یہ کالم شروع کرتے ہی خبر آئی ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بہت تیزی سے گرکر اس سطح تک پہنچ گئی ہے جو آج سے تیس سال قبل 1991کے آغاز میں نظر آئی تھی۔ وجہ اس بے تحاشہ کمی کی وہ جنگ تھی جسے صدام حسین نے کویت پر قبضے کے ذریعے اپنے خطے پر مسلط کرنے کی کوشش کی تھی۔اس جنگ کو روکنے کے بہانے امریکی افواج متحرک ہوئیں۔کویت کو صدام حسین سے ’’آزاد‘‘ کروالینے کے باوجود مگر آج تک وہاں سے وطن واپس نہیں لوٹیں۔قطر مشرق وسطیٰ میں امریکی موجودگی کا اہم ترین مرکز بن چکا ہے۔’’نیل کے ساحل سے تابخاکِ کاشغر‘‘ وہاں موجود فوجی اڈے ہی سے نگاہ رکھی جارہی ہے۔تیل کی قیمت میں پیدا ہوئے اس برس کے بحران نے عرب ریاستوں میں انتشار کو ہوا دی تھی۔وہاں کے حکمرانوں کے پاس اپنے لوگوں کو بنیادی ضرورتوں کے ضمن میں پرتعیش رعایتیں فراہم کرنے کی سکت باقی نہ رہی۔ ان رعایتوں کی وجہ سے عوام سیاسی امور کے بارے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔تیل کی قیمت گری تو عرب حکمرانوں کی ’’اسلام پسندی‘‘ پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے۔’’ قومی غیرت وحمیت‘‘ بھی بے تحاشہ نوجوانوں کو یاد آنا شروع ہوگئی۔ عوام میں بڑھتی ہوئی تشویش نے بالآخر ’’القاعدہ‘‘ جیسی تنظیموں کو جنم دیا۔ کمیونزم کی ’’غلامی‘‘ سے حال ہی میں ’’آزاد‘‘ ہوا افغانستان اس تنظیم کا مرکز بن گیا۔ وہاں سے متعارف ہوئے ’’جہاد‘‘ نے پاکستان میں بھی تفرقہ پرستی کو فروغ دیا۔مسلم ممالک میں ہیجان بے قابو نظر آنے لگا۔پیر کی صبح تیل کی قیمت کے حوالے سے عالمی منڈی میں جو بحران نمودار ہوا ہے وجہ اس کی کوئی نئی جنگ نہیں ہے۔ اصل سبب چین کے ووہان شہر سے چلا کورونا وائرس ہے۔اس وائرس نے حیران کن سرعت کے ساتھ ترقی وخوشحالی کے نئے ریکارڈ بناتے چین کی معیشت کو خوف کی بدولت شدید جمود کا شکار بنادیا ہے۔ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی والے ملک کی معیشت ایک جگہ رُک کر دم بخودہوئی دُنیا کے دیگر ممالک کی معیشت کو بھی مفلوج بنارہی ہے۔مصیبت مگر معیشت کے ضمن ہی میں نازل نہیں ہوئی ہے۔چین سے چلاکوروناوائرس بھی دُنیا کے بیشتر ممالک میں ہلاکتوں کا باعث بن رہا ہے۔پاکستان کا ریگولر اور سوشل میڈیا مگر عالمی سطح کو چھوتے اس بحران سے بے حسی کی حد تک لاتعلق نظر آرہا ہے۔گزشتہ ہفتے کے آغاز سے ہمیں میڈیا کی بدولت بلکہ فکر یہ لاحق ہوگئی کہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ بلند چکا ہے۔یہ نعرہ پاکستان کی روایتوں اورخاندانی نظام کے دشمن ممالک سے مبینہ طورپر بھاری رقوم لینے والی NGOsنے متعارف کروایا ہے۔اپنی ’’اقدار‘‘ کو ’’دین دشمنوں‘‘ سے بچانے کے لئے ہمیں لہذا ایک ’’ہیرو‘‘ درکار تھا۔ایک ڈرامے کو لکھ کر شہرت پانے والا لکھاری مطلوبہ ہیرو کی صورت سینہ تان کر کھڑا ہوگیا۔ٹی وی سکرینوں پر ’’نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز‘‘ کے نام پر شام سات بجے سے رات کے بارہ بجے تک ’’ٹاک شوز‘‘ کی نوٹنکیاں لگانے والوں کو Ratingsکا ایک نیا شیر دریافت ہوگیا۔یہ شیر دورِ حاضر کا ’’لسان العصر‘‘ ہے۔دورِ حاضر کی جوزبان ان کے منہ سے جھڑتی ہے اسے سن کر مجھ جیسا گلیوں سے اُٹھا بدنصیب بھی اگرچہ حیران ہوجاتا ہے۔نوزائیدہ ’’دیدہ ور‘‘ اب بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ بھی لاہوری زبان والا ’’سیدھا‘‘ ہوگیا ہے۔ٹی وی سکرینوں پر رونق لگانے کے نئے امکانات روشن ہوگئے۔ریٹنگ کی شرطیہ گارنٹی کے ساتھ چسکا فروشی اب مزید یقینی ہوگئی ہے۔اس سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سسی کی طرح ہم اپنے ’’شہر بھنبھور‘‘ کے اصل مسائل کی بابت بے خبر ہی رہیں گے۔ یہ شہر میرے منہ میں خاک اگر ’’لٹ‘‘ گیا تو ’’سسیے بے خبرے ‘‘ کہتے ہوئے ماتم کنائی میں مصروف ہوجائیں گے۔عالمی منڈی میں بنیادی طورپر کورونا وائرس کی وجہ سے جو کسادبازاری آفت کی صورت نازل ہوئی ہے اس کا اثر نیویارک ہی نہیں دُنیا بھر کے سٹاک ایکس چینجز میں خوفناک مندی کی صورت دیکھنے کو مل رہا ہے۔پیر کے روز اس کا اثر کراچی تک بھی پہنچ گیا ہے۔ہماری معیشت کورونا وائرس سے قبل ہی اگرچہ کسادبازاری کی زد میں آچکی تھی۔ اسے ’’بحال‘‘ کرنے کے نام پر IMFنے ایک نسخہ تجویز کیا۔اس نسخے کو ستمبر2022تک مسلسل استعمال کرنے کے بعد ہی شفاکی امید دلائی گئی تھی۔فی الحال وہ نسخہ اگرچہ سرطان کے موذی مرض میں مبتلا افراد کے لئے استعمال ہوئی کیمو تھراپی کی طرح تکلیف دہ ثابت ہورہا ہے۔فوری سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ تیل کی قیمت میں جو بے تحاشہ کمی آئی ہے اس کا ’’اچھااثر‘‘ میری اور آپ کی روزمرہّ زندگی میں بھی نظر آئے گا یا نہیں۔بہت دُکھی دل کے ساتھ آپ کو ’’نہیں‘‘ کہتے ہوئے اداس کرنے کو مجبور پاتا ہوں۔ہمارے حکمران البتہ تیل کی قیمت میں ہوئی کمی کو اپنی ’’خوش نصیبی‘‘ شمار کریں گے۔ہمارے Import Billمیں جو نمایاں کمی نظر آئے گی وہ بنیادی طورپر تیل کی قیمت میں کمی کی وجہ سے نمودار ہوگی۔ “Balance of Payment”میں جو ’’ریکارڈ‘‘ کمی آئے گی اسے ’’نیک طینت‘‘ حکمرانوں کی دیانت کا ثمر بناکر دکھایا جائے گا۔ایف بی آر نے براہِ راست ٹیکسوں کے ذریعے رواں مالی سال کے دوران جو رقوم اکٹھا کرنے کا وعدہ کررکھا ہے انہیں اب پیٹرول پر لگائی ڈیوٹی کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔اپنی ’’اقدار‘‘ بچانے کی جنگ میں مصروف میڈیا نے آپ کو یہ خبر بھی نہیں دی ہے کہ گزشتہ ہفتے ہوئی بارش اور ژالہ باری عین ان دنوں میں ہوئی ہے جب گندم کی فصل کو تیز دھوپ درکار ہوتی ہے۔یہ دھوپ اس کے سٹے کوتوانا اور بارآور بناتی ہے۔گزشتہ ہفتے ہوئی بارش اور ژالہ باری نے بے تحاشہ رقبوں میں لگائی گندم کے پودے خاک میں ملادئیے ہوں گے۔چند ماہ قبل ہی ہم نے ’’گندم کا بحران‘‘ بھگتا ہے۔حکومت مسلسل یہ دعویٰ کئے چلی جارہی ہے کہ یہ بحران ’’مصنوعی‘‘‘ تھا۔ منافع خور ’’مافیا‘‘ نے ذخیرہ اندوزنی کے ذریعے اسے گھمبیر تر بنایا۔ ایف آئی اے کے واجد ضیاء صاحب جنہوں نے نواز شریف کی مبینہ طورپر چھپائی دولت کا سراغ لگاکر تاریخ بنائی تھی دیانت دارانہ تن دہی سے گندم کے ’’مصنوعی‘‘ بحران کے ذمہ داروں کا تعین کرچکے ہیں۔ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا ہمیں یقین دلائے چلاجارہا ہے کہ ’’بہت جلد‘‘ واجد ضیاء کے نشان دہ افراد جیلوں میں چکی پیستے نظر آئیں گے۔ بارشیں گزشتہ برس کے مارچ -اپریل میں بھی بے موسمی تھیں۔حکومت ان کے مضر اثرات کے بارے میں غافل رہی۔اب کے برس بھی تاریخ خود کو دہراتی نظر آرہی ہے۔کھانے پینے کی اشیاء مزید مہنگی ہونے کے ٹھوس اشارے مل رہے ہیں۔ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ لگاکر ہماری ’’اقدار‘‘ پر حملہ آور ہوئے دشمنوں کی یلغار سے خود کو محفوظ بناکر ہی ہم ان اشاروں پر غور کرپائیں گے۔ہمارا برادر ملک سعودی عرب بھی گزشتہ ہفتے افواہوں کی زد میں رہا۔کورونا وائرس وہاں بھی پہنچ گیا ہے۔اس وائرس نے تیل کی قیمت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا اس نے محمد بن سلمان کے 2030تک سوچے منصوبوں کی تکمیل کو تقریباََ ناممکن بنادیا ہے۔چند ماہرینِ معیشت کا اصرار ہے کہ مذکورہ منصوبوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے لازمی ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 60ڈالر فی بیرل سے ہر صورت نیچے نہ گرے۔ پیر کی صبح یہ قیمت مطلوبہ قیمت سے تقریباََ آدھی ہوتی نظر آرہی ہے۔اس کے ’’مستحکم‘‘ ہونے کے امکانات تقریباََ عنقا ہیں۔ خدانخواستہ اگر سعودی عرب میں کورونا وائرس بے قابو ہوگیا تو اس برس کے رمضان اور بعدازاں حج کے دوران عبادت کے لئے مسلمانوں کی وہ کثیر تعداد بھی اس ملک میں جانہیں سکے گی جو گزشتہ کئی برسوں سے دیکھنے کو ملتی رہی ہے۔اس کی وجہ سے مقدس شہروں کے بازاروں کو بھی خوفناک مندی کا عذاب سہنا ہوگا۔ ہزاروں پاکستانی مزدور،کاریگر اور دیہاڑی دار ممکنہ بحران کی وجہ سے وطن لوٹنے کو مجبور بھی ہوسکتے ہیں۔ ہم سب کے پاس خیر کی دُعا مانگنے کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی باقی نہیں رہا۔ تیزی سے اُبھرتے اور گھمبیر تر ہوتے بحران کا ذمہ دار فقط کورونا وائرس ہی نہیں۔ہمارے قریب ترین ہمسائے افغانستان میں ڈاکٹر اشرف غنی پیرکے روز صدارتی حلف لینے کو بضد رہے۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ بھی اسی روز خود کو افغانستان کا ’’منتخب صدر‘‘ ثابت کرنے کو تلابیٹھا تھا۔قطر کے شہر دوحہ میں لیکن طالبان نے امریکہ سے جو امن معاہدہ کیا تھا اس میں تحریری طورپر یہ وعدہ بھی ہوا تھا کہ افغان جیلوں میں رکھے 5ہزارطالبان 10مارچ تک رہا کردئیے جائیں گے۔ان قیدیوں کی رہائی کے بعد ہی نام نہاد ’’بین الافغانی‘‘ مذاکرات کاآغاز ممکن ہے۔منگل کے روز اس وعدے پر عمل درآمد مگر اب یقینی نظر نہیں آرہا۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے مابین اُٹھا قضیہ طے ہوا تو بات آگے بڑھے گی۔ دریں اثناء طالبان کی ’’پیش قدمیوں‘‘ میں سرعت سے اضافہ ہورہا ہے۔نظر بظاہر معاملات 1990کی خانہ جنگی کی جانب تیزی سے لوٹ رہے ہیں جو اس بار ماضی سے کہیں زیادہ خوفناک اور وحشیانہ بھی ہوسکتی ہے۔ان تمام معاملات پر غور کی لیکن ہمیں فرصت نہیں۔ہماری ’’اقدار‘‘ خطرے میں ہیں۔انہیں ’’بچانا‘‘ لازمی ہوچکا ہے۔