سعودی عرب کی جانب سے قیمتوں میں کمی اور اپریل میں خام تیل کی پیداوار میں اضافے کے منصوبے کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 30 فیصد تک کم ہوگئیں جس سے امریکی تیل کو ریکارڈ نقصان ہوگا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر تشویش کا شکار مارکیٹ میں استحکام کے لیے آرگنائزیشن برائے پیٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز (اوپیک) کی پیداوار میں کمی کی پیشکش کو روس کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد سعودی عرب نے قیمت پر جنگ کا آغاز کیا۔
سعودی عرب نے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اپریل میں ہر مقام کے لیے تمام گریڈ کے خام تیل کی فروخت کی لاگت کو کم کرکے 6 ڈالر سے 8 ڈالر فی بیرل کردیا۔
رائٹرز کو 2 ذرائع نے بتایا کہ سعودی عرب نے پیداوار کو روکنے کے معاہدے کے مارچ کے آخر میں اختتام کے بعد اپریل میں اپنی خام تیل کی پیداوار کو بھی 1 کروڑ بیرل فی یوم کرنے کا منصوبہ بنایا۔
دنیا کے سب سے بڑے تیل کے برآمد کار ملک سعودی عرب نے دوسرے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک روس کو اوپیک کی جانب سے گزشتہ ہفتے پیداوار میں کمی کرنے کی پیشکش کی حمایت نہ کرنے پر سزا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
سعودی عرب، روس اور دیگر بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک نے اس سے قبل 2014 اور 2016 میں مارکیٹ میں اپنے حصے کے لیے جنگ کی تھی۔
آئی این جی اکانومکس نے ایک نوٹ میں کہا کہ ‘یہ واضح طور پر قیمتوں کی جنگ ہے اور سعودی ہفتے کے اختتام پر رد عمل دینے پر سب سے پہلے تھے’۔
برینٹ کروڈ فیوچرز 29 فیصد (13.29 ڈالر) کم ہوکر 31.98 ڈالر فی بیرل ہوگئی جو آج ہی کے دن اس سے قبل 31.02 ڈالر تک بھی گئی تھی اور یہ قیمت 12 فروری 2016 کے بعد سے سب سے کم ترین ہے۔
17 جنوری 1991 کو ہونے والی خلیجی جنگ میں ہونے والی عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کی ہی راہ پر آج برینٹ فیوچرز پر تیل کی قیمتیں گامزن ہیں۔
امریکی ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (ڈبلیو ٹی آئی) کروڈ میں 13.29 ڈالر (32 فیصد) کمی ہوئی جو 27.99 ڈالر فی بیرل پر آگیا جبکہ اس نے آج ہی 27.34 ڈالر کی سطح کو بھی چھوا تھا اور یہ بھی 22 فروری 2016 کے بعد کم ترین سطح ہے۔
امریکی بینچ مارک بھی جنوری 1991 کے بعد سے کم ترین سطح کے راستے پر گامزن ہے۔
آسٹریلیا کی پروبس سیکیورٹیز میں چیف انویسٹمنٹ آفیسر جوناتھن براٹ کا کہنا تھا کہ ‘مجھے لگتا ہے کہ تمام پیش گوئی سامنے آگئی ہے، یہ ایک آرڈر حاصل کرنے کے لیے نچلی سطح پر جانے کی ریس لگتی ہے’۔
وائرس سے طلب متاثر
دریں اثنا چین کی کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات سے دنیا کی دوسری بڑی معیشت پر اثر پڑا ہے اور تیل کے سب سے بڑے درآمد کار کے لیے شپمنٹ میں کمی آئی ہے۔
وائرس کے پھیلاؤ سے دیگر بڑی معیشتیں جیسے اٹلی اور جنوبی کوریا اور امریکا میں کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد سے تشویش میں اضافہ ہوا ہے کہ تیل کی مانگ میں رواں سال کمی آئے گی۔
بڑے بینک جیسے مورگن اسٹینلے اور گولڈ مین سیک نے اپنی طلب میں نمو کی پیش گوئی کو کم کردیا ہے جہاں موگن اسٹینلے نے چین میں طلب میں اضافے کو صفر اور گولڈ مین نے عالمی طلب میں 1 لاکھ 50 ہزار بی پی ڈی تک کمی بتائی ہے۔
دیگر مارکیٹوں میں ڈالر کی لاگت جاپانی ین کے مقابلے میں کم ہوئی ہے اور ایشیائی اسٹاک مارکیٹوں میں سب سے بڑی کمی سامنے آرہی ہے جبکہ سونے کی قیمت میں 2013 کے بعد سب سے بلند ترین سطح پر پہنچ گئی کیونکہ سرمایہ کار اس وقت محفوظ راستے کی جانب چلے گئے ہیں۔