ہانگ کانگ کے تاریخی ہوٹل مینڈارن اورئنٹل کے عین دروازے پر ماسک پہنے لڑکے اور لڑکیاں فٹ پاتھ کی اینٹیں اٹھا کر سڑک پر پھیلا رہے تھے۔ ایک دم لڑکیوں کے ایک گروہ نے ایک خالی فون بوتھ پر کاغذ جمع کیے اور آگ لگا دی۔
اِس زمانے میں ہمیں فون بوتھوں کی ضرورت نہیں ہے لیکن صاف ظاہر تھا کہ ان نوجوانوں کو آگ لگانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ تھوڑی دیر میں آگ بجھ گئی اور خالی فون بھوتھ وہیں کا وہیں کھڑا تھا۔
ہوٹل کے اندر وہی بحث جاری تھی جو میں نے ہر روز سنی کہ آخر یہ نوجوان چاہتے کیا ہیں؟
ایک پاکستانی نژاد تاجر جنھیں مظاہرین سے ہمدردی لیکن مستقبل کے بارے میں خدشات بھی ہیں فرمانے لگے کہ یہ مظاہرین اس مقام پر نہ پہنچ جائیں جہاں یہ سوچنے لگیں کہ چین کے حوالے کرنے سے بہتر ہے کہ ہانگ کانگ کو آگ لگا دی جائے۔
آخر زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے؟ ہانگ کانگ چین کے لیے ایک اور شنگھائی، بیجنگ بن جائے۔۔۔ اس میں آخر حرج ہی کیا ہے۔
انھیں ان کا بیجنگ، ان کا شنگھائی مبارک ہو، ہم تو ہانگ کانگ کو ہانگ کانگ ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔
میرے خطاب کے لیے ہانگ کانگ کے مضافات میں ایک کتابوں کی دکان کے مالک کو راضی کیا گیا۔ یہ علاقہ کراچی کے کورنگی جیسا انڈسٹریل علاقہ تھا۔ لوگ آنسو گیس اور سڑکوں پر کھڑی رکاوٹوں سے بچ بچا کر پہنچے تھے۔
ماحول کچھ زیادہ ’ہم دیکھیں گے‘ ٹائپ ہونے لگا تو ایک میزبان نے سوال پوچھا کہ پاکستان اور چین اتنے پرانے دوست ہیں تو کیا آپ لوگ ایک دوسرے کے کلچر کے بارے میں بھی کچھ جانتے ہیں؟ میں نے سوچنے کی کوشش کی لیکن کچھ یاد نہ پڑا۔
نہ ہم چینی موسیقی سمجھتے ہیں نہ ہم نے کبھی چینی فلم دیکھی ہے (ہانگ کانگ کی کنگ فو فلمیں ایک زمانے میں ضرور چلتی تھیں) اور نہ ہی میرے خیال میں چین والوں کو پتا ہے کہ عاطف اسلم کیا گاتا ہے اور امان اللہ لوگوں کو کیسے ہنساتا ہے۔
میں نے کہا ہمارے ہاں بچپن میں چینی باتصویر رسالہ آیا کرتا تھا، مفت ملتا تھا۔ اس میں گلابی گالوں والے چینی بچوں کی تصویریں ہوتی تھی اور اس کا کاغذ اتنا چکنا ہوتا تھا کہ ہم اسے کتابوں کی جلدوں پر چڑھاتے تھے۔ ہمارا چین سے یہی ثقافتی رشتہ تھا۔
سامعین میں سے ایک بزرگ گورے نے ہاتھ کھڑا کر کے کہا میں چینی باتصویر کے انگریزی ایڈیشن کا ایڈیٹر ہوا کرتا تھا۔ ہم نے ہمارے بچپن کو رنگین بنانے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ چین اور پاکستان میں بس وہی ایک ثقافتی رشتہ تھا۔
ہانگ کانگ دنیا کے بڑے تجارتی مراکز میں سے ایک ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹر یہاں پر بنے ہیں اس وجہ سے یہاں پر برطانیہ اور یورپ سے آئے ہوئے گوروں کی بڑی تعداد آباد ہے اور آج کل اپنے اور ہانگ کانگ کے مستقبل کے بارے میں پریشان رہتی ہے۔
برطانیہ سے آئے گورے اس وقت کو نہیں بھولتے جب ہانگ کانگ ان کی کالونی تھا اور وہ یہاں گورے صاحبوں کی طرح رہتے تھے۔
ایک پرانی شناسا پروفیسر سے ملاقات ہوئی جو دنیا بھر کے ہاتھیوں پر تحقیق کرتی ہیں اور دنیا کے تمام سیاسی و سماجی مسائل ہاتھیوں کی نفسیات کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کرتی ہیں۔
گذشتہ سال جب انھوں نے ہانگ کانگ میں نوکری کی آفر قبول کر لی تو میں نے کہا کہ آپ وہاں کیا کریں گی ہانگ کانگ میں تو ہاتھی ہوتے ہی نہیں۔
انھوں نے کہا کہ وہاں سے تنخواہ اور ریسرچ گرانٹ اتنی زیادہ ملے گی کہ پوری دنیا میں گھوم کر ہاتھیوں کے ساتھ وقت گزاروں گی۔
میری پروفیسر دوست کے باپ دادا بھی ہانگ کانگ میں کافی وقت گزار چکے تھے انھوں نے کہا تمہیں فلتھ کا مطلب پتا ہے۔ پھر خود ہی بتایا کہ اس کا مطلب ہے فیلڈ ان لندن ٹرائی ان ہانگ کانگ یعنی اگر آپ لندن میں ناکام ہیں تو ہانگ کانگ چلے جائیں وارے نیارے ہو جائیں گے۔
پھر انھوں نے چین اور ہانگ کانگ کے رشتے کو بڑے عمر کے اور چھوٹے عمر کے ہاتھیوں کے جنسی تناؤ کی نفسیات کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی۔ میں نے یہ کہہ کر اجازت لی کہ ہمارے ہاں اس قسم کی سیاسی تجزیہ نگاری کی اجازت نہیں ہے۔
ہانگ کانگ کی دوسری یونیورسٹیوں پر پولیس دھاوا بول چکی تھی لیکن جس یونیورسٹی میں میرا قیام تھا وہاں پر ابھی بھی ناکہ بندی چل رہی تھی۔
میں آخری رات ہاسٹل میں پہنچا تو چار پانچ نوجوان عین میرے ہوسٹل کے سامنے رنگ برنگی چھتریوں اور بڑے بڑے کیلوں کے ساتھ ناکہ بندی لگا رہے تھے اور رات بھر اس پر پہرہ دینے کی تیاریاں کر رہے تھے۔
مجھے مقامی صحافیوں نے بتایا تھا کہ مظاہرین کی تصویریں مت لینا کیونکہ تصویر کہیں پر نظر آ جائے تو پولیس ان کے گھر تک پہنچ جاتی ہے۔ ہانگ کانگ میں ہر چیز کی طرح تصویر سے چہرہ شناخت کرنے اور بندے کا ایڈریس معلوم کرنے کی ٹیکنالوجی بہت جدید ہے۔
طالب علم پولیس کو روکنے کے لیے اپنا ناکہ بنانے میں محو تھے۔ انھوں نے میرے فضول سوالوں میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ جب میں نے پوچھا کہ ان کے خیال میں اس تحریک کا انجام کیا ہوگا تو ایک لڑکا بولا ہمارے پروفیسروں سے جا کر پوچھو ہم تو سیکنڈ ایئر کے سٹوڈنٹ ہیں۔
میں نے اظہار یکجہتی کے طور پر پوچھا کہ میرے کمرے میں چائے کافی کا انتظام موجود ہے اگر ضرورت ہو تو پیش کروں۔ انھوں نے اپنے بیگ پیک اور تھرماس دکھائے اور کہا رات بھر کا سامان ساتھ لے کر آئے ہیں۔
پھر ایک نے میرے ہاتھ میں مارلبرو کی ڈبی دیکھ کر کہا اگر سگریٹ پلا دو تو مہربانی ہوگی میں نے سگریٹ دیا اور پوچھا لائٹر چاہیے؟
اس نے ایک چھوٹے سے میز کی طرف اشارہ کیا جس پر لائٹروں کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا اور بولا کہا تھا نہ ہماری تیاری پوری ہے۔