بھول چکے ہیں، اس لئے نہیں کہ ہمارا حافظہ کمزور ہے بلکہ اس لئے کہ ہم نے شعوری اور لاشعوری طور پر مشرقی پاکستان کو کبھی اہمیت دی ہی نہیں تھی‘‘ راجہ صاحب کی زبان سے سال میں ایک آدھ دفعہ کوئی معقول بات بھی نکل جاتی ہے، اور یہ بات اسی سلسلے کی ایک ’’کڑی‘‘ تھی اور غالباً اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنا سال بھر کا کوئی معقول بات کہنے کا کوٹہ استعمال کر لیا تھا۔
ایک دن میں نے ان سے کہا ’’راجہ صاحب، مہنگائی بہت ہو گئی ہے‘‘ بولے ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے عرض کی ’’اللہ جانے کیسے؟ لیکن بازار میں جاؤ تو قیمتیں سن کر بدن سے جان نکلتی محسوس ہوتی ہے‘‘ بولے ’’ہماری قوم کو ہر وقت گرمبل کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ اس مسئلے کی گہرائی میں جائیں تو مہنگائی کے اسباب معلوم ہو جائیں گے؟‘‘ میں نے کہا ’’حضرت! عوام کو مہنگائی کے اسباب جاننے کا کوئی شوق نہیں، انہیں تو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور وہ کسی ماہر اسباب مہنگائی کے منتظر ہیں‘‘ اس پر راجہ صاحب نے فرمایا ’’بس تم لوگ کسی نہ کسی کا انتظار ہی کرتے رہو گے، مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچو گے؟‘‘ میں نے عرض کی ’’قبلہ مسئلے کی جڑ تک بھی تو کوئی ماہر معیشت ہی پہنچے گا یا عوام محنت مزدوری کرنے کے بجائے اس کی جڑیں تلاش کرنے کے لئے پہلے معاشیات کی موٹی موٹی کتابیں پڑھیں بلکہ اس سے پہلے کم از کم میٹرک کر لیں اور پھر ٹی وی کے ٹاک شوز میں اور معاشیات کے جرائد میں اپنی گرانقدر معلومات کا اظہار کرنے میں مصروف ہو جائیں‘‘ بولے ’’آپ سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، آپ محض کج بحثی کرتے ہیں‘‘ ۔
اس واقعہ کے بعد سے میں نے راجہ صاحب کے ساتھ گفتگو کا دورانیہ کم سے کم کر دیا ہے۔ اب میں ان کے اس مزاج کی جڑیں تلاش کرنے میں لگا ہوا ہوں اور میں تلاش کرکے رہوں گا خواہ مجھے اس کے لئے جڑانوالا ہی کیوں نہ جانا پڑے۔