آنکھ کھلتے ہی فون دیکھنے کی مجبوری لاحق ہوچکی ہے۔بدھ کی صبح بھی اس عمل سے گزرا تو سرچکراگیا۔ صحافی کی حیثیت میں تمام عمر گزارنے کی وجہ سے اتنا کچھ دیکھ چکا ہوں کہ میرے دل ودماغ اب حیران ہونے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔
میرے فون پر بے تحاشہ لوگوں کی جانب سے بھیجی ایک وڈیو کلپ کے سیلاب نے مگر واقعتا پریشان کردیا۔اس کلپ میں حال ہی میں بہت مشہور ہوئے ایک ٹی وی ڈرامہ کے مصنف اپنے خیالات کا ڈٹ کر اظہار کرنے والی ماروی سرمد پر چلارہے تھے۔ان کا لہجہ اور الفاظ کا چنائو ہر اعتبار سے ’’بازاری‘‘ تھے۔
پرنٹ صحافت کو بطور پیشہ اپنانے سے قبل سکول کے زمانے سے ریڈیو پاکستان لاہور سے رشتہ جڑا۔ بعدازاں پی ٹی وی سے تعلق بھی بہت گہرارہا۔ ان دو اداروں سے طویل تعلق نے جبلی طورپر محتاط زبان استعمال کرنے کا عادی بنایا۔Liveشو کی مگر بے پناہ محدودات ہیں۔اس کے اینکر کو ہمہ وقت بہت ہی چوکس رہنا پڑتا ہے۔جو کلپ مجھے موصول ہورہی تھی اسے بھیجنے والوں کی اکثریت لہذااینکر کی مذمت بھی کررہی تھی۔
کئی برس میں خود بھی ٹی وی کے لئے Live Showکرتا رہا ہوں۔ذاتی تجربہ کی بنیاد پر یہ عرض کرنے کو مجبور ہوں کہ بذاتِ خود ایک خاتون ہوتے ہوئے مذکورہ کلپ والے پروگرام کی اینکر ایک ’’سلیبرٹی‘‘ مہمان کے لہجے سے فطرتاََ سہم گئیں۔ ان کے ہکا بکاہوجانے سے کمانڈ اور کنٹرول والا اعتماد برقرار نہ رہا۔شاید مجھ جیسی ڈھیٹ ہوتیں تو وہیں حساب برابر کردیتیں۔
مذکورہ کلپ دیکھنے کی وجہ سے دل ودماغ پر حاوی ہوئی پریشانی کے باوجود یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو کافی غور کے بعد یہ تسلیم کرنے کو بھی مجبور ہوگیا ہوں کہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں 24/7چینل سوشل میڈیا کے فروغ کے بعد اب مزید ہیجان انگیز ہوچکے ہیں اور یہ چلن رکنے والا نہیں۔
ٹی وی بنیادی طورپر شوبز ہے۔اس کی سکرین کو ’’پرکشش‘‘ رکھنے کے لئے ’’ڈرامہ‘‘ کی مبادیات اور جدلیات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔’’ڈرامہ‘‘ بنیادی طورپر Conflictیا ٹکرائو کا کھیل ہے۔سیاسی موضوعات پر ہوئے ٹاک شوز بھی اپنے تئیں ’’حق‘‘ اور ’’باطل‘‘ کے مابین مناظرہ کرواتے ہیں۔مناظرہ مکالمے سے قطعاََ مختلف عمل ہے۔مکالمہ کسی موضوع پر مختلف خیالات کے اظہار کے بعد کوئی درمیانی راہ یا Middle Groundنکالنے کی کوشش کرتا ہے۔مناظرے میں کوئی ایک فریق اپنے سے جدا فریق کو ہر صورت ’’تھلے‘‘ لگانے کی کوشش کرتا ہے۔وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائے تو اپنی سوچ نہیں بلکہ تعصبات سے متفق افراد کی بھرپور دادسمیٹتاہے۔
سوشل میڈیا پر مذکورہ کلپ کے حوالے سے چلی بحث پر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو آپ کو یہ دریافت کرنے میں زیادہ وقت درکار نہیں ہوگا کہ اسے دیکھنے والوں کی ایک مؤثر تعداد نے مصنف کے اندازِ سخن کو بھی سراہا۔ان کی دانست میں ماروی سرمد”Deserved It”۔اندھی نفرت وعقیدت دورِ حاضر کی حقیقت ہے۔اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔
مذکورہ کلپ کو بھلاکر کینوس کو پھیلائیں۔Big Pictureکو دیکھیں تو اعتراف کرنا ہوگا کہ ٹی وی سکرینوں پر ’’بدکلامی‘‘ اب Normaliseیعنی روزمرہّ کی صورت اختیار کرچکی ہے۔لوگوں کی بے پناہ اکثریت نے اسے معمول سمجھ کربرداشت کرنا شروع کردیا ہے۔
ملکی سیاست میں ٹی وی سکرین کے ذریعے ’’بدکلامی‘‘ کے فروغ کا تذکرہ مجھے کئی نام لینے کو مجبور کردے گا۔یہ نام لے دئیے تو ان سے وابستہ ’’سپاہِ مداحین‘‘ میری ذات کے لتے لینا شروع ہوجائیں گے۔اس کالم کے ذریعے جو بات کہنا چاہ رہا ہوں لوگوں کی نگاہ سے اوجھل ہوجائے گی۔
بنیادی حقیقت یہ ہے کہ ’’بدکلامی‘‘ ریگولر اور سوشل میڈیا نے روزمرہّ کا معمول بنادی ہے۔1990کی دہائی سے پڑھے لکھے متوسط طبقے نے Politically Correctزبان کے استعمال پر زور دینا شروع کیا تھا۔اس چلن کا امریکہ سے آغاز ہوا جہاں’’نیگرو‘‘پکارنا بدکلامی ٹھہرا۔ اس کی جگہ Afro-American نے لے لی۔’’درست زبان‘‘ کے استعمال پر اصرار نے بتدریج معاشرے کے ’’کمزور‘‘ شمار ہوتے طبقات کو ’’عزت‘‘ بخشنا شروع کردی۔
حقیقت مگر یہ بھی رہی ہے کہ Politically Correctزبان کے استعمال پر اصرار نے خلقِ خدا کے اذہان میں نسلوں سے موجود تعصبات کو ختم نہیں کیا۔یہ اپنی جگہ پوری شدت سے برقرار رہے۔ ان تعصبات کی موجودگی نے بلکہ ’’درست زبان‘‘ استعمال کرنے والوں کو ’’منافق‘‘ دکھانا شروع کردیا۔کمیونزم کے زوال کے بعد معاشی اعتبار سے جو ’’نیا ورلڈ آرڈر‘‘ آیا اس نے گلوبلائزیشن کے نام پر امیر اور غریب کے مابین تفریق کو خوفناک حد تک بڑھادیا۔خوش حالی کی امید سے قطعاََ محروم ہوئے افراد کی اکثریت نے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ ’’درست زبان‘‘ کے استعمال پرمصر متوسط طبقے والے افراد ان کی حقیقی مشکلات کے بارے میں بے حسی کی حد تک لاتعلق ہوچکے ہیں۔ان کے دُکھوں کو دو ٹوک انداز میں بیان کرنے کے بجائے ’’درست زبان‘‘ کے استعمال پر اصرار سے توجہ بلکہ ’’فروعی‘‘ معاملات کی جانب موڑ دیتے ہیں۔معاشی مشکلات سے گھبرائے مگر متوسط طبقے کے اجارہ میں پھیلی ’’نئی اقدار‘‘ سے خود کو بے زبان محسوس کرتے افراد کو ایک تگڑے ’’ترجمان‘‘ کی ضرورت تھی۔ڈونلڈٹرمپ کی صورت انہیں وہ ’’ترجمان‘‘ مل گیا۔
امریکہ کی Rust Statesمیں کاروبار کی بندش سے پریشان ہوئے افراد کی بے چینی کو مہارت سے سمجھتے ہوئے اس نے America Firstکا نعرہ بلند کیا۔اس خوف کو ڈھٹائی سے پھیلایا کہ غیر ملکی اور خاص کر مسلمان تارکینِ وطن فقط امریکہ کی سفید فام اکثریت کے روزگار ہی نہیں چھین رہے ان کی آمد سے جرائم پھیلے۔منشیات کا فروغ ہوا۔امریکہ نے تارکین وطن کی مسلسل آمد کو ناممکن بنایا تو بالآخر ان کی Anglo-Saxon’’تہذیب‘‘ تباہ ہوجائے گی۔مسیحی مذہب بھی خطرے میں پڑجائے گا۔
2016کا صدارتی انتخاب اس نے ایک خاتون -ہیلری کلنٹن- کے خلاف لڑا تھا۔ہیلری کلنٹن کو امریکی عوام کی اکثریت اشرافیہ کا نمائندہ شمار کرتی تھی۔ان طبقات کی ترجمان جنہوں نے Globalizationپھیلائی۔’’درست زبان‘‘ کے استعمال پر اصرار کیا۔امریکی سرحدیں تارکین وطن کے لئے کھلی رکھیں۔ ڈونلڈٹرمپ سیاسی نظام کا Outsiderیا اجنبی شمار ہوتا تھا۔بذاتِ خود جائز اور ناجائز ذرائع سے بے تحاشہ دولت کمانے کے باوجود اس نے خود کو اشرافیہ اور روایتی سیاست دانوں سے ناراض ہوئے عوام کا ’’ترجمان‘‘ بناکر پیش کرنے کی کوشش کی۔ابھی یہ طے بھی نہیں ہوا تھا کہ ری پبلکن پارٹی اسے اپنا امیدوار بنالے گی تو وہ ایک ٹی وی پروگرام میں گیا۔اس کی اینکر Megyn Kelly’’جدید عورت‘‘ کے نمائندہ کے طورپر بہت دھانسو شمار ہوتی تھیں۔اس سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے ڈھٹائی سے بیہودہ زبان استعمال کی۔اس کی بہت مذمت ہوئی مگر ری پبلکن پارٹی کی ٹکٹ اس کے لئے یقینی ہوگئی۔بعدازاں ٹرمپ نے اپنے ہر مخالف کو ’’بدکلامی‘‘ شمار ہوتی زبان میں اپنی زد میں لینا شروع کردیا۔انتہائی ڈھٹائی سے اپنائی ’’بدکلامی‘‘ کے باوجود وہ امریکہ کا صدر منتخب ہوگیا۔نظر بظاہر اس کی نومبر2020کے صدارتی انتخاب میں دوبارہ کامیابی بھی تقریباََ یقینی تصور ہورہی ہے۔
’’بدکلامی‘‘ کے اعتبار سے ٹرمپ دور حاضر کا مؤثر اور طاقت ور ترین Iconہے۔اس نے اپنی ’’کامیابیوں‘‘ سے ثابت کیا ہے کہ ’’بدکلامی‘‘ لوگوں کی اکثریت کو خفا نہیں کرتی۔آپ کے مداحین بلکہ اس سے لطف اٹھاتے ہیں۔جو وڈیو کلپ مجھے بدھ کی صبح سے موصول ہوئی چلی جارہی ہے اس کا ’’بدکلام‘‘ مصنف بھی یقینا بازاری زبان اور الفاظ استعمال کرنے کے باوجود بالآخر انگریزی زبان میں بیان کردہ “Will Get Away With It”والی ’’شادمانی‘‘ سے لطف اٹھائے گا۔