المیہ تو یہ ہے کہ روشن فکری یا لبرل ازم کو حقائق سے ماوراء اس بیانئیے سے جوڑا جا رھاہے ۔
جو کبھی اس مکتبہ فکر (لبرلز) کا نقطئہ نظر ہی نہیں رہا کیونکہ ان کی جدوجہد تو جمہوری استحکام انسانی حقوق کا تحفظ ،جبر کا خاتمہ اور آئین و قانون کی سربلندی ہی سے عبارت رہی ۔
جب ہم لبرل ازم کے اماموں کی کھوج میں نکلتے ہیں تو فیض سے عاصمہ جھانگیر ، جالب سے جام ساقی اور ضمیر نیازی سے پروفیسر اعجاز سپرین تک ایک سر بلند اور قبل فخر سلسلہ ہے یہ لوگ اپنے نظریات کے لئے ساری عمر طاقت اور جبر سے ٹھکراتے اور قید وبند کی صعوبتیں اور اذیتیں اُٹھاتے رہے لیکن ایک شھادت بھی ایسی دستیاب نہیں کہ یہ عظیم لوگ مذھب بیزاری یا تھذیبی نفرت انگیزی کے داعی یا پرچارک بنے بلکہ اس حوالے سے تو ان کا روّیہ حد درجہ قابل ستائش ہی رھا ۔
فیض احمد فیض اپنے گاوں کی مسجد میں نماز کی امامت کرتے پائے جاتے جبکہ جالب مولانا مودودی کے ساتھ گپیں ھانکتے دکھائی دیتے لیکن اس عھد ستم کیش میں اس عظیم اور قابل فخر سلسلے کو کون لوگ لے اُڑے ?
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جینوئن لبرلز ان لوگوں سے برءات کا اعلان کیوں نہیں کرتے کیونکہ آئین کی پامالی نظام انصاف کو مکمل طور پر مفلوج کر کے بھی رکھ دے تو ان لوگوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ،جمہوری جدوجہد کے لئے برسر پیکار سیاسی زعماء اور کارکن صرف اختلاف رائے کی بنیاد پر جیلوں میں ٹھونس دئیے جائیں تو بھی ایک مجرمانہ خاموشی ہی ان “لوگوں” کاکل بیانیہ ہوتا ہے لیکن جوں ہی مذھب بیزاری تھذیب سے ٹکراؤ اور قابل احترام روایتوں سے انحراف کا کوئی موقع ھاتھ آئے تو آسمان سر پر اُٹھاتے دکھائی دیں گے حالانکہ نہ تو وہ نقطئہ نظر مبنی بر حقائق ہوتا ہے نہ ھی ہزاروں سال سے مخصوص تھذیبی خدوخال کے حامل معاشرے کے لئے قابل قبول ۔
گویا ایک مخصوص طبقے نے لبرل ازم اور روشن فکری کی یہ نئی اصطلاح ایجاد کی ہے کہ “متنازعہ “ واقعات کے ذریعے ایک مخصوص نقطئہ نظر کو آگے بڑھایا جائے جس کا نقصان بذات خود سب سے جینوئن لبرلز اور لبرل نظریات ہی اُٹھاتے ہیں ۔
سچ بات تو یہ ہے کہ نعض اوقات معروضی حقائق اور ضرورتوں کے پیش نظر بعض روایات کو ترک کرنا پڑتا ہے مثلًا آج کل ہماری دیہاتی زندگی میں بھی خواتین اپنے شوہر ، بھائی یا بیٹے کے ساتھ موٹر سائکل پر سفر کرتی ہیں کیونکہ آبادی کے پھیلاؤ ،تنگ گلی کوچوں ، سماجی رشتوں اور آمدورفت کی ضرورتوں کے سبب ہم نے پردے کی پرانی روایتوں کی بجائے ترقی اور سہولت کو قبول کیا ۔
گویا روایات تب ترک کئے جاتے ہیں جب اس کے بدلے آپ کو تحفظ اور سہولت ملے
لیکن !
یہاں سوال یہ ہے کہ ۔۔۔۔
میرا جسم میری مرضی ٹائپ “ ترقی “ سے معاشرے کو کونسی سہولت مل جائے گی ؟
البتہ اس سے وہ تھذیبی ڈھانچہ مکمل طور پر منھدم ہو جائیگا جو ایک وقار اور استحکام کے ساتھ اس معاشرے کے خاندانی اور سماجی نظام کو تھامے ہوئے ہیں اور جس سے ہر فرد (مرد و خواتین ) کا انفرادی اور اجتماعی مفاد وابستہ ہے ،تبھی تو ایک مخصوص طبقے کے علاوہ عوامی سطح پر اس نقطئہ نظر کو ہمیشہ آڑے ھاتوں لیا گیا ۔
میں خلیل الرحمٰن قمر اور ماروی سرمد کے سجائے گئے میدان کارزار میں اُترنے کی بجائے دلیل اور منطق کا راستہ اپناؤں تو یہ حقائق کسی پہاڑ کی مانند سامنے نظر آتے ہیں کہ ایک تھذیب اپنے ارد گرد کی تمام ضرورتوں مسائل، خطرات اور اجتماعی نفسیات کے ساتھ ساتھ موجود سہولتوں ،احساس تحفظ اور تمام امکانات کو مد نظر رکھ کر تخلیقی عمل سے گزرتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ غیر ضروری روایتوں کو پیچھے دھکیل کر نئی سہولتوں اور اقدار کو بجی سپیس فراہم کرتا ھے
جس سے ترقی کا سفر رواں دواں رہتا ہے.
تاہم ان عوامل کو نہ تو تہذیب قبول کرنے پر آمادہ ہوتا ہے اور نہ ہی معاشرہ جو وھاں کے اجتماعی نفسیات سے بھی متصادم ہو اور اس کے اندر کسی سہولت اور آسائش کا امکان بھی نہ ہو ۔
اس لئے ہمیں ماننا پڑے گا کہ سوشل میڈیا اور ٹی وی سکرینوں سے باہر بھی ایک دُنیا ہے اور فیصلے یہی دُنیا کرتی ہے ،اپنے بنیادی نفسیات گرد وپیش کے حقائق اور تہذیبی ڈھانچے کو مدنظر رکھ کر.
کسی کی چیخ چنگھاڑ اور گالم گلوچ کو خاطر میں لائے بغیر ۔