منتخب تحریریں

طالبان… ’’پراسرار بندوں‘‘ کی کہانی …(2)

Share

قندھار میں نوجوان ملا عمر کی زیر قیادت طالبان کا ظہور، ان کی برق رفتار فتوحات اور تھوڑے سے عرصے میں کابل میں ان کی حکومت کا قیام، ایک دلچسپ اور حیرت ناک کہانی تھی، جو مولانا فضل الرحمن سے اس انٹرویو کا بنیادی موضوع تھی (یہ انٹرویو ستمبر 1998 میں لاہور میں کیا گیا تھا)۔
”پاکستان کا طالبان سے رابطہ کب ہوا؟‘‘
پاکستان اپنے پڑوس میں ابھرتی ہوئی اس نئی قوت سے لا تعلق نہیں رہ سکتا تھا۔ پاکستان افغانستان کے راستے (سڑک اور ریلوے کے ذریعے) سوویت یونین (مرحوم) کے قبضے سے، آزاد وسطی ایشیا تک رسائی چاہتا تھا۔ طالبان ایک مؤثر قوت بننے لگے تو پاکستان نے انہیں سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت پاکستان کے الفاظ میں یہ ”سیاسی حمایت‘‘ تھی۔ وہ اس قوت سے لا تعلق نہیں رہ سکتی تھی جس نے پاکستان کی سرحد کے قریب مختلف (اور اہم) علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ پاکستان کی سپورٹ سے طالبان کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔ خانہ جنگی کے شکار افغان عوام کی طرف سے پذیرائی نے بھی ان کے سامنے ”امکانات‘‘ کے نئے دروازے کھول دیئے تھے؛ چنانچہ انہوں نے مختلف صوبوں کی انتظامیہ کے سامنے دو مطالبات پیش کئے:
(1) اقتدار ہمارے حوالے کر دو
(2) اپنا اسلحہ بھی سرنڈر کر دو۔
چہار آسیاب (گلبدین حکمت یار کے بہت اہم ہیڈ کوارٹر) پر قبضے کے بعد طالبان کابل کے سامنے جا کھڑے ہوئے تھے‘ لیکن احمد شاہ مسعود نے کابل سے دست بردار ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ تب طالبان نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے ہرات، نمروز اور فرح کے صوبوں کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ اس مہم میں انہیں ہرات میں اصل جنگ کا سامنا کرنا پڑا‘ جس میں بالآخر وہ فتح مند ہوئے، اس کے بعد، ایک سال میں وہ جلال آباد پر قبضے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ یہاں سے ان پر فتوحات کے نئے در وا ہونے لگے۔ یہیں سے وہ حکمت یار کے ہیڈ کوارٹر ”سروبی‘‘ پر قبضے میں کامیاب ہوئے، جس کے بعد انہوں نے کابل کے تمام راستے کاٹ دیئے، اب دارالحکومت ان کے محاصرے میں تھا۔ اگست 1996 میں احمد شاہ مسعود نے جنگ کے بغیر کابل چھوڑ دیا۔ ادھر صوبہ پغمان سے پروفیسر عبدالرب رسول سیاف بھی پسپا ہو گئے‘‘۔
”اس سے پہلے قاضی حسین احمد صاحب نے پروفیسر ربانی اور احمد شاہ مسعود کے ساتھ حکمت یار کی صلح بھی تو کرا دی تھی جس کے بعد حکمت یار، احمد شاہ مسعود کے زیر قبضہ کابل میں پہلی بار بطور وزیر اعظم داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے‘‘۔
”یہ صلح صفائی دراصل طالبان کا راستہ روکنے کے لیے تھی۔ قاضی صاحب نے جو یہ اتحاد کرایا اس نے افغانستان کی جہادی قوت کو ”حنفی سُنی‘‘ اور ”اخوانی سُنی‘‘ میں تقسیم کر دیا۔ طالبان حنفی سنی اور ربانی و حکمت یار وغیرہ اخوانی سنی قرار پائے‘‘۔
”سویت یونین کے خلاف جہاد کے دوران افغان علما کی جہادی تنظیمیں بھی بہت سرگرم رہی تھیں۔ اس نئی کشمکش میں ان کا رول کیا تھا؟‘‘
”انہوں نے اپنا وزن طالبان کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ مولوی محمد یونس خالص، مولانا جلال الدین حقانی، مولوی محمد نبی محمدی اور مولوی ارسلان خان سمیت تمام جید علما کرام نے طالبان کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔ طالبان اور علما ایک قوت بن گئے‘ جس کا بہت سا ”کریڈٹ‘‘ قاضی حسین احمد صاحب کو بھی جاتا ہے‘‘ (مولانا فضل الرحمن نے ہنستے ہوئے کہا)۔ اگلی بڑی جنگ مزار شریف پر ہوئی، جہاں طالبان نے پہلے مرحلے میں شکست کھائی۔ انہوں نے کوئی بہتر جنگی تدبیر اختیار نہیں کی تھی۔ انہیں مزار شریف میں داخل ہونے دیا گیا جو دراصل ان کے گھیرائو کی حکمت عملی تھی۔ جنرل مالک نے بد عہدی کی جس کے نتیجے میں طالبان کو سخت جانی نقصان اٹھانا پڑا (جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 5 ہزار کے قریب تھی) اڑھائی ہزار تو ایک ہی جگہ مارے گئے۔ بعد میں مزار شریف پر طالبان کے قبضے کے بعد یہاں کئی اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں، جن میں سینکڑوں طالبان کو دفن کیا گیا تھا۔ مزار شریف پر قبضے کے بعد تقریباً پورا افغانستان طالبان کے زیر نگیں آ گیا۔ بہت تھوڑا علاقہ احمد شاہ مسعود کے پاس رہ گیا تھا۔ (مولانا نے یہاں یہ یاد دہانی بھی کرائی کہ افغانستان میں سوویت یونین والے داخل ہوئے تو ان کے والد محترم، مفتی محمود صاحب نے سب سے پہلے جہاد کا فتویٰ دیا تھا۔ طالبان نے اس کی لاج رکھی)
اس طویل انٹرویو میں، افغانستان (اور وسطی ایشیا) میں اپنے اپنے قومی مفادات کے حوالے سے پاک، ایران کشمکش پر بھی گفتگو ہوئی، لیکن یہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں… طالبان اور ان کی تیز رفتار فتوحات کے حوالے سے بھی یہ مولانا کا اپنا نقطۂ نظر تھا۔ بعض ”باخبر‘‘ لوگ اس حوالے سے ہمارے دستِ غیب کی کار فرمائی اور نادیدہ قوتوں کی معجز نمائی کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ کابل پر طالبان کا قبضہ اگست 1996 (پاکستان میں محترمہ کے دوسرے دور) میں ہوا‘ لیکن طالبان کی ”اماراتِ اسلامی افغانستان‘‘ کو پاکستان نے نواز شریف کے (دوسرے) دور میں تسلیم کیا۔ دنیا میں صرف تین ممالک نے اسے تسلیم کیا تھا، دیگر دو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہیں۔ طالبان کے طرزِ حکومت سے اختلاف کے باوجود، ایک دنیا نے یہ حقیقت تسلیم کی کہ طالبان نے افغانستان کو امن دیا، وار لارڈز کا خاتمہ ہوا۔ مجاہد تنظیموں کی باہمی خون ریزی بھی اختتام کو پہنچی۔ یو این او کی رپورٹ کے مطابق افغانستان پوست کی کاشت سے مکمل طور پر پاک ہو گیا تھا۔
”نائن الیون‘‘ کے بعد کیا ہوا؟ یہ ایک الگ المناک کہانی ہے۔ پاکستان میں تب جنرل پرویز مشرف مالک و مختار تھے۔ وہ کبھی طالبان کو پاکستان کی فرسٹ ڈیفنس لائن قرار دیا کرتے تھے۔ نائن الیون کے بعد واشنگٹن سے ایک ہی ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو گئے۔ باب وڈ ورڈز کی کتاب ”Bush At War‘‘ کے مطابق یہ صدر بش نہیں، امریکی وزیر خارجہ کولن پاول تھے، جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کو کال کی تھی۔ پاکستان کا کمانڈو صدر (خود اپنے بقول) کسی سے ”ڈرتا ورتا‘‘ نہیں تھا‘ لیکن اب ”پاکستان فرسٹ‘‘ کے اصول پر اس نے کولن پاول کے ساتوں مطالبات تسلیم کر لیے تھے۔ وائٹ ہائوس میں صدر بش کی زیر صدارت امریکہ کی نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس جاری تھا، جب کولن پاول سچوایشن ہال میں داخل ہوئے۔ اپنے کارنامے کا فخریہ اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: معزز ار اکینِ کونسل! صدر مشرف نے سارے مطالبات تسلیم کر لیے۔ صدر بش کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ انہوں نے حیرت اور مسرت سے معمور لہجے میں اپنے وزیر خارجہ سے کہا: گویا تم نے جو چاہا، پا لیا؟
”دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘‘ میں یہ ”غیر مشروط اور لا محدود تعاون‘‘ (Unconditional and unlimited co-opration) امریکیوں کے لیے حیران کن تھا۔
دوسرے ملکوں سے معاملات کرتے ہوئے، سرمایہ دار امریکہ کا رویہ خالصتاً ”تاجرانہ‘‘ ہوتا ہے‘ لنڈے کے اس دکان دار کی مانند جو کسی چیز کی قیمت سو روپے بتاتا اور پھر مول تول کر کے اسے چالیس پچاس میں فروخت کر دیتا ہے۔ امریکیوں کا خیال تھا، جنرل مشرف سات میں سے دو، تین مطالبات مان لیں گے ، ایک دو سے انکار کر دیں گے، اور باقی ایک، دو کو کابینہ کی منظوری سے مشروط کر دیں گے۔
”بش ایٹ وار‘‘ میں ایک اور واقعہ کا ذکر بھی ہے۔ جب نائن الیون ہوا، جنرل محمود واشنگٹن میں تھے۔ (12 اکتوبر 1999 کی کارروائی کے مردِ آہن، راولپنڈی کے کور کمانڈر اب آئی ایس آئی کے سربراہ تھے)۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو ”پتھر کے زمانے میں دھکیل دینے‘‘ کی دھمکی، نائب صدر رچرڈ آرمٹیج نے انہی کو دی تھی۔ واللہ اعلم۔