دنیا میں سات ہزار سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی ایک چیز کو دیکھنے کے سات ہزار الگ الگ انداز ہیں؟
آسٹریلیا کے قدیمی باشندوں کی کچھ زبانوں میں ’دائیں‘، ’بائیں‘، ’آگے‘، اور ’پیچھے‘ کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔
اس کے بجائے یہ لوگ شمال، جنوب، مشرق اور مغرب جیسے الفاظ سے کام چلاتے ہیں۔ مثلاً کھانے کے دوران وہ کہیں گے کہ ’ذرا نمک مشرق کی طرف بڑھا دیجیے۔‘
معاملہ کچھ پیچیدہ لگتا ہے مگر نتیجتاً ان لوگوں میں سمت کا تعین کرنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔
تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک زبان بولنے والے کے لیے ’حقیقت‘ مختلف زبان بولنے والے سے الگ ہو سکتی ہے؟
رنگوں کے نام رکھنا
برطانیہ کی لینکاسٹر یونیورسٹی میں لسانیات کے ماہر پروفیسر پینوس اتھاناسوپاؤلس کہتے ہیں ’زبانیں ہمیں اپنے گرد بکھری ہوئی دنیا کو قابلِ شناخت بنا کر اس کا ایک ڈھانچہ میں مدد دیتی ہیں۔‘
’یہ ہمیں ایک طرح کے لیبل یا شناخت فراہم کرتی ہیں۔‘
یونیورسٹی کالج لندن میں کاگنیٹیو نیورو سائنس کی پروفیسر سوفی سکاٹ کا کہتے ہیں: ’مختلف زبانیں جس طرح دنیا کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بناتی ہیں وہ ایک دوسرے سے الگ ہو سکتا اور دنیا کے بارے میں ہمارے زاویۂ نظر پر یہ بات اثر انداز ہوتی ہے۔‘
لفظ ’پُل‘ کی مثال لیجیے، یہ کسی زبان میں مذکر ہوگا تو کسی میں مونث۔
پروفیسر سکاٹ کا کہنا ہے کہ جب مختلف زبانیں بولنے والے پل کے بارے میں بات کریں گے تو وہ اس کی مختلف خصوصیات کو اجاگر کریں گے۔
زبانیں کس طرح ہماری سوچ پر اثرانداز ہوتی ہیں، اس کی وضاحت کے لیے پروفیسر اتھاناسوپاؤلس نے ایک تجربے کی مثال دی جس میں نیلے اور سبز رنگ کے بیچ ایک رنگ کو نام دینے کی مشق کی گئی۔
وہ کہتے ہیں: ’کئی زبانوں میں نیلے اور سبز رنگ کے لیے ایک ہی نام ہے۔ اس کی ایک مثال نمیبیا کے میدانوں میں بولی جانے والی ہِمبا زبان ہے جس میں دنوں رنگوں کو ’گرو‘ کہا جاتا ہے۔
’ایک تجربے کے دوران ہم نے شرکا کو ایک رنگین ٹائل دکھائی اور 30 سیکنڈ کے بعد ہم نے انھیں بہت سے رنگ دکھائے۔ ہم نے ان سے اس رنگ کو چننے کا کہا جو انھوں نے ابھی ابھی دیکھا تھا۔ اگر آپ کی مادری زبان انگریزی ہے تو یہ ایک مشکل کام ہے، لیکن ہِمبا بولنے والوں کے لیے یہ بچوں کا کھیل ہے کیونکہ رنگ ان کی لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔‘
دنیا کو سمجھنے کی کوشش
یہ خیال کہ ہمارے حقیقت کا ادراک کرنے کے عمل پر زبان اثر انداز ہوتی ہے اپنی مقبولیت کے اعتبار سے مختلف ادوار میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھ چکا ہے۔
اس خیال کے سب سے بااثر محرک امریکی ماہر لسانیات بینجمن لی وُرف تھے۔ انھوں نے سنہ 1940 میں امریکہ میں بولی جانے والی ایک مقامی زبان ’ہوپی‘ پر ایک تحقیق شائع کی۔
وُرف کا کہنا تھا کہ ہوپی اور انگریزی بولنے والے وقت کے بارے میں مختلف تصور رکھتے ہیں۔
اسے اصول لسنانی اضافیت کا نام دیا گیا۔
تاہم وُرف کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ انھوں نے یہ فرض کر لیا تھا کے مقامی زبان بولنے والے کسی دوسری زبان میں پائے جانے والے تصورات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
ان کے بعض ناقدین نے سوال اٹھایا کہ اگر یہ سچ ہے تو پھر کوئی بھی کوئی نئی چیز کیسے سیکھ سکے گا؟
مختلف نظریات
برطانیہ کی لینکاسٹر یونیورسٹی میں ماہرِ لسانیات پروفیسر کرسٹوفر ہارٹ کا کہنا ہے کہ مختلف زبانیں کسی خیال کو بیان کرنے کے طریقے کی صوت گری کرتی ہیں، اسے ایک سانچے میں ڈھالتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’کسی زبان کا ڈھانچہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم کسی حقیقت کے ان مخصوص پہلوؤں پر توجہ دیں جو بولی جانے والی زبان سے متعلق ہوں۔‘
یہ نظریہ تفکر برائے گویائی کہلاتا ہے یعنی مختلف زبانوں کے بولنے والے بولنے سے پہلے سوچتے بھی الگ طرح سے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں کاگنیٹیو سائنس کی پروفیسر لیرا بوروڈِٹسکی اس کی مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں ’بش نے چومسکی کی نئی کتاب پڑھی‘۔
انگریزی میں اس کے لیے صیغۂ ماضی برتا گیا ہے مگر انڈونیشیائی زبان میں فعل کو زمانوں میں نہیں بدلا جاتا۔
روسی زبانی میں فعل اور صنف کو بھی بدلنا پڑے گا یعنی یہ بات جارج بش کی ہو رہی ہے یا لورا بش کی، اور یہ بھی کہ کتاب پوری پڑھ لی گئی یا اس کا کچھ حصہ پڑھا گیا۔
ترکی زبان میں یہ بھی بتانا ہو گا کہ آپ کو یہ علم کیسے ہوا۔ کیا آپ نے انھیں اپنی آنکھوں سے پڑھتے ہوئے دیکھا یا کسی نے آپ کو اطلاع دی۔
یہ بھی ممکن ہے کہ سب لوگ ایک ہی طرح سے سوچتے ہوں مگر اس حقیقت کو بیان کرنے کے طریقے الگ الگ ہوں۔
بوروڈِٹسکی کہتی ہیں کہ بات مختلف الفاظ کے چناؤ سے بڑھ کر ہے: مختلف زبانیں کسی بات کو بیان کرنے کے لیے ہم سے تقاضا کرتی ہیں کہ ہم وہ تمام درست معلومات حاصل کریں جو ہمیں بات کو بیان کرنے میں مدد دیں گی۔
اپنے خیالات کو ترتیب دینا
کووک تھایور شمالی آسٹریلیا کے قدیمی باشندوں کی ایک زبان ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ اس میں دائیں یا بائیں کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ یا پھر ’آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘ جیسے سادہ سے سوال کے لیے کوئی جملہ نہیں ہے۔
بوروڈِٹسکی کے مطابق یہ بات غیرمقامی باشندوں کے لیے مشکل ہو سکتی ہے۔
بوروڈِٹسکی لکھتی ہیں کہ اگر آپ کو یہ علم نہ ہو کہ آپ کا منہ کس سمت ہے تو شاید آپ سلام بھی نہ کر سکیں۔
مگر مقامی لوگوں کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
بوروڈِٹسکی کی ٹیم نے ان لوگوں کو تصاویر دیں جس میں کیلے کو چھیلنے سے لے کر کھانے تک مختلف مراحل دکھائے گئے تھے، اور ان سے کہا کہ وہ ان تصویروں کو مرحلہ وار ترتیب دیں۔
انگریزی بولنے والے انھیں بائیں سے دائیں اور عبرانی بولنے والے انھیں دائیں سے بائیں یعنی دو گروپ جس طرح اپنی زبان لکھتے ہیں، ترتیب دیں گے۔
بوروڈِٹسکی کہتی ہیں کووک تھایور زبان بولنے والوں نے ان تصاویر کو شرقاً غرباً آراستہ کیا۔ اس تجربے میں انھوں نے تب بھی ایسا کیا جب انھیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کا منہ کس سمت کی جانب ہے۔
بوروڈِٹسکی کے بقول انھوں نے ایسا اس لیے کیا کہ ان کی زبان نے ان کی سوچ کی تربیت ہی ایسی کی ہے۔ اس لیے وہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں سمت کے تعین کے معاملے میں زیادہ ماہر ہیں۔
وقت کی صورت گری
تو اگلی بار جب آپ کسی ایسے شخص سے بات کر رہے ہوں جو کسی ایسی جگہ پیدا ہوا ہے جہاں مختلف زبان بولی جاتی ہے تو یاد رکھیے کہ چیزوں کو سمجھنے کا اس کا طریقہ آپ سے مختلف ہو گا چاہے وہ کوئی وقت کے گزرنے جیسی کوئی ہمہ گیر حقیقت ہی کیوں نہ ہو۔
انگریزی کے لحاظ سے وقت ایسی چیز ہے جو ہمارے آگے ہے اور ہم اسے پیچھے چھوڑے جاتے ہیں، مگر چینی زبان میں وقت آگے، پیچھے، اوپر اور نیچے ہوتا ہے۔
پروفیسر اتھاناسوپاؤلس کہتے ہیں کہ زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم مختلف پس منظر رکھنے والوں سے بات کرنا ہی چھوڑ دیں۔
ان کا کہنا ہے ’اسی وجہ سے تو ہمیں دوسری زبانیں سیکھنا چاہیے تاکہ ہم دنیا کو دوسروں کی نظر سے بھی دیکھ اور سمجھ سکیں۔
ان کے بقول یہ ہمارے اختلافات ہی تو ہیں جو ہمیں متحد کرتے ہیں۔
پروفیسر اتھاناسوپاؤلس کہتے ہیں: ’تنوع انسانی فطرت کے خمیر میں ہے۔ تنوع ہی غالباً سچی عالمگیر انسانیت ہے۔‘