کیٹ (فرضی نام) کو اپنے کریئر کے آغاز پر نہیں پتا تھا کہ دفتر میں کیسے ماحول ہو گا۔ اب وہ ایک کامیاب ایگزیکٹیو کے طور پر کام کر رہی ہیں اور اب انھیں لگتا ہے کہ اس وقت آگے بڑھنے کے لیے وہ کسی بھی چیز کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھیں۔
مگر کم از کم انھیں کریئر کے آغاز پر دفتر میں جنسی حوالوں سے غیر مناسب طعنے ملنے کی امید بالکل نہیں تھی۔
جب کبھی وہ سرخ ہیل والا سینڈل پہن کر کام پر جاتی تھیں تو ان کے ایک باس ازراہ مذاق کہا کرتے تھے کہ انھوں (کیٹ) نے ’زیر جامہ نہیں پہن رکھا۔‘
وہ ایسے متعدد واقعات کی مثال دیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اگر کسی میٹنگ میں وہ کمپیوٹر کا پلگ لگانے کے لیے نیچے جھکتی تھیں تو ان کے ساتھ کام کرنے والے سینیئر مرد افراد ان کہتے تھے کہ ’اب جبکہ آپ نیچے ہیں۔‘
جب تک انھوں نے وہ نوکری نہیں چھوڑی وہ سمجھ چکی تھیں کہ لال ہیل والی سینڈل پہننے پر ہونے والے عام مذاق کا کیا مطلب تھا۔
کیٹ کو مذاق کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن وہ کہتی ہیں کہ بات کے مناسب ہونے اور نہ ہونے میں ایک دھندلی سی لائن ہوتی ہے۔ لائن کی دوسری طرف بات نکل جائے تو وہ مناسب نہیں رہ جاتی ہے۔ خاص طور پر شہروں کی سخت زندگی میں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مردوں کے ساتھ ہنسی مذاق کے دوران جب آپ موضوع مذاق بن جائیں تو یہ مذاق نہں جنسی ہراسانی کے زمرے میں آتا ہے۔
نوکری چھوڑتے وقت انھوں نے کمپنی کی ایچ آر ٹیم کو بتایا کہ دفتر میں ہونے والے نازیبا مذاق کی وجہ سے انھوں نے خود اپنی جان لینے کی بھی کوشش کی تھی۔
‘توہین آمیز باتیں’
کیٹ کا تجربہ غیر معمولی تھا۔ تاہم متعدد دیگر خواتین بھی کیٹ کی اس بات سے متفق ہیں کہ کام پر ہونے والے غیر مناسب مذاق کے دوران بعض اوقات حد پار ہو جاتی ہے۔ برطانیہ میں ہونے والے ایک سروے میں بیس ہزار افراد سے بات کی گئی جن میں سے صرف 16 فیصد خواتین نے کہا کہ انھیں کام کی جگہ ہونے والے نازیبا مذاق سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔
اس کے برعکس 28 فیصد برطانوی مرد حضرات کو لگتا ہے کہ کام پر فحش مذاق کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ برطانوی مرد دنیا کے کئی ممالک جیسا کہ ترکی، میکسیکو، کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکہ کے مردوں سے زیادہ نازیبا مذاق کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ میں سینیئر محقق ہلری مارگولس نے بتایا کہ ’اگر آپ کام پر نازیبا مذاق کرنے کے بجائے اسے کام ختم کر کے دوستوں کے ساتھ شراب خانے میں کرنے کے لیے بچا کر رکھیں تو اس سے ساتھ کام کرنے والی خواتین پر بہت فرق پڑتا ہے۔‘
ببیشتر خواتین کو لگتا ہے کہ اگر انھوں نے ایسے مذاق کو ہنسی میں نہیں اڑایا تو لوگ انھیں غیر ضروری طور پر سنجیدہ سمجھیں گے۔ مارگولس کے مطابق ’ایسا کرنے سے خواتین یا دوسرے ایسے افراد جو مذاق میں نشانے پر ہوں، مثال کے طور پر ایل جی بی ٹی افراد، اپنی بے عزتی محسوس کر سکتے ہیں۔‘
جنس سے متعلق مذاق مردوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر جب کام کی جگہ پر اکثریت خواتین کی ہو۔
اثرات کو کم سمجھا جاتا ہے
مارگولس نے بتایا کہ بسااوقات مذاق کا مطلب صرف مزاق ہی ہوتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی لوگوں کو لگتا ہے کہ خواتین کا مذاق اڑانے والے مذاق کر کے اپنی مردانگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ بات خواتین کو پریشان کر سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’کئی بار ایسے ماحول میں خواتین بالکل خاموش ہو جاتی ہیں، انھیں لگتا ہے کہ کسی کو نہیں پتا چلنا چاہیے کہ وہ اصل میں کیسی ہیں۔‘
مارگولس کا خیال ہے کہ ’کام کی جگہ پر ایسے مذاق پر کئی بار خواتین اس لیے بھی ہنستی ہیں تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ بہت جذباتی ہیں، حساس ہیں یا یہ کہ انھیں مذاق سمجھ ہی نہیں آیا۔‘
اپنے اصل سے دور بھاگنے اور لوگوں کی توقعات کے مطابق برتاؤ کرنے سے وہ کام میں بھی پچھے ہو سکتی ہیں۔ مارگولس کا خیال ہے کہ کئی بار ایسے ماحول کے سنجیدہ اثرات کو ہم کم سمجھا جاتا ہے۔
عدم برداشت
کیٹ کو یہ تجربہ برسوں پہلے پیش آیا تھا۔ فنانس کی دنیا میں کام کرنے والوں کے سوشل نیٹ ورک پلیٹ فارم ’سٹی ہائیو‘ کی بانی بیو شاہ نے بتایا کہ وہ ایسے کسی شخص کو نہیں جانتی ہیں جو آج کل کے ماحول میں نازیبا مذاق کرنے کی ہمت کر سکتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس طرح کے مذاق کے لیے اب عالمی مقامات پر کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح نسل پرستانہ مذاق کی بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب اس طرح کے مذاق کرنے والے کے بارے میں فوری طور پر کمپنیوں کو غور کرنا چاہیے۔ خاص طور پر ’می ٹو‘ مہم کے بعد۔ ایسے مذاق کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔
بات کرنا ضروری
کنگز کالج اور اپسوس موری کی جانب سے کیے گئے مشترکہ سروے میں 27 ممالک کے لوگوں سے اس بارے میں بات کی گئی۔
ایسے ممالک جہاں کام پر جنس سے متعلق مذاق کرنے کو سب سے زیادہ قبولیت حاصل ہے ان ممالک میں بیلجیئم اور چین سرفہرست ہیں جہاں 47 فیصد مرد اس طرح کے مذاق بے تکلفی سے کرتے ہیں۔
میکسیکو، کینیڈا اور امریکہ میں ایسے 13 فیصد مرد ہی ملے۔
جہاں تک اس بارے میں کھل کر بولنے کی بات ہے تو برطانوی خواتین اس میں پیچھے نہیں ہیں۔ 80 فیصد خواتین نے کہا کہ ’نازیبا مذاق کرنے والے دوستوں یا رشتہ داروں‘ سے وہ کہہ سکتی ہیں کہ وہ غلط کر رہے ہیں۔
برطانوی مردوں نے بھی کہا کہ ضرورت پڑنے پر وہ خواتین کے ساتھ ہیں۔ وہ جنسی ہراسانی کے خلاف لڑائی میں ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔