Site icon DUNYA PAKISTAN

یہ جسم کا نہیں پیٹ کا مسئلہ ہے

Share

ایک نقطہ محرم کو مجرم بنانے کے لیے کافی ہے لہٰذا ترجمہ ہمیشہ احتیاط سے کرنا چاہیے کیونکہ لفظ کے پیچھے پوری ثقافتی و سماجی تاریخ ہوتی ہے۔

جیسے سیاحوں کو ٹریول گائیڈز پر علاقے کی حساسیت اور کس اشارے کا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے، سمجھاتے ہیں اسی طرح ترجمہ کرتے وقت بھی یہی اصول پیشِ نظر رہنا چاہیے ورنہ بات کہیں سے کہیں نکل کے کیا سے کیوں ہو جاتی ہے۔

بنیادی طور پر تو یہ تولیدی صحت سے متعلق بین الاقوامی نعرہ تھا کہ ’مائی باڈی مائی کنٹرول‘۔ جس کا ترجمہ ایک عرصے تک ’میرا وجود میرا اختیار‘ کیا جاتا رہا۔ پھر کسی نے گذشتہ سے پیوستہ برس اپنے پلے کارڈ پر مائی باڈی مائی کنٹرول کا ازخود ترجمہ ’میرا جسم میری مرضی‘ لکھ دیا۔

بس پھر کیا تھا جو پہلے سے تاک میں تھے انھوں نے اس پلے کارڈ کو ایندھن بنا لیا اور ضد میں دوسرا فریق بھی اسی نعرے پر ڈٹ گیا۔ اس چکر میں عورت کے حقوق کی بنیادی بحث دیوار پھاند کے کہیں نکل لی۔

مگر یہ کہنا بھی زیادتی ہو گی کہ اگر ’میرا جسم میری مرضی‘ کا نعرہ نہ لکھا جاتا تو عورت مارچ کی مخالفت نہ ہوتی۔ پنجابی میں کہتے ہیں ’من حرامی حجتاں ڈھیر‘ یعنی من آمادہ بہ شرارت ہو تو بہانے بہت۔

بیسویں صدی کے وسط تک زیادہ تر مذہبی طبقہ عورتوں کی بس اتنی تعلیم کے حق میں تھا کہ وہ قران ترجمے کے ساتھ پڑھ سکیں۔ البتہ لکھائی سکھانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی مبادا وہ کسی غیر مرد کو خط نہ لکھ دیں۔ اور یہ اس سماج میں ہو رہا تھا جسے ڈیڑھ ہزار برس پہلے صاف صاف کہا گیا تھا کہ حصولِ علم عورت اور مرد پر لازم ہے۔ شکر ہے پچھلے چند عشروں میں زہن اور زمانہ بدلا اور آج حصولِ تعلیم کی دوڑ میں لڑکیاں لڑکوں سے آگے ہیں۔

مگر یہ یونہی نہیں ہو گیا۔

قیامِ پاکستان کے فوراً بعد جب بیگم رعنا لیاقت علی خان نے آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپوا) کے تحت لڑکیوں کے لیے جدید تعلیمی ادارے کھولنے کی مہم شروع کی تو دیواروں اور منبروں پر ’اپوا کی مغرب زدہ فیشن ایبل مذہبی اقدار سے نالاں آدھی آستین پہننے اور دوپٹہ گلے میں ڈالنے والی بے پردہ خواتین‘ کے خوب لتے لیے جاتے تھے۔ بالکل ایسے ہی جیسے انگریزی تعلیم کے مخالف سرسید کو چندہ دینے کے بجائے جوتے دکھاتے تھے۔

حالانکہ اپوا کی خواتین نے تو عورت مارچ کا نام تک نہ سنا تھا۔

جب ایوب خان کے دور میں خاندانی منصوبہ بندی کا محکمہ قائم ہوا تو کیا کیا فتوے نہ آئے کہ یہ خدائی نظام میں مداخلت کی سازش ہے اور اس کا مقصد گھر میں بیٹھی عورتوں کو بغاوت پر آمادہ کرنا اور معاشرے میں عریانی و بے غیرتی پھیلانا ہے۔

مگر آج آپ کو کسی خطبے میں یہ موضوع کہیں سنائی نہیں دے گا۔ سب ہی قائل ہیں کہ آبادی کا بے ہنگم پھیلاؤ قومی صحت و سلامتی کے لیے ٹھیک نہیں۔

اس کے باوجود بچے کتنے اچھے؟ یہ فیصلہ آج بھی بہت کم گھرانوں میں دونوں کی مرضی سے ہوتا ہے۔ اکثر یہ فیصلہ مرد ہی کرتا ہے اور دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ مرد جتنا غریب، ویلا اور ناخواندہ ہو گا بچے اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ دراصل اسی رجحان کو بدلنے کے لیے ’مائی باڈی مائی کنٹرول‘ کا نعرہ سامنے آیا تھا جسے اب مذاق بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اسی طرح تین طلاق کا مسئلہ بھی تھا۔ ایک عرصے تک ایک ہی سانس میں تین طلاقیں دینے کے عمل کو جائز سمجھا جاتا رہا اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو دین دشمن (اردو فلموں میں بھی طلاق اسی اصول کے تحت دی جاتی تھی)۔

لیکن ستمبر 2018 میں اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک ہی سانس میں تین طلاق دینے کے رواج کو قابلِ سزا جرم بنانے کی سفارش کی اور انڈین سپریم کورٹ نے بھی تین برس پہلے یک لخت تین طلاق دینے کے رواج کو بنیادی آئینی حقوق کے خلاف قرار دے دیا۔ مگر تب تک مسئلہ طلاق کی مختلف تشریحات اور ان پر اڑ جانے کے سبب بے شمار گھر اجڑ چکے تھے۔

اسی طرح گھریلو تشدد بھی ’تیرا جسم میری مرضی‘ کے اصول کے تحت سماجی طور پر صدیوں قابلِ قبول سمجھا جاتا رہا اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ مگر چار برس پہلے گھریلو تشدد بھی پاکستان میں قابلِ تعزیر قرار پایا اور گذشتہ برس پہلی بار اس قانون کے تحت سزا بھی سنا دی گئی۔

عورت حکمران ہو سکتی ہے کہ نہیں، یہ مسئلہ ریاست بھوپال کے علما نے کبھی نہیں اٹھایا حالانکہ وہاں یکے بعد دیگرے کئی خواتین حکمران رہیں اور انھوں نے عورتوں کی جدید تعلیم اور ترقی کے لیے ہر اول کا کام کیا۔ مگر پاکستان میں محترمہ فاطمہ جناح صدرِ مملکت بن سکتی ہیں یا نہیں اس بابت علما ساٹھ کی دہائی میں دو حصوں میں بٹ گئے۔

ایوبی علما نے عورت کی حکمرانی کو سیدھا سیدھا حرام قرار دے دیا۔ جبکہ مولانا مودودی سمیت حزبِ اختلافی اکابرین نے طوعا ً کرہاً اس جواز کے سہارے محترمہ کی حمایت کا فیصلہ کیا کہ اپوزیشن کا مقابلہ ایک ایسے فوجی آمر سے ہے جو پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتا ہے اور یہ معاملہ عورت کی حکمرانی سے زیادہ سنگین ہے۔ (ویسے جماعتِ اسلامی ہند اور جمیعت علمائے ہند کا پچھلے تہتر برس سے یہ مؤقف ہے کہ ہندوستان کی نسلی، مذہبی و قومی بقا سیکولر نظام میں ہی ممکن ہے)۔

لیکن اسی پاکستان میں جب انیس سو اٹھاسی میں مولانا فضل الرحمان نے عورت کی حکمرانی کو حرام اور ناقابلِ قبول کہا اور پھر یہی عورت کی حکمرانی کشمیر کمیٹی اور خارجہ امور کمیٹی کی سربراہی اور ’دیگر یقین دہانیوں‘ کے عوض حلال ہو گئی۔ شکر ہے تب سے کم از کم یہ موضوع نان ایشو کی فہرست میں آ گیا مگر اب حرام کی فہرست میں عورت مارچ کو ڈال دیا گیا۔

عورت مارچ تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں کئی برس سے ہوتا آ رہا ہے تو پھر پچھلے تین برس میں ایسے کیا سرخاب کے پر لگ گئے کہ اب ہر کوئی حق یا مخالفت میں آمنے سامنے ہے۔

بات یہ ہے کہ جب نعرے بنانے اور لکھنے والوں کی لسانی قابلیت و دسترس کمزور ہو، جب مذہبی و سیاسی دوکان چمکانے کے لیے اصل مسائل پر بات کرنے سے پر جلتے ہوں اور جب میڈیا کو حقیقی موضوعات پر بحث کی اجازت دینے کے بجائے ریٹنگ کے جنگل کی جانب ہنکال دیا جائے تو جو سب سے کمزور موضوع ہو گا اسی پر تو میڈیا دانت گاڑے گا۔ آخر پیٹ تو سب کو لگا ہوا ہے اور پیٹ کا بس ایک ہی نظریہ ہوتا ہے یعنی نظریہِ ضرورت۔۔۔

Exit mobile version