’لاہوری‘ کے نام سے کالم لکھنے والے ظفر اقبال مرزا صحافت میں گمنام کیوں رہے؟
صحافی بننے کی کوشش کر رہے کسی بھی نوجوان کا زِم سے ٹاکرہ ہوتا، تو زِم اُسے ترغیب دیتے کہ بیٹا کسی اور پیشے میں چلے جاؤ، افسر بن جاؤ۔ لیکن اگر نوجوان کا اصرار ہوتا کہ اسے صحافی بننا ہے تو پھر زِم کہتے ’بیٹا، اپنا قلم سیدھا رکھنا۔‘
زِم پاکستان کے بہت بڑے صحافی تھے جنھیں اتنی شہرت نہیں ملی جتنی ملنی چاہیے تھی اور اس طرح کی گمنامی انھوں نے خود اختیار کی تھی۔ تاہم اپنے صحافتی کیرئیر کے ایک موقع پر زِم نے ’لاہوری‘ کے نام سے کالم لکھنا شروع کردیا اور پھر ان کا نام پورے پاکستان میں لاہوری کے نام سے گونجنے لگا۔
اپنے دوستوں کے لیے وہ زِم تھے جو کہ مخفف تھا ان کے نام کے انگریزی پہلے حروف کا، زیڈ آئی ایم، یعنی ظفر اقبال مرزا۔ لیکن وہ قارئین کے لیے ’لاہوری‘ تھے۔ اور وہ واقعی لاہور کے بیٹے تھے۔ لاہور کا اصل اندرونِ شہر ہے اور اس اندرونِ شہر کا دل موچی دروازہ ہے۔ زِم وہاں مغل نسل کے ایک متوسط آمدنی والے خاندان میں سنہ 1936 میں پیدا ہوئے تھے۔
ان کے والد ڈپٹی ڈائریکٹر انڈسٹریز تھے، نانا پولیس میں ڈی ایس پی اور ایک ماموں پولیس میں ڈی آئی جی تھے جنھیں ذوالفقار علی بھٹو نے نوکری سے برخواست کردیا تھا۔ متمول گھرانا تھا، علم کی قدردانی تھی، زِم کی تعلیم کا بھی اچھا آغاز ہوا۔ لاہور میں جب ہم ان دنوں کے اپنے صحافی دوست شعیب، عارف بھائی اور شوکت علی کے ہمراہ ان سے استفادہ کرتے تھے تو وہ ضمناً اپنی انگریزی کی بہت تعریف کرتے تھے۔
ایک بار کہنے لگے کہ میرے ایک استاد نے مجھے انگریزی میں ایک مضمون لکھنے کے لیے کہا۔ ’میں نے مضمون لکھا، اس میں ایک بھی غلطی نہیں تھی۔‘ استاد جو کہ سکھ تھے، کہنے لگے کہ تو افسر بن سکدا اے۔ لیکن میں تو ان کے خلاف تھا۔‘
پنجابی میری مادری زبان
اُس زمانے میں اور تین دہائیوں تک لاہور کا ایک بہترین سکول سینٹرل ماڈل سکول تھا۔ یہ ایک اردو میڈیم سکول تھا۔ زِم نے اسی سکول سے تعلیم حاصل کی۔ زِم کے دیرینہ دوست حسین نقی جو اب ان کے انتقال کے بعد بہت اداس ہو گئے ہیں، کہتے ہیں کہ زِم نے انھیں بتایا تھا کہ سکول کے زمانے میں ان کے ایک استاد نے گورمُکھی میں سوال لکھا کہ ’تہاڈّی مادری زبان کیہہ اے؟’ نقی صاحب کے بقول زِم نے کہا پنجابی ہے۔
بعد میں ان کے والد نے ان کی سرزنش کی اور انھیں کہا کہ تمہاری مادری زبان اردو ہے۔ والد کو غصہ تھا لیکن پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی کو والد کے غیض سے بچا لیا گیا۔ سنہ 1947 سے پہلے کا یہ وہ زمانہ تھا جب پنجاب کے پنجابی اپنی مادری زبان کا انتخاب اپنے مذاہب کے حوالے سے کر رہے تھے۔ پنجابی ہندو ہندی کو مادری زبان کہہ رہے تھے جبکہ مسلمان اردو کو۔
ویسے زِم کو پنجابی، اردو اور انگریزی پر مکمل عبور حاصل تھا اور اس زمانے کے لاہوری اشرافیہ کی روایت کے مطابق انھیں فارسی سے بھی شغف تھا۔ لاہوری کے نام سے لکھے گئے اپنے ایک کالم میں انھوں نے لکھا تھا کہ پنجابی شاعری میں واقعۂِ کربلا کا ذکر اس واقعہ کے چند برس بعد ہی ہونا شروع ہوگیا تھا۔
اپنے کالموں میں زِم نہ صرف تحقیق کا بہترین معیار رکھتے تھے بلکہ انگریزی زبان کی صحت کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ اپنے ایک کالم میں انھوں نے اُس وقت کی وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کو ’وِکڈ‘ (wicked) لکھ دیا۔ بہت شور مچا اور احتجاجی مراسلوں کا تبادلہ ہوا۔ لیکن زِم نے نہایت تحمل سے وضاحت دی کہ لفظ ’وِکڈ‘ کا مطلب صرف ’بدکار یا شریر‘ نہیں ہے، اسے کسی کی تعریف کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ شاید بے نظیر بھٹو زِم کے مزاح سے محظوظ ہوئی ہوں۔
نقی صحاب کے بقول زِم صحافت کی اعلیٰ اقدار کے امین تھے، ہر ظالمانہ نظام کے خلاف وہ صحافت کی اعلیٰ اقدار پر عمل کرتے تھے۔ ’وہ بہترین صحافت کا ایک نمونہ تھے۔ سچ کے ساتھ ان کی وابستگی انتہائی گہری تھی۔ ان کے لیے صحافت عوام کو آگاہ کرنے کا نام تھا۔ انھیں مطلع کرنے کا نام تھا۔ انھیں تعلیم دینے کا نام تھا۔ انھوں نے مشکل وقت میں بھی عوام کو خبر پہنچائی۔ حکمرانوں کے درمیان تفریق نہیں کی۔‘
مرزا لاڈلا بیٹا تھا
پاکستان کے بزرگ صحافی اور انسانی حقوق کے انتہائی معتبر علمبردار آئی اے رحمان نے زِم کے ساتھ ہی انگریزی روزنامہ دی پاکستان ٹائمز میں کام شروع کیا۔ زِم ریفرنس سیکشن میں تھے اور رحمان صاحب فلمی ریویو لکھا کرتے تھے۔ دونوں کی اس وقت شروع ہونے والی دوستی میں زِم کی موت بھی شگاف نہ ڈال سکی۔ ان دونوں نے پھر کئی اداروں سمیت ویوپوائنٹ میں مظہر علی خان کی قیادت میں بھی کام کیا۔
آئی اے رحمان کہتے ہیں کہ ’ظفر اقبال مرزا ایک لاڈلا بیٹا تھا۔ وہ باپ کے بے وقت انتقال کی وجہ سے بہت زیادہ تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کر لیا تھا۔ مگر کم تعلیم کے باوجود صحافتی دنیا میں بہت بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے، دی مسلم کے ایڈیٹر رہے، لاہور میں روزنامہ ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر رہے۔ کالم لکھے اور نہ جانے کتنے اداریے لکھے۔ کرکٹ کے بڑے شوقین تھے۔‘
رحمان صاحب زِم کی شخصیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’وہ کہتے تھے کہ میں نے درویشی کرنی ہے۔ اور انھوں نے حقیقت میں دنیا داری بالکل اختیار نہیں کی۔ جن سے محبت کرتے تھے بہت کرتے تھے۔ وہ منافقت سے پاک ایک شخصیت کے مالک تھے۔ وہ شان و شوکت والی زندگی سے متنفر تھے اور جاو جلال دکھانے والے لوگوں سے ملنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔‘
رحمان صاحب زِم کے ساتھ اپنی دوستی کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کا بہت اچھا تعلق رہا۔ ’ہمارے خیالات بھی مشترک تھے۔ ان میں زندگی اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔‘
آج کی نسل کے زِم سے عدم آگہی پر رحمان صاحب نے کہا کہ ’یہ محسن کُش معاشرہ ہو چکا ہے جو اپنے لوگوں کو نہ جانتا ہے اور نہ مانتا ہے۔‘
کسی طاقت ور کو گھاس بھی نہیں ڈالی
ہمارا زِم سے عملی طور پر زیادہ رابطہ اس زمانے زیادہ رہا جب وہ مال روڈ پر الفلاح بلڈنگ کے سامنے اس وقت روزنامہ ڈان کے لاہور بیورو میں بیٹھا کرتے تھے۔ اُس زمانے میں اس بلڈنگ کی دوسری منزل پر سیڑھیاں چڑھ کر دائیں جانب ایک برآمدہ تھا جو ڈان کے بیورو کی دروازے پر ختم ہوتا تھا۔ اسی برآمدے میں معروف وکیل نعیم بخاری کا دفتر بھی تھا جہاں زِم فارغ اوقات میں بیٹھتے تھے۔ بیورو میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب ایک ڈیسک تھا جہاں زِم بیٹھا کرتے تھے۔
ہر وقت بہت مصروف نظر آتے تھے۔ اور حقیقت بھی یہ تھی کہ ہر آرٹیکل جو لاہور سے ٹیلیکس کے ذریعے کراچی آفس بھیجا جاتا تھا اس کی ایڈیٹنگ زِم کرتے تھے اور زِم کی ایڈیٹنگ حرفِ آخر تھی۔
ان سے فیض پانے والے اور ان سے آخرِ وقت تک دوستی نبھانے والے سینیئر صحافی، سید ممتاز احمد کہتے ہیں کہ انھوں نے انگریزی صحافت میں نئے آنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔
’ہم میں سے کئی ایک ایسے رپورٹر تھے جو اچھی انگریزی نہیں لکھ سکتے تھے۔ لیکن زِم ان کی فائل کی گئی خبروں کو اس طرح سے از سرِنو لکھا کرتے تھے کہ خبر فائل کرنے والا رپورٹر دنگ رہ جاتا تھا۔ وہ ہمیں ہر وقت کچھ نہ کچھ سکھانے کی کوشش کرتے تھے۔‘
اپنے صحافتی ہنر کے بارے میں ایک واقعہ انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ رات گئے ایک خبر آئی اور اس پر اسی وقت اداریہ لکھنے کا فیصلہ کیا گیا پر اخبار اشاعت کے لیے پریس میں جانے والا تھا۔
آج کل کی طرح کمپیوٹر پر کمپوز کرنے کی سہولت نہیں تھی۔ زِم اُسی وقت کمپوزنگ روم میں گئے جہاں چھپائی کے لیے اخبارکی پلیٹیں سکے کی دھات والے حروف سے تیار کی جاتی تھیں۔ زِم نے وہیں کھڑے کھڑے اداریہ لکھوانا شروع کیا اور کمپوزر نے سکے والے حروف کے ذریعے پلیٹ بنانا شروع کی۔
زِم اخبار کی روح تھے
ظفر اقبال مرزا جس اخبار میں بھی رہے وہ اس کی روح تھے لیکن ان کی بائی لائن یا اخبار کی ادارت میں ان کا نام کم ہی دیکھا گیا۔ جب انھوں نے کالم بھی شروع کیا تھا تو اسے بھی ایک قلمی نام ’لاہوری‘ سے لکھنا شروع کیا۔ اپنے صحافتی کیرئیر کے کافی عرصے کے بعد ان کا نام دی مسلم کے ایڈیٹر کے طور پر شائع ہوا۔ بعد میں جب وہ ڈان میں واپس آئے تو یہاں ان کا نام ریزیڈنٹ ایڈیٹر کے طور پر شائع ہوتا تھا۔
حسین نقی صاحب اس کی ایک وجہ ان کی درویشانہ زندگی بتاتے ہیں لیکن وہ ایک اور وجہ بھی بتاتے ہیں جسے ’سٹریٹجک اینونیمیٹی‘ یعنی ’تزویراتی گمنامی‘ کہا جاسکتا ہے۔ نقی صاحب کہتے ہیں کہ ’زِم کی تحریر میں بہت کاٹ تھی۔ حکمرانوں کو ان کی یہ کاٹ کبھی پسند نہیں آسکتی تھی۔ اس لیے زِم گمنامی میں رہ کر سخت تنقید کرتے تھے اور ہم سب انھیں اس گمنامی کی وجہ سے محفوظ رکھتے تھے۔‘
نقی صاحب بتاتے ہیں کہ پاکستان کی چند ناقابلِ فراموش سرخیاں زِم نے بنائیں۔ ان میں ایک بنگالی قوم پرست لیڈر شیخ مجیب الرحمان کے مغربی پاکستان پر مشرقی پاکستان کے وسائل لوٹنے کے الزامات کے جواب میں بھی ایک سرخی تھی جو کچھ یوں تھی:
Bangla Bondhu, Mein Nay Makhan Naheen Khaya
بنگلہ بوندھو، میں نے مکھن نہیں کھایا
نقی صاحب بتاتے ہیں کہ جب یحییٰ خان پاکستان کے صدر تھے تو اس وقت ان کے وزیر اطلاعات نوابزادہ شیر علی خان پٹودی نے پروگریسو پیپرز جہاں بائیں بازو کے کئی ایک دانشوران کام کرتے تھے، انھیں تنگ کیے رکھا تھا۔ اس پر زِم نے سرخی لگائی: “Sher Ali Behave” (شیر علی، باز آ جاؤ)
گمنامی کی وجہ
حسین نقی کہتے ہیں کہ زِم کا صحافت میں آغاز 1962 سے شروع ہوا۔ پاکستان میں اپنے وقت کے بہت ہی معزز صحافی اے ٹی چوہدری مرحوم کے کہنے پر انھوں نے لکھنا شروع کیا لیکن اپنا نام شائع نہیں کرتے تھے۔ ’زِم اپنے والد کے انتقال کے بعد اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے اور اُن کے گرفتار ہونے سے ان کے لیے کافی مشکلات پیدا ہوسکتی تھیں، اس لیے انھوں نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ وہ دوسروں کے ذریعے اپنا غصہ نکالیں گے۔‘
’زِم زبان، پروڈکشن اور صحافتی اقدار کے ماہر تھے۔ ہماری ٹیم میں نجم حسین سید، جسٹس ایس اے سلام، ایریک سپرین اور خدیجہ گوہر کی طرح کئی بڑے بڑے نام تھے۔ سب زِم کو اپنی تحریروں کو بہتر بنانے کا اختیار دیتے تھے۔ نجم حسین سید کی پنجابی زبان پر کئی ناقدانہ تحریریں جو پنجاب ٹائمز اور پنجاب پنچ میں شائع ہوئی وہ زِم کی ایڈٹ کردہ تھیں، لیکن زِم کا نام ان کی حفاظت کی وجہ سے کہیں شائع نہیں کیا جاتا تھا۔‘
زِم کے اپنے کالم اُن کی زندگی ہی میں ’Last Man IN‘ نامی کتاب میں شائع ہوئے۔ نقی صاحب کہتے ہیں کہ زِم نے نہ صرف فوجی آمروں سے ٹکر لی بلکہ سویلین آمروں کے سامنے بھی آواز بلند کی۔ مشرقی پاکستان میں جو ظلم ہوا اس پر اُبل رہے تھے۔ بھٹو پر تنقید کی تو پھر ان کی معزولی کے بعد ان کی حمایت بھی کی۔‘