Site icon DUNYA PAKISTAN

میرا مذہب، میرا اخلاق

Share

بس ایک چیز تسلی دیتی ہے: انبیا کی سیرت۔ آدمی حیرت سے سوچتا ہے: ابن آدم اخلاقیات کی اس معراج تک کیسے پہنچا؟
معرکہ برپا ہے۔ گھمسان کا رن پڑا ہے۔ جس کے پاس جو اینٹ روڑا ہے، وہ ہاتھ میں لیے دعوتِ مبارزت دے رہا ہے۔ الفاظ کا محاذ سب سے زیادہ گرم ہے۔ ایک طرف وہ ہیں جنہوں نے اپنے اخلاقیات ”ہیومن ازم‘‘ سے اخذ کیے ہیں۔ دوسری طرف وہ ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ انبیا کے دین کے دفاع میں نکلے ہیں۔ گویا انبیا کے اخلاقیات کے وارث۔ میں اس سوچ میں ہوں کہ اگر یہ انبیا کے دین کی حفاظت کا اہتمام ہے تو پیغمبروں کے اخلاق کے نمونے کیوں دکھائی نہیں دے رہے؟ عوام فریقین میں کوئی اخلاقی امتیاز تلاش کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟
میں جس نظامِ اخلاق کو مانتا ہوں، وہ ‘ہیومن ازم‘ یا لبرل ازم سے ماخوذ نہیں ہے۔ یہ انسانی تجربے اور مشاہدے کی دریافت نہیں ہے۔ اس کا جوہر میرے پروردگار نے میرے خمیر میں رکھا ہے۔ انبیا کی تعلیم میں اس کی یاددہانی ہے۔ اُن کی شرح میں اس کی تہذیب ہے۔ اُن کے اسوہ میں اس کی مثالیں ہے۔ خالق نے میرے وجود میں جو چراغ رکھ دیا ہے، انبیا کی دعوت اس کا روغن ہے۔ وہ اس چراغ کو نہ صرف بجھنے نہیں دیتا، اس کی لو کو بھی تیز تر کر دیتا ہے۔ یوں شاہراہ حیات روشن سے روشن تر ہوتی چلی جاتی ہے۔
جو اپنے اخلاقی وجود کو روشن رکھنے کے لیے کسی دوسرے ماخذ کی طرف رجوع کرتے ہیں، مجھے اُن پر اعتراض نہیں۔ یہ ان کا حق ہے۔ میرا سوال عملی نوعیت کا ہے: اخلاقیات کے ان نظاموں کے علم برداروں نے اخلاق کے جو نمونے پیش کیے ہیں، وہ کیا ہیں؟ کیا محترم خلیل الرحمن قمر اور محترمہ ماروی سرمد کو میں ان اخلاقی نظاموں کا ترجمان مان لوں؟ کیا اہلِ مذہب یہ کہنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ ہم جس نظامِ اخلاق کے دفاع کے لیے نکلے ہیں، یہ وہی ہے جو قمر صاحب کے اسلوبِ کلام میں پایا جاتا ہے؟ کیا ہیومن ازم کے علمبردار یہ کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں کہ ہاں، ہم اخلاقیات کا وہ نظام عام کرنا چاہتے ہیں، جس کے مظاہر ماروی صاحبہ کی گفتگو اور ٹویٹس وغیرہ میں پائے جاتے ہیں؟
اختلاف کیسے کیا جاتا ہے؟ جو ‘ہیومن ازم‘ کو اخلاقیات کا ماخذ مانتا ہے کیا اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے؟ یقیناً ہو گا لیکن یہ بتانے کا پہلا حق اسی کا ہے جو اس کو مانتا ہے۔ مذہبی اخلاقیات کی بات کرنے والے پر بھی اس سوال کا جواب واجب ہے۔ میں چونکہ اسی روایت کو مانتا ہوں، اس لیے پورے اعتماد سے بتا سکتا ہوں کہ مذہبی اخلاقیات میں اس سوال کو جو مرکزیت حاصل ہے، کسی دوسرے نظامِ اخلاق میں اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔
مذہب تو مکارمِ اخلاق کی تکمیل کو اپنا مقصد قرار دیتا ہے۔ پیغمبر تو مبعوث ہی اس لیے ہوتے رہے ہیں کہ انسانی اخلاق کو اس کے معراج تک پہنچا دیں۔ بنی اسرائیل کا اصل بحران اخلاقی ہی تھا۔ صرف اسی کی اصلاح کے لیے اللہ نے اپنے جلیل القدر پیغمبر سیدنا مسیحؑ کو ان کی طرف بھیجا۔ عہد نامہ جدید تو اوّ ل و آخر اس اخلاق کی یاد دہانی ہے جس کا چراغ اللہ نے انسانی فطرت میں روشن کیا۔ حضرت مسیحؑ اسی کی تذکیر کرتے ہیں۔ اناجیل میں قانون سے متعلق ایک آیت موجود نہیں۔
قرآن مجید اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی سرگزشتِ انذار ہے۔ قرآن اسی بات کی تذکیر کے لیے بنی اسرائیل کی تاریخ بیان کرتا ہے۔ اس الہامی ادب میں بتایا گیا کہ ان لوگوں سے کیسے مخاطب ہونا ہے جو آپ سے اختلاف کرتے ہیں۔ دعوت کس اسلوب میں دینی ہے۔ اختلاف بڑھ جائے تو کیا کرنا ہے۔ مخالف کٹ حجتی کی طرف مائل ہو تو پھر کیا کرنا ہے۔ یہاں تک بتایا کہ فرعون جیسوں سے معاملہ ہو تو اپنے لہجے کے وقار کی کس طرح حفاظت کرنی ہے۔
رسالت مآبﷺ نے اپنی سیرت اور اقوال سے یہ بتایا کہ مخالفین سے کس طرح ہم کلام ہونا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی کتاب ‘دعوتِ دین اور اس کا طریقہ کار‘ میں اس کو ایک لائحہ عمل کی صورت دے دی ہے۔ بد زبانی تو دینی لغت کا حصہ ہی نہیں۔ قرآن مجید بتاتا ہے کہ انبیا اپنی دعوت دلائل کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں اور پھر اس پر بات ختم کر دیتے ہیں: ہم تو محض ابلاغ کے مکلف ہیں۔ وما علینا الا البلاغ۔ آج ہمارا مبلغ اپنے خطاب میں مخالفین کی خوب خبر لیتا اور پھر تقریر کا اختتام اسی جملے پر کرتا ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کی معنونیت سے بے خبر ہے۔
میں یہ بات بہ تکرار لکھتا رہا ہوں کہ اسلام ہدایت ہے، کوئی عصبیت نہیں۔ یہ خدا کے حضور میں جواب دہی کا احساس ہے۔ اس میں ایک ہی بات فیصلہ کن ہے: کیا چیز خدا اور اس کے رسول کی تعلیمات کے مطابق اور انصاف کے پیمانے پر پورا اترتی ہے۔ میں پابند ہوں کہ حق کا گواہ بنوں اور اس اخلاقی معیار پر پورا اتروں جو میرے پروردگار نے میرے لیے طے کر دیا ہے۔ گروہی عصبیت ایک حقیقت ہے اور اس کا احساس کوئی جرم نہیں۔ میرا مذہب مجھے یہ کہتا ہے کہ یہ عصبیت اس معیارِ حق و باطل کے تابع ہے جو دین متعین کرتا ہے۔
مجھے خوشی ہوئی کہ محترم ہارون الرشید، جناب انصار عباسی اور برادرم عامر خاکوانی نے اخلاقیات کے باب میں حساسیت کا مظاہرہ کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اخلاق کے چراغ کو الہام کے روغن سے روشن کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بحث میں کسی گروہی عصبیت کو نہیں، اسلام کی تعلیمات کو پیشِ نظر رکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسے مواقع ہی انسان کا امتحان ہوتے ہیں‘ ورنہ روزمرہ زندگی میں ہر کوئی با اخلاق دکھائی دیتا ہے۔
یہ انتہا پسندی ہے جو ایک سماج کو گروہوں میں تقسیم کرتی ہے۔ ان کے مابین مکالمے کو مشکل بنا دیتی ہے۔ ہمارا مزاج مناظرے کا خوگر ہے۔ اس کے زیرِ اثر وجود میں آنے والا ذہن مجھ جیسے لکھنے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ میں ماروی سرمد کی مذمت میں وہی اسلوب اپناؤں، قمر صاحب نے جس کا مظاہرہ کیا ہے۔ میں جب ایسا نہیں کرتا تو منافق ٹھہرتا ہوں۔ پھر انتہا پسند ہر اس اسمِ صفت کے استعمال کو میرے لیے جائز سمجھتے ہیں جو ان کی لغت میں منافقین کے لیے مستعمل ہے۔ میں جب یہ دیکھتا ہوں تو اداسی مجھے گھیر لیتی ہے۔
ایسے میں انبیا کی سیرت ہے جو میرا ہاتھ تھامتی ہے۔ کہاں اللہ کے نبی، گناہوں سے معصوم و مامون اور کہاں مجھ جیسے خطا کار، جو ساری زندگی حقیر آرزوئوں سے نجات نہیں پا سکتے۔ اگر کوثر و تسنیم میں دھلے ہوئے لوگ انسانوں نے اپنے تئیں سولی چڑھا دیے تو ہما شما کس شمار میں۔ یہی بات حوصلہ دیتی ہے۔ ہم نے تو خیر کچھ سہا ہی نہیں۔ اس سفر کے راہنما تو آروں سے چیر ڈالے گئے۔ پھر یہ کہ ہماری بات میں خطا کا پورا امکان موجود ہے۔ کیا معلوم ناقد نے اسے کس زاویے سے دیکھا؟
میں نے اخلاقیات کی اس بحث کو اس لیے دینی حوالے سے دیکھا کہ اس میں مذہب کو فریق بنایا گیا ہے اور ایک ڈرامہ نویس کو مذہبی اقدار کا ترجمان۔ مجھے ماروی سرمد صاحبہ کے اخلاقیات سے اس وقت سروکار نہیں۔ وہ جانیں اور ہیومن ازم کے علم بردار جانیں۔ میں اس باب میں ایک بات مزید کہنا چاہتا ہوں۔ ‘عورت مارچ‘ کے علم برداروں نے اپنا منشور جاری کر دیا ہے۔ اس میں کشمیریوں کا حقِ خود ارادیت بھی شامل ہے۔ مناسب یہی ہے کہ ہم کسی فرد کے بجائے اس منشور کو بحث کا موضوع بنائیں۔
ناقدین کی خدمت میں، اس لیے مجھے یہی عرض کرنا ہے کہ ‘میرا مذہب، میرا اخلاق‘۔ مجھے اپنا مقدمہ اپنے اخلاقی معیارات کو سامنے رکھتے ہوئے پیش کرنا ہے۔ جو مذہب کا نام لے کر بات کرے گا، مجھے اس کے موقف اور لہجے کو دین کے اخلاقی پیمانے پر پرکھنا ہے۔ اگر میرا اخلاق میرے مذہب کے بجائے، میرے تعصبات اور میرے جذبات کے تابع ہے تو پھر میں درحقیقت ‘میرا جسم، میری مرضی‘ کا قائل ہوں کہ زبان بھی جسم ہی کا حصہ ہے۔

Exit mobile version