کالم

یا غریب نوازؒ

Share

مغل اعظم شہنشاہ اکبر جتنا عرصہ زندہ رہا اجمیر شریف خواجہ خواجگان معین الدین چشتی کے مزار پر انوار پر عقیدت سے حاضری دیتا رہا، اجمیر شریف کا راستہ بتانے والے درویش وقت حضرت شیخ سلیم الدین چشتی کے درپر بھی سوالی بن کر جاتا رہا، اکبر اعظم کے بعد اس کا بیٹا سلیم الدین عرف عام میں جہانگیرتخت نشین ہوا، بلاشبہ شہزادہ سلیم عاشق مزاج تھا لیکن اپنے مرشد کریم حضرت سلیم الدین چشتی سے دیوانہ وار عقیدت رکھتا تھا، بادشاہ کی حضرت سے عقیدت و محبت سے بہت سارے لوگ جلتے تھے ایک بار کسی مقرب درباری نے حضرت شیخ کی شان میں گستاخانہ الفاظ کہہ دیے، یہ درباری بادشاہ کی محبوب اور لاڈلی بیوی ملکہ نور جہاں کا چہیتا تھا اس کی گستاخی اور شیخ کی شان کے بارے میں نازیبا کلمات کا جب جہانگیر کو پتہ چلا تو وہ یہ گستاخی برداشت نہ کر سکا غصے سے پاگل ہو گیا اور یہ حکم جاری کیا اس نافرمان گستاخ کی زبان گدی سے کھینچ نکالو اور میرے سامنے پیش کرو، محبوب ملکہ نورجہاں کو پتہ چلا تو اس نے اس شخص کی بھر پور سفارش کی ہاتھ جوڑے روئی پیٹی بہت زیادہ منت سماجت کی مگر جہانگیر پر ملکہ کی سحر انگیز اداں اور معافیوں کا بلکل بھی اثر نہ ہوا اور غصے سے بولا اگر میرے مرشد شیخ کی شان میں ایسی گستاخی تم کروگی تو تمھارا حشر بھی ایسا ہی ہوگا۔ پھر ہزاروں لوگوں ے یہ خوفناک منظر دیکھا جب اس شخص کی گردن میں سوراخ کرکے اس کی گستاخ زبان نکال لی گئی اور پھر جب یہ بے ادب زبان بادشاہ کے سامنے لائی گئی تو بادشاہ دہاڑتے ہوئے با آواز بولا ہر وہ زبان جو میرے مرشد کی گستاخی کرے گی اس کا حشر یہی ہو گا، لوگ حیرت سے دیکھتے کہ جہانگیر جس کی ماں ایک ہندو عورت تھی جس نے بچپن سے اپنی ماں کو بتوں اور مورتیوں کے سامنے ماتھا رگڑتے دیکھا وہ کبھی بھی ہندو مذہب اور بتوں کی پرستش کی طرف مائل نہ ہوا، یہ بادشاہ سلیم کی اپنے مرشد اور خواجہ معین الدین سرکار سے والہانہ محبت تھی کہ ایسا بچہ جو ہندو عورت کے بطن سے پیدا ہوا کبھی بھی اسلام سے دور نہ ہوا، شہنشاہ اجمیر کا فیض تھا کہ اکبراعظم دین الہی کے باوجود خواجہ پاک کے نورانی فیض اور سحر سے نہ بچ سکا اور جہانگیر بھی آخری دم تک شاہ اجمیر اور خواجہ سلیم چشتی کے سحر اور عقیدت میں مبتلا رہا۔وقت کروٹ لیتا ہے جہانگیر پیوند خاک ہوتا ہے تو اس کا بیٹا شاہ جہاں تخت نشین ہوتا ہے شاہ جہاں کے چاروں بیٹوں میں تخت کی جنگ شروع ہوتی ہے، داراشکوہ، شجاع، مراد اور اورنگ زیب چاروں کی لڑائی میں، دارا، شجاع اور مراد کو شکست ہوتی ہے اورنگ زیب مغلیہ سلطنت کا وارث بن کر جلوہ گر ہوتا ہے، اورنگزیب مذہبی رجحان رکھتا تھا وہ اپنی روزی کے لیے ٹوپیاں سیتا اور قرآن پاک کی کتابت کرتا اِسی دوران جب جوگیوں اور ملنگوں نے اِسلامی تعلیمات کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی تو اورنگزیب کی تلوار بے نیام ہوگئی جس نے شراب افینیوں اور دوسرے نشے استعمال کرنے کے بعد فقیری ولائت کا دعوی کیا وہ قہر عالمگیری سے نہ بچ سکا، جھوٹے صوفیوں کی زندگی کا دائرہ تنگ ہونے لگا تو اورنگزیب کو درویشوں صوفیوں کا دشمن سمجھا جانے لگا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ تو خود حضرت شیخ مجدد الف ثانی کے بیٹے خواجہ معصوم کا مرید اور عقیدت مند تھا، اصل بات یہ تھی کہ نام نہاد ملنگوں، جوگیوں نے جب تصوف کی حقیقی تعلیمات کی بجائے قبر پرستی اور ناچ گانے کو رواج دیا تو بادشاہ کی تلوار ان کے خلاف بے نیام ہوگئی اورنگزیب کے غصے کی وجہ یہ تھی کہ مزارات مقدسہ پر ہر وقت میلہ لگا رہتا تھا یہ بھکاری بھیک مانگنے کے ساتھ ساتھ منشیات کی لعنت میں بھی مبتلا ہو چکے تھے معذور گداگروں کے علاوہ بہت زیادہ تعداد میں صحت مند لوگوں نے بھی جعلی معذوروں کا بھیس بدل لیا تھا، اورنگزیب نے جس طرح معاشرے کے دوسرے بے ایمان لوگوں کو سیدھا کیا اِس لیے یہاں بھی اورنگزیب ایسے نام نہاد جھوٹے بھکاریوں اور صوفیوں کے خلاف تھا، اورنگزیب نے تو مزارات مقدسہ پر فضول رسموں اور بدعت کے سیلاب کو روکنے کی کو شش کی ہندوستان کے مختلف مزارات سے ہوتا ہو ا آخر اورنگزیب سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی کے مزار اقدس پر حاضری کے لیے اجمیر شریف کی طرف روانہ ہوا۔اجمیر شریف سے باہرہی اورنگزیب سواری سے اتر کر پیدل چلناشروع ہوگیاخدمت گاروں نے بار بار سواری پیش کی لیکن اورنگزیب کے جاہ جلال سے ہر طرف خاموشی اور سکوت کا عالم تھا اچانک بادشاہ کی نظر قطار میں کھڑے اندھوں پر پڑی جو نظر سے محروم تھے لیکن بھیک کے لیے ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے، اورنگزیب نے ایک اندھے سے پوچھا تم یہاں کس لیے آئے ہو تو بولا آنکھوں کی روشنی لینے آیا ہوں بادشاہ نے پوچھا کب سے یہاں ہو تو وہ بولا پانچ سال سے ابھی تک تمھارے آنکھیں ٹھیک کیوں نہیں ہوئیں خدا کی مرضی اندھے نے جواب دیا اِسی طرح اورنگزیب نے دوسرے اندھوں سے بھی یہی پوچھا کسی نے بتایا دس سال کسی نے کہا زیادہ عرصہ سے یہاں موجود ہوں لیکن آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوں اورنگزیب جلال میں آکر بولا میں مانگنے جارہا ہوں اگر میری واپسی تک تم لوگوں کی بینائی واپس نہ آئی تو سب کو قتل کردوں گا، پھر بادشاہ شہنشاہ اجمیر کے مزار کی طرف اِس طرح بڑھا جس طرح غلام اپنے آقا کی طرف جاتا ہے۔لوگوں کا سیلاب امڈ آتا تھا ہندوستان کے شہنشاہ کو دیکھنے لیکن اورنگزیب دنیا مافیا سے بے خبر غلاموں کی طرح شاہ اجمیر کے قدموں میں ہاتھ باندھ کرکھڑا تھا بادشاہ کے ہونٹوں کو جنبش ہورہی تھی پھر بادشاہ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنکھوں سے آنسوں کی آبشار جاری ہو چکی تھی بادشاہ کو روتے دیکھ کر لوگوں پر بھی رقت طاری ہوگئی، اورنگزیب جو مغلیہ سلطنت کا وارث تھا اصل شہنشاہ ہند کے قدموں میں بھکاریوں کی طرح عقیدت و احترام سے کھڑا تھا، بادشاہ کافی دیر تک نذرانہ عقیدت پیش کرتا رہا پھر باہر آگیا امیروزیر اور سپاہی بادشاہ کے جلال سے بخوبی واقف تھے کہ اب بادشاہ ان اندھوں کو قتل کرادے گا کیونکہ اورنگزیب کے زبان سے نکلے الفاظ کبھی واپس نہیں آتے تھے، جب بادشاہ اندھوں کے پاس پہنچا تو وہاں کا منظر ہی بدل چکا تھا اندھوں کی روشنی واپس آچکی تھی وہ خوشی سے دیوانہ وار ناچ رہے تھے وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ بادشاہ سلامت کی برکت سے ہمیں آنکھوں کی روشنی واپس ملی تو اورنگزیب بولا یہ میری وجہ سے نہیں بلکہ تم جو اتنے سالوں سے شاہ اجمیر کے کوچے پڑے ہو تم نے کبھی دل سے دعا مانگی ہی نہیں۔ آج موت کے خوف سے جب دعا مانگی تو دعا دل و روح کی گہرایوں سے نکلی اور بارگاہ الہی میں قبول ہوئی، پھر بادشاہ واپس چلا گیا، لیکن اندھوں کی روشنی کی کرامت دیکھ کر اورنگزیب بھی دل سے شاہ اجمیر کا عقیدت مند ہوگیا پھر جب بھی مشکل جنگ کا مسئلہ ہوتا تو وہ ننگے پاں اجمیر شریف حاضری دیتا اور ہر بار فیض اورکامیابی لے کر جاتا، دور غلامی میں انگریز وائسرائے لارڈ کرزن اکثر کہا کرتا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایک ایسے بزرگ کو دیکھا ہے جو اپنی وفات کے بعد بھی ہندوستانیوں کے دلوں پر حکمرانی کرتا ہے وہ خواجہ معین الدین چشتی ہیں۔