شادی کی رسومات کے عینی شاہد!
ایک وقت تھا کہ میں قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے جانے والے میچ دیکھنے کے لئے ’’مسلح‘‘ ہو کر گھر سے نکلا کرتا تھا۔ بیٹھنے کے لئے گدی (براہ کرم گدی کو گدھی نہ پڑھیں) شور مچانے کے لئے بگل ساتھ ہوتا تھا۔ سامنے سے گزرنے والے شائقین اور سپاہیوں کو چھلکے مارنے کے لئے ایک لفافے میں مالٹے ہوتے تھے اور ان سب سرگرمیوں کے لئے وافر مقدار میں وقت میرے پاس ہوتا تھا مگر جب سے یہ میچ آن ایئر ہونا شروع ہوئے ہیں تب سے میں گھر بیٹھ کر ہی میچ دیکھنے کا ٹھرک پورا کر لیتا ہوں بلکہ اِکا دُکا بگل بجانے والوں، چھکے مارنے اور کھانے والوں کو بھی ٹی وی اسکرین پر دیکھ لیتا ہوں تاہم میری دلچسپیاں ان ’’لہو و لعب‘‘ کے کاموں تک محدود نہ تھیں بلکہ میں ماہِ رمضان میں الحمدللہ شبینے کی محفلوں میں بھی شرکت کیا کرتا تھا اور حج کا ارادہ بھی رکھتا تھا۔ اب ان مقدس محفلوں میں شرکت اور حج کا فریضہ میں ٹی وی پر براہِ راست ادا ہوتے دیکھتا ہوں اور اپنا ایمان تازہ کر لیتا ہوں۔
اور اب کچھ عرصے سے میرے اندر کچھ مزید تبدیلیاں بھی واضح ہوئی ہیں، جن میں ایک یہ ہے کہ میں نے شادی بیاہ کی محفلوں میں شریک ہونا بھی چھوڑ دیا ہے کیونکہ اب شادیوں میں عدم شرکت کی تلافی بھی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اگلے روز مہندی سے لے کر ولیمے تک کی ساکت اور متحرک تصویریں دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ میں شادی میں خود شریک تھا۔ یہ تصویریں دیکھ کر نہ صرف یہ کہ شادی میں عدم شرکت کا افسوس نہیں رہتا بلکہ بسا اوقات تو مسرت و انبساط کا یہ عالم ہوتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے جیسے کسی اور کی نہیں خود میری اپنی شادی ہو رہی ہے۔ ان تصویروں کے سامنے آنے سے ایک جو بُرا اثر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ شادی کی رسومات کا آغاز مخلوط اجتماعات سے ہوتا ہے مگر تھوڑی دیر کے بعد مردوں کی ٹولیاں علیحدہ ایک دائرے میں بیٹھ جاتی ہیں اور عورتیں الگ کسی کونے میں جا بیٹھتی ہیں اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو جاتا ہے تاہم پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا شکریہ کہ اب ہم ڈائریکٹ زنان خانے میں جا پہنچتے ہیں۔ غرض کہ وہ سب کچھ دیکھتے ہیں جو پہلے صرف قریبی عزیز اور رشتے دار ہی دیکھ سکتے تھے اور یوں یارانِ نکتہ داں کے لئے صلائے عام ہے۔ اس ضمن میں ایک سہولت یہ بھی ہوتی ہے کہ دلہن کی منہ دکھائی کے لئے کچھ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ یوں ہوتا ہے کہ چاند نکلتا ہے تو سارا عالم دیکھتا ہے اور فی سبیل اللّٰہ دیکھتا ہے۔
اور ہاں، ایک ضروری بات کا بیان تو میں بھول ہی چلا تھا اور وہ یہ کہ میڈیا کی بدولت نہ صرف یہ کہ ہم گھر بیٹھے بٹھائے شادی کی تمام رسومات میں شریک ہو جاتے ہیں بلکہ ہمیں یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ مینیو میں کیا کچھ تھا، کیونکہ پلیٹیں ہاتھ میں پکڑے خواتین و حضرات کی جو تصویریں شائع ہوتی ہیں ان میں پلائو کا انبار بھی نظر آتا ہے، اس پر مرغی کی ٹانگیں بھی دھری نظر آتی ہیں۔ بکرے کی بوٹیاں بھی نظر آ جاتی ہیں، کسی تصویر میں روغنی نان اور کسی میں سویٹ ڈش کی جھلک نظر آتی ہے اور یوں پورا مینیو آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے بلکہ نتھنوں میں اس کی خوشبو بھی محسوس ہوتی ہے جسے اشتہاء انگیز بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس سارے معاملے کا ایک منفی پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ خواتین کے بارے میں یہ جو مشہور ہے کہ وہ کھاتی کم اور بولتی زیادہ ہیں، ان میں سے کم از کم کھانے والے معاملے کی تردید ہو جاتی ہے اور پتا چلتا ہے کہ انہوں نے ڈائٹنگ وغیرہ کا محض ’’شوشا‘‘ کھڑا کیا ہوا ہے کیونکہ میں نے ان تصویروں میں اکثر خواتین کی پلیٹوں میں دو دو پائونڈ خوراک پڑی دیکھی ہے۔ خیر یہ تو ضمنی باتیں تھیں، جو یونہی درمیان میں آ گئیں۔ میں نے تو آخر میں میڈیا کے لئے دعائے خیر کرنی ہے اور ’’جزا کم اللّٰہ تعالیٰ احسن الجزاء‘‘ کہنا ہے کہ ان کی بدولت اب کسی کو’’ روزنِ دیوار‘‘ سے جھانکنے کی ضرورت نہیں رہی تاہم یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ اسے تھوڑا سا مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ان تصویروں کی اشاعت کے باوجود جس تھوڑی بہت تشنگی کا احساس رہتا ہے اس کا ازالہ بھی ہو سکے، یہاں اس امر پر اظہار اطمینان ضروری ہے کہ ہمارے میڈیا میں معروف جوڑوں کی شادی کے بعد ان کی شادی کے فالو اَپ بھی دیے جاتے ہیں یعنی یہ کہ دلہن اب امید سے ہے، اب اس کا تیسرا مہینہ ہے، اب چھٹا مہینہ ہے اب نواں مہینہ ہے اور اب ماشاء اللہ چاند سے بیٹے کی ولادت ہوئی ہے۔ عوام کو اس تمام صورتحال سے باخبر رکھنا اپنی جگہ اطمینان بخش امر ہے تاہم ابھی مزید انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے یعنی عوام کو عائلی امور سے باخبر رکھنے کی حد تک تو ہمارے میڈیا نے اپنا قومی فریضہ بطریق احسن انجام دیا ہے تاہم آج بھی شادی کے حوالے سے کچھ چیزیں چھپا کر رکھی جاتی ہیں جبکہ ضرورت ہے کہ عوام کو ہر معاملے میں عینی شاہد بنایا جائے۔