عورت مارچ کی قیادت اور فنڈنگ پر اعتراضات کی وجہ کیا؟
پاکستان میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ریلیاں، جلوس اور سیمینار گزشتہ پانچ دہایوں سے جاری ہیں لیکن اس بار عورت مارچ کے حوالے سے شدید تنقید سامنے آرہی ہے۔
اس کی ایک وجہ گزشتہ برس پاکستان کے مختلف شہروں میں منعقد کی گئی عورت مارچ کی ریلیاں ہیں، جس میں خواتین کی جانب سے اٹھائے جانے والے کچھ پوسٹرز پر درج نعروں کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
اس بار خواتین کے عالمی دن سے قبل ہی اس مارچ کے پلے کارڈز سے لے کر فنڈنگ کے ذرائع اور قیادت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
فحاشی و عریانی کا الزام
جمعیت علمائے اسلام پارلیمنٹ کے اندر اور باہر عورت مارچ کی مخالفت کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے عورت مارچ کی مزاحمت کا اعلان کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتی سرپرستی میں فحاشی و عریانی کو فروغ دیا جارہا ہے، حکومت کے آزاد رویوں سے این جی اوز کو عورت مارچ سے تہذیبی اقدار پر حملہ کرنے کا موقع مل رہا ہے۔
انھوں نے کہا ’کارکنوں سے کہتا ہوں کہ ایسے فحاشی پھیلانے والے عناصر جہاں بھی نظر آئیں ان کے بارے میں قانون کو مطلع کریں، قانون حرکت میں نہ آئے تو ہم سڑکوں پر نکل کر دستور کی اسلامی شقوں کے تقاضوں کا تحفظ کریں گے۔‘
عورت مارچ سکھر کی آرگنائزر عرفانہ ملاح کا کہنا ہے کہ تاریخ میں کوئی بھی جدوجہد فحاشی اور عریانی کے لیے نہیں ہوئی ہے، جو عورتیں اپنے گھر، تعلیم اور زندگی کے حق کے لیے نکل رہی ہیں کیا وہ کوئی فحاشی پھیلا رہی ہیں۔
’مذہبی جماعتوں کی نظر میں تو پورا مذہب ہی عورت کے جسم پر کھڑا ہے، جب عورتیں مزاحمت کرتی ہیں تو ان کی اجارہ داری چیلنج ہوتی ہے۔‘
وومین ایکشن فورم کی رہنما، محقق اور کالم نویس نازش بروہی کا کہنا ہے کہ ان جماعتوں نے پہلی بار یہ باتیں نہیں کیں، یہ ابتدا سے ایسی ہی باتیں کرتی آئیں ہیں، اب ان کی کوئی سیاست نہیں بچی اس کو بچانے کے لیے وہ یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔
مارچ کے بینرز سے اشتعال
گزشتہ برس عورت مارچ کے بعض بینرز پرسوشل میڈیا پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا گیا اور یہ سرد جنگ ابھی تک جاری ہے۔ ان میں ایک بینر ’میرا جسم میری مرضی‘ سر فہرست ہے۔
جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مفتی محمد نعیم کا کہنا ہے کہ میرا جسم میری مرضی جاہلیت کا نعرہ ہے جس کے ذریعے معاشرے میں حیوانیت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق اسلام کا دیگر مذاہب سے موازنہ کریں تو اسلام نے خواتین کو جو حقوق دیے ہیں وہ کسی بھی مذہب نے نہیں دیے۔
صحافی جویریہ صدیق بھی ان بینرز کو متنازعہ سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ عورت مارچ کی مخالف نہیں ہیں لیکن چیزوں کو متنازعہ بنا کر مشہور کرنا درست عمل نہیں ہے۔
’گزشتہ سال بھی یہ ہوا تھا کہ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ عورت مارچ کا منشور کیا ہے لیکن جو متنازعہ بینرز تھے وہ زیادہ مشہور ہو گئے۔ ٹانگیں کھول کر بیٹھنا میرے نزدیک عورتوں کی خودمختاری نہیں، ہمارے معاشرے میں شدت پسندی ہے بہتر یہ ہے کہ ہم چیزوں کو خطرناک نہ بنائیں۔‘
جویریہ صدیق نے مزید کہا ’عورتوں کے لیے بہت زیادہ جدوجہد کرنی ہے، انھیں اچھی غذا ملنی چاہیے، انھیں پسند کی شادی کا حق ہو، انھیں وراثت میں حق ہونا چاہیے، تعلیم اور پسند سے کیریئر منتخب کرنے کا حق ہو، ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھ جائیں کہ ٹانگیں کھول کر بیٹھنا، سگریٹ پینا، یہ وومین امپاورمنٹ نہیں، ہم اپنے خاندانی نظام کو توڑ کر جدوجہد نہیں کر سکتے۔‘
نامور مصنف بینا شاہ نے سوشل میڈیا پر ’میرا جسم میری مرضی‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا: ’میرا جسم میری مرضی کا مطلب میں ریپ کا شکار نہیں ہونا چاہتی، مجھے جبری شادی کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا، مجھے جبری حاملہ نہیں کیا جاسکتا، مجھ سے جبری اسقاط حمل نہیں کرایا جاسکتا اور مجھے سمگلنگ یا جسم فروشی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔‘
سکھر میں عورت مارچ کی منتظم عرفانہ ملاح کہتی ہیں کہ اگر عورتیں یہ نعرہ لیکر آتی ہیں کہ ’میرے وجود پر میرا اختیار ہے‘ تو اس میں کونسی فحاشی ہے۔
’ایک عورت کو شادی کی رات اس لیے مار دیا جاتا ہے کہ وہ کنواری نہیں تھی۔ کیا یہ فحاشی نہیں ہے کہ عورت کو صرف جنسی عضو کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور کوئی عورت اس سے آگے نکل کر یہ کہتی ہے کہ میں یہ نہیں ہوں میں انسان ہوں تو اس میں غلط کیا ہے۔‘
نازش بروہی کا کہنا ہے کہ معاشرے کو اس بات پر واضح ہونا چاہیے کہ عورتیں انسان ہوتی ہیں اور عورتوں کی عزت بنیادی حق اور فرض ہے۔
’جس معاشرے میں چھوٹی بچیوں اور قبر میں لاشوں کا ریپ ہوتا ہو، عورتوں کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے اس سے معاشرے میں کوئی بحران نہیں آتا؟ لیکن اگر ایک عورت ہاتھ میں بینر لیکر کھڑی ہو جائے تو کیا اس سے معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔‘
’مراعات یافتہ خواتین کا مارچ‘
ایک حلقہ ایسا بھی ہے جس کا خیال ہے کہ اس تحریک کی قیادت مراعات یافتہ طبقے کے پاس ہے۔
سماجی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر رافع نامی صارف لکھتے ہیں کہ وہ ورکنگ کلاس کی خواتین کی حمایت کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں چاہتے کہ کچھ این جی اوز اور مراعات یافتہ طبقے کی خواتین عورت مارچ کو یرغمال بنالیں اور فحاشی پھیلائیں۔ سب سے بڑا مسئلہ تعلیم کا ہے جس کا کوئی بینر نظر نہیں آتا۔
عظمی قاضی لکھتی ہیں ’عورت مارچ عورت آزادی مارچ میں تبدیل ہو گیا ہے، یہ ایلیٹ خواتین عام عورتوں کا نقصان کر رہی ہیں جس کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ پوائنٹ اسکورنگ سے ان کی حقیقی مسائل دفن ہو جاتے ہیں۔‘
نازش بروہی کا کہنا ہے کہ مراعات یافتہ خواتین کی باتیں وہ کہتے ہیں جو کبھی ان مارچ میں گئے ہی نہیں ہیں، اگر وہ جائیں گے تو دیکھیں گے اس میں ہر طبقے کی عورتیں آتی ہیں۔
’کراچی میں گزشتہ عورت مارچ میں بھی اسٹیج پر مختلف تنظیموں، طبقات مذہبی اقلیتی خواتین نے آکر اپنے مسائل بیان کیے، یہ وہ ہی پرانے ہتھکنڈے ہیں کہ یہ ایلیٹ خواتین ہیں یا شہری عورتیں ہیں یعنی ایک ایسا لیبل لگا دیں کہ ان کی بات پر کوئی توجہ نہ دے۔‘
نازش بروہی کا کہنا ہے کہ خواتین کی تحریکوں کا قانون سازی میں معاونت میں ایک اہم کردار رہا ہے۔
عرفانہ ملاح کہتی ہیں کہ حیدرآباد میں جو گزشتہ سال عورت مارچ ہوا تھا اس میں پانچ ہزار خواتین کا تعلق دیہی علاقوں سے تھا ان میں کسان اور بھٹا مزدور بھی شامل تھیں، اسٹیج پر بھی انھوں نے ہی آ کر بات کی تھی۔
فنڈنگ کہاں سے آتی ہے؟
عورت مارچ کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں درخواست گزار نے کئی دیگر الزامات کے ساتھ ایک یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ ریاست مخالف قوتیں اس مارچ کو فنڈ فراہم کر رہی ہیں تاہم عدالت نے اس درخواست کو مسترد کردیا۔
نازش بروہی کہتی ہیں کہ یہ مارچ نہ فنڈیڈ ہے اور نہ کسی فائیو سٹار ہوٹل میں ہوتا ہے، اس کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں اور لڑکیاں اس کا چندہ جمع کرتی ہیں۔
عرفانہ ملاح نے بتایا کہ عورت مارچ کے لیے کچھ اصول طے کیے گئے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان کے جو ترقی پسند مرد و خواتین ہیں جن کی آمدنی کا ذریعہ معلوم ہے، ان سے چندہ لیا جائیگا۔
’اس کے ساتھ ایک اصول یہ بھی ہے کہ ہم کسی ایسے ذریعے سے فنڈنگ نہیں لیں گے جو اپنا نام بتانا نہیں چاہتا ہو کیونکہ ہم ہر چیز کو شفاف رکھنا چاہتے ہیں۔‘
’کسی بھی غیر ملکی ادارے سے فنڈنگ نہیں لی جائیگی اور نہ ہی حکومت سے۔ یہ واحد سرگرمی ہے جس میں کہیں سے فنڈنگ نہیں آتی بلکہ خواتین خود جمع کرتی ہیں۔‘