صحتہفتہ بھر کی مقبول ترین

زیادہ کام کرنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسلسل تھکن کے احساس یا ’برن آؤٹ‘ سے چھٹکارا کیسے ممکن؟

Share

’میں مسلسل کام کرتی چلی جا رہی تھی۔ مجھے اپنی کمپنی سے عشق ہو گیا تھا۔ میں اسے اپنی سب سے بڑی محبت کہتی ہوں، کیونکہ یہ میرے لیے بہت ہی زیادہ اہم بن چکی ہے۔‘

’میرا وجود میرے کام میں لپٹتا چلا جا رہا تھا۔ اگر میں وہ نوکری نہیں کر رہی ہوتی تو مجھے پتا ہی نہ ہوتا کہ میں کون ہوں۔‘

2017 میں ایمبر کوسٹر ایک ٹیکنالوجی کمپنی میں کامیابی کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔ ان کی عمر تیس برس سے کم تھی اور وہ کام کے غرض سے دنیا بھر کا سفر کرتی رہی تھیں۔

’کاغذ پر میری زندگی بہت زبردست لگتی تھی۔‘

لیکن ان کی زندگی میں سب کچھ ٹھیک نہیں تھا اور وہ بار بار ملنے والے اشاروں کو نظر انداز کر رہی تھیں۔

’میں کہتی تھی کہ میں تھکن کے مسلسل احساس سے تھک چکی ہوں۔‘

تھکن اور متلی کے علاوہ انھیں مائگرین، پیٹ میں شدید درد، جلد پر خراشوں اور ایکزیما جیسے مسائل در پیش تھے۔ ڈاکٹر ان کے مرض کو سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ لندن کی رہائشی ایمبر نے ٹھیک ہونے کے لیے دو ہفتے کی چھٹی لے لی۔

لیکن حالات اور خراب ہوتے چلے گئے۔

انھوں نے بتایا کہ ’میں ٹھیک سے بول نہیں پاتی تھی۔ میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ کھانے کی میز پر ہوتی اور اس سے پانی مانگتے ہوئے کہتی کہ مجھے میری ڈاک پکڑا دو۔ میں نمبر بھی نہیں پڑھ پاتی تھی۔ سامان خریدنے دکان تک نہیں جا پاتی تھی، راستے میں ہی کسی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتی تھی۔‘

برن آؤٹ

شروع میں انھوں نے کام سے دو ہفتے کی چھٹی لی۔ اس دوران ڈاکٹروں نے متعدد ٹیسٹ کیے۔ رفتہ رفتہ یہ دو ہفتے چھ ماہ میں بدل گئے۔

ایک ڈاکٹر نے انھیں بتایا کہ ان کے خون کے ٹیسٹ کے نتائج اتنے اچھے ہیں جیسے کسی بیس سالہ اولمپک کھلاڑی کے ہوتے ہیں۔

ایمبر نے بتایا کہ ’میں صرف روتی رہتی تھی۔ مجھے پتا تھا کہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ مجھے لگنے لگا تھا میں پاگل ہو گئی ہوں۔‘

جو بات ان کے ڈاکٹروں کو نہیں معلوم تھی اور جس کا انھیں بھی اندازہ نہیں تھا وہ یہ تھی کہ ایمبر ایک لمبے عرصے تک مسلسل بہت زیادہ کام کرتی رہیں۔

وہ ہر روز صبح 5:30بجے ای میل بھیجنے اٹھتی تھیں اور رات کو 11:30بجے سے پہلے بستر میں واپس نہیں لوٹتی تھیں۔ وہ ہفتے کو بھی دفتر کے کام کی وجہ سے کچھ اور نہیں کرتی تھیں۔

وہ مسلسل اپنی ٹیم کے دیگر افراد سے کہتی رہتی تھیں کہ وہ کام کے ساتھ ساتھ آرام کو بھی یقینی بنائیں۔ تاہم کسی نے ان سے کبھی نہیں کہا کہ وہ خود ایسا نہیں کر رہی تھیں۔

جب وہ کم کام کرنے کی کوشش کرتیں تب بھی ذہن کو مکمل طور پر کام سے دور نہیں رکھ پاتی تھیں۔

آخر کار وہ علاج کے لیے ایک ماہر نفسیات کے پاس پہنچیں۔ انھیں احساس ہوا کہ ان کا جسم ہی نہیں، ان کی ذہنی صحت بری طرح متاثر ہو چکی تھی۔

علامات کو کیسے پہچانیں؟

ایمبر کو درپیش مسئلے کو ڈاکٹرز ’برن آؤٹ‘ کہتے ہیں۔ ڈاکٹر نیرینا رام لکھن نے بتایا کہ ’برن آؤٹ کی جسمانی علامات ایک طرح کی تنبیہ ہوتی ہیں جو آپ کا دماغ آپ کو دے رہا ہوتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ٹیکنالوجی اور سکرینز کے مسلسل استعمال سے اس طرح کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔

’اگر ہم ذہن کو تھوڑی دیر کے لیے آرام دیں اور جسم میں ہونے والی تبدیلیوں پر غور کریں تو جسم میں ہلکا پھلکا درد محسوس کریں گے، جو کہ ابتدائی علامات ہیں جو آگے چل کر بڑی پریشانیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور جسم ان کے ذریعے مدد کی فریاد کرتا ہے۔‘

ڈاکٹر رام لکھن مشورہ دیتی ہیں کہ ہمیں کام کے دوران خود کو کچھ عرصے سکرین سے دور رکھنے کے لیے تھوڑی تھوڑی دیر بعد وقفہ لینا چاہیے، بھلے وہ چھوٹی سی بریک ہی کیوں نہ ہو۔ راستے میں، باتھ روم میں، کھانے کے دوران اور رات کو فون بیڈ روم سے باہر رکھنا چاہیے۔ صحت کے لیے اچھا کھانا کھانا چاہیے اور رات کو واجب وقت پر سو جانا چاہیے۔

ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں کرنے سے سات سے دس دنوں کے اندر اندر آپ خود میں واضح تبدیلی محسوس کریں گے۔

برن آؤٹ کے مراحل

  • پہلا مرحلہ، مسلسل ذہنی دباؤ کا احساس: ایسا محسوس ہونا کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، صبح اسی احساس کے ساتھ نیند کھلنا، صبح کا آغاز کافی اور ہاتھ میں موبائل فون کے ساتھ ہونا۔
  • دوسرا مرحلہ: آپ کام کر درمیان وقفہ لینا بند کر دیتے ہیں۔ زیادہ دیر تک کام کرتے ہیں اور گھر جا کر بھی کام کو کسی نہ کسی روپ میں جاری رکھتے ہیں۔ چھٹی کے دن یعنی بھی آپ کام کرتے ہیں۔ غسل خانے میں بھی آپ فون ساتھ لے جاتے ہیں۔
  • تیسرا مرحلہ: جسمانی علامات آہستہ آہستہ بڑھنے لگتی ہیں۔ سر میں درد یا مائیگرین کی شکایت، بار بار غسل خانے جانے کی ضرورت پڑنا، بار بار زکام ہونا جو جلدی پیچھا نہیں چھوڑتا ہو اور جسم میں درد رہنا۔
  • چوتھا مرحلہ: آپ کے رویے میں الجھن، غصے اور بے صبری کا بڑھنا، ساتھ کام کرنے والوں سے زیادہ بحث، چھوٹی سی بات سے پریشان یا ناراض ہو جانا، زیادہ غلطیاں کرنے لگنا، جسم میں شدید تکلیف، پیٹھ، کمر اور گردن میں درد۔
  • پانچواں مرحلہ: جب آپ کے ساتھ کام کرنے والے بھی آپ کے رویے کی شکایت کرنے لگیں، تھکن کا بڑھنا، گھبراہٹ اور ڈیپریشن کا احساس اور زیادہ سنجیدہ طبی مسائل۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر آپ کے پاس چھٹی لینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا۔

علاج کے بعد ایمبر ٹھیک ہو گئیں اور واپس دفتر جانے لگیں۔

اس کے بعد انھوں نے ذہنی صحت کے بارے میں دفتر میں لوگوں میں آگاہی پیدہ کرنا شروع کی۔ دفتر کے دیگر افراد اپنے اپنے مسائل انھیں بتانے لگے۔

ایک ایسا شخص تھا جو بچوں کے بارے میں دفتر میں اس لیے بات نہیں کرتا کہ اس سے ذہن بھٹکتا ہے، ایک خاتون جن کا شوہر کے ساتھ رشتہ ختم ہونے کی نہج پر پہنچ چکا تھا کیوں کہ وہ اس کے ساتھ وقت نہیں گزار پا رہی تھیں اور چند ایسے افراد جو خود کو کسی مرض سے متاثر محسوس کر رہے تھے، لیکن یہ سوچ کر کسی سے اس بارے میں بات نہیں کرتے تھے کہ سننے والا انھیں کمزور شخص سمجھے گا۔

لیکن جب انھوں نے اس سلسلے میں سینیئر سطح پر کمپنی میں تبدیلی لانے کی بات کی تو انھیں ملا جلا رد عمل ملا۔ ایک موقف تھا کہ کمپنی کو کارکنان کی صحت کی فکر ہے، تو دوسرا موقف تھا کہ بہت سے لوگوں کو بہتر کام کے لیے زیادہ دباؤ میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

ایمبر اب اس کمپنی میں کام نہیں کرتی ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے گھر خریدا، شادی کی اور اب وہ دوڑنا پسند کرتی ہیں۔ انھوں نے اپنی ایک کمپنی کھول لی ہے۔ اس کمپنی کا مقصد دوسری کمپنیوں کے کارکنان کی صحت اور ٹارگیٹز حاصل کرنے کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں مدد کرنا ہے۔