نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے دو ادوار کے درمیان حد فاصل نہیں بلکہ اختتام و آغاز ہیں۔ گورا راج کا اختتام اور مقامی راج کا آغاز۔ انگریز کی حکومت ختم ہوئی اور نیلسن منڈیلا کی قیادت میں جنوبی افریقہ کو آزادی مل گئی؛ تاہم یہاں سے انگریزوں کا راج ختم ہونے پر وہ والی صورتحال پیش نہیں آئی جیسی ہمارے ہاں 1947 میں ملنے والی آزادی کے بعد پیش آئی تھی۔ جنوبی افریقہ سے گوری حکومت کے خاتمے پر گو کہ بہت سے گورے واپس چلے گئے لیکن اب بھی نو فیصد سے زائد گورے جنوبی افریقہ کے شہری ہیں۔ یہ سارے یورپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انگریز، فرنچ‘ جرمن، ولندیزی اور دیگر ممالک کے گورے۔ کل ملا کر اب بھی جنوبی افریقہ میں لگ بھگ پچپن لاکھ گورے مستقل رہائش پذیر ہیں۔ جنوبی افریقہ میں نسلی اعتبار سے آبادی پانچ گروہوں میں تقسیم ہے۔ افریقن، یعنی مقامی لوگ۔ رنگدار (Coloured) جنوبی افریقہ کی تیسری بڑی نسلی آبادی ہے۔ عام طور پر ”کلرڈ‘‘ کی اصطلاح کالوں کیلئے استعمال ہوتی ہے لیکن جنوبی افریقہ میں یہ لفظ مخلوط النسل آبادی کیلئے استعمال ہوتا ہے جس کے والدین میں سے کوئی ایک گورا، کالا، انڈین، کوئی دوسرا ایشین ہو۔ یہاں چوتھی بڑی آبادی ایشین ہے اور انہیں عموماً وہاں ”انڈین‘‘ کہا جاتا ہے۔ انگریز اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں ہنوستان سے بہت سے مزدور زبردستی والی بیگار کی مد میں جنوبی افریقہ لائے تھے۔ انہیں گورے حاکم ”قلی‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ آج جنوبی افریقہ میں کسی کو ”قلی‘‘ کہہ کر پکارنا یا کافر کہنا جرم ہے اور قابل سزا ہے۔ پانچویں بڑی آبادی کو کوئی نام نہیں دیا گیا۔ یہ دیگر ممالک یا نسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں اور جنوبی افریقہ میں ان کی آبادی آدھ فیصد کے قریب ہے۔ سفید فام لوگ 1911 میں جنوبی افریقہ کی آبادی کا 22 فیصد تھے۔ 1980میں یہ نسبت کم ہو کر 16فیصد پر آ گئی اور آج کل یہ نسبت ساڑھے نو فیصد کے لگ بھگ ہے۔
بہت ساری زمینیں اب بھی گوروں کی ملکیت ہیں۔ بڑے بڑے اداروں میں گورے بیٹھے ہوئے ہیں اور بڑے بڑے کاروباری ادارے، ملز اور صنعتیں کارپوریشنز اور سنڈیکیٹس کی ملکیت ہیں جن کے بڑے حصے دار آج بھی گورے ہیں۔ ایک دوست نے بتایا کہ اس کے عزیز برطانیہ سے آئے تو یہاں کا حساب دیکھ کر بڑے حیران ہوئے۔ سہولتیں برطانیہ جیسی تھیں۔ طرز زندگی بھی یورپین سٹیڈرڈ کا لیکن گھریلو ملازمین کی ایسی سہولت کہ بندہ پریشان ہو جائے۔ ہر خوشحال گھر میں دو تین مقامی ملازم۔ خواتین ملازمائیں بڑی کم تنخواہ پر بہ آسانی دستیاب اور محنتی ایسی کہ بندہ دنگ رہ جائے۔ کیا عجب ملک ہے کہ جہاں اب کالے حکمرانوں کے زیر سایہ سابقہ گورے حاکموں کے گھروں میں پانچ پانچ کالے ملازم ہیں اور حاکم طبقہ سابقہ حاکموں کی ملازمت کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ اب گورا مالک اپنے کالے ملازم سے وہ سلوک کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا جو وہ چند عشرے قبل اپنے ”غلاموں‘‘ سے روا رکھتا تھا۔
مظفر گڑھ کے ایک ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کیا ہوئی ان کے گھر میرا کھانا تھا۔ ڈاکٹر گلزار ملک سے دیارِ غیر میں سرائیکی بول کر بڑا لطف آیا۔ ویسے تو محمد علی انجم سے بھی مستقل سرائیکی چلتی تھی اور ان کی بیگم سے بھی‘ لیکن بچے اردو اور انگریزی کے علاوہ وہاں رائج ”افریقان‘‘ زبان میں طاق تھے۔ ڈاکٹر گلزار وہاں کینسر سپیشلسٹ ہیں اور اس کا اپنا ہسپتال ہے۔ ان کا گھر نیلسن منڈیلا کے گھر کے سامنے تھا۔ نیلسن منڈیلا کا آبائی گھر تو جوہانسبرگ کی نواحی بستی ”سوویٹو‘‘ میں ہے لیکن بعد میں وہ اس گھر میں رہے۔ میں ڈاکٹر ہارون عباسی کے ہمراہ خاص طور پر سوویٹو گیا اور نیلسن منڈیلا کے گھر گیا۔ گھر کیا ہے؟ کسی بڑے آدمی کے سرونٹ کوارٹر کے برابر، بلکہ اس سے بھی چھوٹا۔ ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوئے۔ چند فٹ کا برآمدہ۔ ایک چھوٹا سا لاؤنج۔ تقریباً بارہ فٹ چوڑا اور پندرہ فٹ لمبا۔ اس کی دونوں طرف ایک ایک کمرہ۔ دونوں کمرے آٹھ فٹ ضرب دس گیارہ فٹ کے۔ ایک کمرے میں ابھی بھی نیلسن منڈیلا کا پلنگ اور دیگر استعمال کی اشیاء پڑی ہوئی ہیں۔ باورچی خانے کے نام پر چار ضرب پانچ فٹ کے لگ بھگ ایک کونے میں کھڈا نما جگہ اور بس۔ ٹوائلٹ نامی کوئی چیز نہیں تھی۔ معلوم ہوا اس کام کے لئے پبلک ٹوائلٹ استعمال ہوتا تھا۔ ہمارے ہاں کے نیلسن منڈیلاؤں کے گھروں کے کمپلیکس سینکڑوں ایکڑ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ہمارے نیلسن منڈیلا کا لگژری ٹوائلٹ اصلی نیلسن منڈیلا کے پورے گھر سے دو چار فٹ بڑا ہو۔موجودہ حکمران یعنی کالے چوری چکاری اور چھین جھپٹ کو عین جائز سمجھتے ہیں اور کسی راہ چلتے سے فون وغیرہ چھیننا اور گھروں کے نوکروں کا چھوٹی موٹی چیز کھسکا لینا بالکل عام سی بات ہے۔ پکڑے جانے پر عموماً شرمندگی وغیرہ کا کوئی رواج نہیں۔ وہ اپنی اس چوری چکاری اور چھینا جھپٹی کو اپنی صدیوں کی غلامی کا بدلہ تصور کرتے ہیں۔ اور ”مال غنیمت‘‘ کو اپنی اس غلامی کا کفارہ۔ خواہ یہ ادائیگی میرے جیسے کسی پردیسی سے ہی کیوں نہ کروائی گئی ہو جس کا اس سارے قضیے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔
بچوں کو خاص ہدایت تھی کہ سڑک پر چلتے ہوئے فون وغیرہ جیب سے نہیں نکالنا۔ مجھے ہدایت تھی کہ زیادہ پیسے جیب میں نہیں رکھنے۔ پاسپورٹ ہوٹل میں جمع کروا دیا تھا۔ ویسے ہوٹل کے کمرے بھی محفوظ جگہ نہیں لیکن وہاں چوری چکاری بڑی ٹیکنیکل بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ ایک دوست نے بتایا کہ وہ اپنا پرس کمرے میں بھول گیا۔ اس میں دو اڑھائی ہزار ڈالر کی رقم تھی۔ واپس آیا تو اس میں سے صرف تین سو ڈالر کم تھے۔ اب بھلا وہ بچ جانے والے باقی ڈالروں کی خوشی مناتا یا غائب ہو چکے تین سو ڈالروں کے غم میں مبتلا ہوتا؟ اب آپ خود بتائیں ان تین سو ڈالروں کے لئے وہ پولیس سٹیشن جاتا؟ قانونی کارروائی کرتا؟ اگر پورے پیسے چوری ہوتے تو وہ کسی بھی حد تک جا سکتا تھا مگر یہ تین سو ڈالر والی چوری ایسی چوری تھی کہ اسے افسوس کے بجائے خوشی محسوس ہوئی کہ اس کی بڑی رقم محفوظ رہ گئی ہے۔ یہ حرکت اناڑی چوروں کی نہیں بلکہ انسانی نفسیات، مسافر کی مجبوریوں اور حدود و قیود سے مکمل آگاہی والوں کا کام ہے۔ ایسی صلاحیتیں تجربے سے حاصل ہوتی ہیں۔ اب بھلا نفس پر اس سے بڑھ کر اور کنٹرول کیا ہو گا کہ ہاتھ میں پرس ہو، کمرہ خالی ہو، پرس میں دو اڑھائی ہزار ڈالر ہوں اور بندہ اس میں سے محض تین سو ڈالر نکالے اور پرس وہیں رکھ دے۔ دل میں آیا کہ کسی طرح اپنے حکمرانوں کو اس قسم کے چوروں کی شاگردی میں دیا جائے اور نفس پر کنٹرول ورکشاپ میں کوئی کورس وغیرہ کروایا جائے کہ دستیاب مال میں سے کتنا لوٹا اور ہضم کیا جائے اور کتنا مال رضاکارانہ طور پر چھوڑ دیا جائے۔ بلکہ اس ورکشاپ کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے سرکاری افسران، عوامی نمائندگان، جملہ ٹھیکیداران اور دیگر مافیا ارکان کو اس بات کی تربیت دی جائے کہ کتنے فیصد مال کو جیب میں ڈالنا ہے اور کتنے فیصد کو پروجیکٹ پر خرچ کرنا ہے۔ کتنی رشوت جیب میں ڈالنی ہے اور کتنا ٹیکس بہرصورت گورنمنٹ کے خزانے میں جمع کروانا ہے۔ کاش ہمارے درج بالا سارے طبقے جنوبی افریقہ کے ہوٹلوں میں مسافروں کے پرس میں سے بارہ فیصد رقم چرانے والے چوروں سے اخلاقی سبق حاصل کریں اور ایک خاص حد سے زیادہ لوٹ مار سے پرہیز کریں۔ نیز وہ یہ بھی طے کریں کہ ان کا لوٹ مار کا حتمی ٹارگٹ کیا ہے اور اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے کے بعد تائب ہو جائیں نہ کہ اپنا ٹارگٹ ضمنی بجٹ وغیرہ کی طرح وقتاً فوقتاً اونچا کرتے جائیں۔
ہم درمیان میں جنوبی افریقہ کے ساحلی شہر ایسٹ لندن کے نواح میں واقع قصبے کنگ ولیمز ٹاؤن میں ڈاکٹر نوید انجم اور ملک وحید کے پاس چلے گئے۔ دو دن پلک جھپکتے میں گزر گئے۔ رات سمندر کے کنارے باربی کیو نے ایسا لطف دیا کہ مزہ آ گیا۔ ملک وحید نے کسی پروفیشنل کبابیے سے بڑھ کر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ واپسی پر ڈاکٹر انجم شہزاد نے کھانا رکھا ہوا تھا۔ دوستوں کی محبت اور کھانوں کی لذت نے دس دن پر مشتمل اس تفریحی دورے کو تقریباً پانچ دن بنا کر رکھ دیا۔ محمد علی انجم سے طے پایا کہ اگلی بار کوئی کھانا نہیں ہو گا؛ البتہ شکار ضرور کھیلا جائے گا۔ سوچتا ہوں آئندہ جنوبی افریقہ سے آئے ہوئے کوئی ایک آدھ چور بطور ”موٹی ویشنل سپیکر‘‘ و ٹرینر لیتا آؤں اور ملتان کے دو چار موجودہ ارکان اسمبلی کی حد تک تربیت کا بندوبست کروں۔ ہر اچھے شہری کی طرح آخر میرے بھی کچھ فرائض ہیں۔ ایک آدھ رکن اسمبلی کو تو اس تربیت کی اشد ضرورت ہے۔