کالم

ہندو سامراج اور مسلم کشی۔۔!

Share

جب متعصب، تنگ نظر اور انتہا پسند شخص کسی ملک کی قیادت کے منصب پر فائز ہو جائے تو وہی کچھ ہوتا ہے جو آ ج کل بھارت میں ہو رہا ہے۔ نریندر مودی نے دیکھتے ہی دیکھتے بھارت کے چہرے پر پڑے تمام نقاب الٹ دئیے ہیں۔ کہاں کی جمہوریت؟ کہاں کا سیکولرازم؟ کہاں کے بنیادی شہری حقوق؟ کہاں کی آزادی اظہار رائے؟ کہاں کی مساوات؟ کہاں کے مساوی مواقع؟ اور کہاں کا تحمل و برداشت؟ تقریبا ڈیڑھ ارب آبادی کے اس ملک میں اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کو جس سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اسکی مثال شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ملے۔یہ نہیں کہ مسلم اقلیت کو صرف تعلیم، صحت اور دیگر شہری سہولیات کے حوالے سے محروم رکھا جاتا ہے بلکہ وہ معاشی طور پر بھی پسماندگی کی چکی میں پس رہے ہیں۔بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی، انکی زندگیاں، ان کے گھر، ان کا مال، ان کے کاروبار،کچھ بھی محفوظ نہیں۔ ان کی عبادت گاہیں اور ان کے قبرستان بھی انتہا پسند ذہنیت کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ آئے دن کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی بہانے نفرت کی آگ بھڑکائی جاتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کو نشانے پر دھر لیا جاتا ہے۔ ان مسلم کش فسادات کی انسانیت سوز اور بھیانک داستانیں بھارتی تاریخ میں جا بہ جا بکھری پڑی ہیں۔ لیکن متعصب بھارتی قائدین کے لئے یہ سب کچھ معمول کا درجہ رکھتا ہے اور دنیا بھی بڑی آسانی کے ساتھ بھارت کے اس مکروہ چہرے کی ملامت کرنے کے بجائے، اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیتی ہے۔ سو بھارت میں بسنے والے بیس کروڑ سے زائد مسلمان ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں۔
متنازعہ شہریت بل، مودی حکومت کی ایسی کارستانی ہے جس نے پورے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس قانون کا سب سے اہم نشانہ مسلمانوں ہی کو بنایا گیا ہے۔ ایسے خاندان جو تقسیم ہند سے پہلے کے وہاں آباد ہیں، ان کے افراد اور نئی نسل کے نوجوانوں کو ناکوں پر روک روک کر پوچھا جاتا ہے کہ اپنی شہریت کے کاغذ دکھاو۔ اس کالے قانون کے خلاف جامعہ ملیہ، علی گڑھ یونیورسٹی یا جہاں کہیں بھی احتجاج کی آواز اٹھی، اسے بے دردی سے کچل دیا گیا۔ نوجوان طلبہ و طالبات کو نہایت بے رحمی کیساتھ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس ماحول میں نوجوانوں میں با غیانہ جذبات ابھرے۔ حبیب جالب اور فیض احمد فیض کی شاعری بھارت کے طول و عرض میں گھونجنے لگی۔” لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے”، ایک طرح کا ترانہ بن گیا۔ انتہا پسندی اور عصبیت کے زہر میں بجھی ہوئی سوچ کو حقائق کا درست اندازہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن غیر جانبدار بھارتی اور ہندو مبصرین بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ اب یہ وہ بھارت نہیں رہا جسکی بات گاندھی یا جواہر لعل نہرو جیسے لیڈر کیا کرتے تھے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 90 سال قبل علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد دیتے وقت درست طور پر کہا تھا کہ مسلمانوں کی آزادی، بقا اور اقتصادی و نظریاتی سلامتی صرف اسی صورت ممکن ہے کہ ہندوستان کی حدود میں ایک الگ آزاد، خود مختار مسلم ریاست وجود میں لائی جائے۔ دو قومی نظریہ بھی سو فیصد درست تھا۔ قائد اعظم نے بھی درست کہا تھا کہ یہاں ایک نہیں دو قومیں بستی ہیں جن کا مذہب، رہن سہن، تہذیب، روایات، اقدار اور تاریخ نہ صرف جدا بلکہ ایک دوسرے سے متصادم ہے اور وہ ایک جگہ اس طرح نہیں رہ سکتے کہ ایک قوم کو عددی برتری حاصل ہو اور وہ اس برتری کی بنیاد پر دوسری کو غلام بنا دے۔
ہمارے بعض نام نہاد لبرلز اور روشن خیال اس دو قومی نظریے کا مذاق اڑانے لگے تھے۔ لیکن نریندر مودی نے اس نظریے کو ایک بار پھر پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ کر دیا ہے۔ مودی نے تقسیم ہند کے 77 سال بعد ایک بار پھر دو قومی نظر یے کی یاد تازہ کر دی ہے۔ بلکہ یہ کہنا ذیادہ درست ہو گا کہ یہ نظریہ آر۔ایس۔ایس، شیوسینا، بی جے پی، وشوا ہندو پرساد اور بجرنگ بلی جیسی انتہا پسند تنظیموں کے ذریعے بار بار یاد دلایا جا رہا ہے۔ نئی دہلی میں حالیہ مسلم کشی، تعصب، مسلم دشمنی اور نفرت کے اسی پرانے سلسلے کی نئی کڑی ہے۔
متنازعہ شہریت بل کی منظوری کے بعد دلی کا شاہین باغ، اجتماعی تحریک کامرکز بن گیا جہاں بل کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین بڑی تعداد میں جمع ہو گئیں اور دھرنا دے دیا۔ یہ انتہائی پر امن احتجاج تھا۔ کسی کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ کوئی بھی ایسی حرکت نہیں کر رہا تھا جو جمہوری احتجاج کے مسلمہ تقاضوں کے خلاف ہو۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد سے پہلے اور ہنگامے پھوٹنے سے صرف ایک دن قبل مودی سرکار کے ایک مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ۔ 1947″ میں جناح نے ایک مسلم ریاست قائم کر لی۔ یہ ہمارے بڑوں کی بہت بڑی غلطی تھی جس کی قیمت ہم آج تک ادا کر رہے ہیں۔ اگر تمام مسلمانوں کو اسی وقت یہاں سے نکال کر پاکستان بھیج دیا جاتا تو آج کی صورتحال ایسی نہیں ہوتی”۔

اس زہریلی تقریر کے اگلے ہی دن مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت اور تعصب کی طویل تاریخ رکھنے والا شخص کپیل مشرا، دلی میں نمودار ہوا اور وہ آگ بھڑکائی جو 45 مسلمانوں کا خون پی گئی اور دو سو سے زائد کو شدید زخمی کر گئی۔ شرما 2015 میں عام آدمی پارٹی کے پلیٹ فارم سے ریاستی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا تھا لیکن بعد میں پارٹی بدل کر بھارتیہ جنتا پارٹی میں چلا گیا۔ 2020 کے انتخابات میں اسے شکست ہوئی۔ اپنے سیاسی وجود کو منوانے کے لئے اسے ہندو جذبات کو بھڑکانے اور مسلمانوں کے خلاف پر تشدد کاروائیاں کرنے کی پرانی اور آزمودہ ترکیب سوجھی۔ اس نے شاہین باغ کے نواح میں ہی ہندووں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پولیس کو الٹی میٹم دیا کہ” شاہین باغ اور ملحقہ سڑک کو مسلم مظاہرین سے فوری طور پر خالی کراو بصورت دیگر ہم خود کاروائی کریں گے”۔بتایا جاتا ہے کہ مقامی پولیس کو مختلف خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے پانچ وارننگز مل چکی تھیں کہ انتہا پسند ہندو مسلمانوں پر حملوں کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ دلی کی پولیس ریاستی وزیر اعلیٰ کجریوال کے بجائے براہ راست مرکز یعنی مودی کے ہاتھ میں ہے اس لئے اس مسلم کش منصوبہ بندی کا کوئی نوٹس نہ لیا گیا۔
پھر وہی کچھ ہوا جس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ الٹی میٹم کی میعاد پوری نہیں ہوئی تھی کہ مسلم خواتین مظاہرین پر مسلح جتھوں نے ہلہ بول دیا۔ بعد میں جو کچھ ہوا وہ اکیسویں صدی کے غیر مہذب ملک کو بھی زیب نہیں دیتا۔ پہلے تو پولیس تماشائی بن گئی۔ جب مسلم نوجوانوں نے اپنی ماوں بہنوں کے تحفظ کے لئے پیش قدمی کی تو پولیس با قاعدہ فریق بن گئی۔ اس نے نہ صرف فسادیوں کی پشت پناہی کی بلکہ مسلم مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ان پر براہ راست فائرنگ شروع کر دی۔ پھر غنڈہ گردی کا ایک بھیانک سلسلہ شروع ہو گیا۔ مسلمانوں کے گھر نذر آتش کئے جانے لگے۔ ان کی دکانوں پر مشتمل پورے پورے بازار جلا دئیے گئے۔ ان کی املاک تباہ کر دی گئیں۔ معصوم بچوں اور خواتین کو مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ایک 85 سالہ بوڑھی خاتون کو زندہ جلا دیا گیا۔ سینکڑوں لوگ بے گھر ہو گئے اور عمر بھر کا اثاثہ لٹا بیٹھے۔ اس دوران دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے امریکہ کا صدر، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے بھارت کا دورہ کر رہا تھا۔ بھارتی حکومت کی زیر سرپرستی بھارتی انتہا پسندجنونیوں کی انسانیت سوز کاروائیوں کی پوری تفصیل ڈونلڈ ٹرمپ کو پہنچ رہی تھی لیکن اسے جمہوریت یا اقلیتوں کے حقوق یا انسانیت کی اقدار سے نہیں، اربوں ڈالر کا اسلحہ بیچنے کی فکر تھی۔ اس سے سوال بھی کیا گیا تو اس نے یہ کہہ کر منہ دوسری طرف پھیر لیا کہ ” یہ بھارت کا ندرونی معاملہ ہے” ۔ یہی مودی جب ریاست گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو اس نے2 200 میں مسلمانوں کے قتل عام کی ایک انتہائی شرمناک نظر قائم کی تھی۔ تب ایک ہزار سے زائد مسلمان قتل کر دئیے گئے۔ اس سے کہیں ذیادہ زخمی ہوئے۔ بیسیوں خواتین کی آبرو ریزی ہوئی۔ بچوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ تب بھی یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہی تھا لیکن امریکہ نے اسے اس وقت تک یاد رکھا جب تک مودی بھارت کا وزیر اعظم نہ بن گیا۔ تب تک امریکہ نے پابندی لگائے رکھی کہ مودی جیسے سفاک شخص کو ویزا نہیں دیا جائے گا۔ اب سب کچھ روا ہے کہ امریکہ کے مفادات اس سے جڑے ہیں۔ دلی سانحہ پر صرف ایک توانا آواز اٹھی۔ترکی کے صدر طیب اردگان کی۔
بھارتی جمہوریت اور آئین کی پاسداری کا ایک اور واقعہ، دلی کی مسلم کشی کے اگلے ہفتے پیش آیاجب ہائی کورٹ کے ایک جج، جسٹس ایس مرلی دھر کو راتوں رات تبدیل کر دیا گیا۔ اس جج نے مسلم کشی پر پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے عدالت کے اندر وڈیو ز چلائیں اور اپنے ریماکس میں حکومتی اہلکاروں اور پولیس کی شدید مذمت کی۔ یہ جرم اتنا بڑا تھا کہ اس کا فوری تبادلہ کر دیا گیا۔
بھارت اپنی تاریخ کے مکروہ تریں دور سے گزر رہا ہے۔ لیکن شاید پاکستان کا یہ کمزور تریں عہد ہے۔ بھارت نے آئین میں تبدیلی کر کے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کر لیا، ہم کچھ نہ کر سکے۔ مظلوم کشمیری عملا قید وبند کی زندگی گذار رہے ہیں لیکن ہم ان کے لئے عالمی حمایت حاصل نہ کر سکے۔اور اب دلی کی سڑکیں مسلمانوں کے لہو سے رنگین ہو گئیں، ان کی مسجدوں اور قبرستانوں تک کو نہ بخشا گیا، ان کا سب کچھ راکھ بنا دیا گیا لیکن ہم میں اتنی توانائی نہیں کہ دنیا کو بھارت کے اس مکروہ چہرے کی طرف متوجہ کر سکیں۔ کوئی مجبوری سی مجبوری ہے!