جسٹس عیسیٰ کیس: ’جائیدادوں کی تلاش کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی‘
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج نے ریمارکس دیے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس میں 3 اثاثوں کا ذکر جبکہ اصل شکایت میں ایک جائیداد درج ہونے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اضافی جائیدادوں سے متعلق جاننے کے لیے کچھ نگرانی کی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’ عبدالوحید ڈوگر کی شکایت میں ایک جائیداد شامل ہے جبکہ اس کے بعد دائر کیے گئے ریفرنس میں 3 آف شور جائیدادوں کا ذکر کیا گیا ہے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خاندان کے افراد کی ہیں‘۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جائیدادوں کا پتہ لگانے کے لیے نگرانی کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ بینچ کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس سجاد علی شاہ نے مذکورہ ریمارکس دیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے عدالت میں دلائل کے دوران کہا تھا کہ کسی حکام یہاں تک کہ صدر کی جانب شکایت میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا جن کی رائے پر ریفرنس دائر کیا گیا تھا تاہم شکایت کنندہ اپنی شکایت میں کوئی ثبوت یا معلومات شامل کرسکتا ہے۔
جب جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے شکایت کنندہ کی تعلیمی قابلیت سے متعلق استفسار کیا تو منیر اے ملک نے جواب دیا ہے کہ وہ اتنی خاص نہیں ہے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ عبدالوحید ڈوگر کی اصل شکایت میں شامل دستاویزی ثبوت اب بھی سامنے نہیں آرہے، انہوں نے مزید کہا کہ ’ جس سے ہم یہ تصور کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ان دستاویزی ثبوت کا کوئی وجود ہی نہیں‘۔
وکیل نے کہا کیا عبدالوحید ڈوگر کی اصلی شکایت صدر یا سپریم جوڈیشل کونسل اگر ثبوت موجود نہ ہوتا تو دونوں نے اسے مسترد کردیا ہوتا یا کچرادان میں پھینک دیا ہوتا۔
اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے منیر اے ملک نے کہا کہ شکایت براہ راست بیرسٹر مرزا شہزاد اکبر کو ارسال کی گئی تھی جو اثاثہ جات ریکوری یونٹ(اے آر یو) کی سربراہ ہیں جس کے بعد شکایت، ریفرنس کے ابتدائی مسودے کے ساتھ صدر کے پاس پہنچی۔
منیر اے ملک نے کہا کہ ’ ہم میں سے اکثر اس شکایت کو کچرادان میں پھینک دیتے لیکن اے آر یو اے کے سربراہ نے اس پر انتہائی سنجیدگی سے غور کیا اور مزید تبادلہ خیال کے لیے وزارت قانون سے رابطہ کیا‘۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وکیل نے مزید کہا کہ شکایت کو اس قدر اہمیت ملی کیونکہ کسی طرح وزیر قانون اور چیئرمین اے آر یو مبینہ طور پر پہلے ہی آف شور جائیدادوں سے متعلق پہلے سے ہی جانتے تھے لیکن وہ پیپر ٹریل بنانا چاہتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین اے آر یو نے عبدالوحید ڈوگر سے ملاقات کی جنہوں نے مبینہ طور پر ایک جائیداد کی تلاش سے متعل دستاویز کی نقل فراہم کی اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ماہر نے اپنے وسیع تلاش کے ذریعے مزید جائیدادوں کا پتہ لگایا۔
اس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے وکیل منیر اے ملک سے اس حوالے سے منسلک کاغذات سے متعلق استفسار کیا ج پر انہوں نے جواب دیا کہ انہیں تو ریفرنس کے مواد تک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔
جب ایف بی آر کے ضیاالمصطفیٰ جنہوں نے 3 جائیدادیں دریافت کیں، جن کا پتہ اپنی وسیع تلاش کے ذریعے لگگایا انہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے ہسپانوی نام کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔
چیئرمین اے آر یو کی جانب سے ٹاسک دیے جانے کے ایک ہفتے کے اندر نام کے بغیر 23 اپریل کو دستاویزات جمع کیے گئے تھے۔
جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ سمجھ آنے والی بات ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا نام ماہر ایف بی آر کو عبدالوحید ڈوگر کی شکایت سے ملا ہوگا جس پر وکیل نے حیرانی کا اظہار کیا کہ نام کہاں لکھا تھا، وہ تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بیٹے کا نام بھی نہیں جانتے تھے۔
اس پر جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کے پاس شکایت درج ہونے سے قبل معلومات موجود تھیں اور عبدالوحید ڈوگر کو محض مواد جمع کرنے کا جواز پیش کرنے کے لیے متعارف کروایا گیا تھا‘۔
فُل کورٹ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل منیر اے ملک سے وضاحت طلب کی کہ دلائل میں ’ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے نگرانی‘ کا تذکرہ کیوں کیا گیا جبکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے نگرانی کے ثبوت یا یہاں تک کہ الزامات بھی موجود نہیں ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’ چونکہ معلومات اور کچھ ریکارڈز تک رسائی برطانیہ میں حاصل کی گئی تھی لہٰذا دلائل میں ان کا تذکرہ کیوں کیا جائے۔
جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ان کا کیس یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس 4 فروری کو تحریک لبیک پاکستان(ٹی ایل پی) کے دھرنے کی وجہ سے دائر کیا گیا تھا۔
منیر اے ملک نے مختلف ممالک میں خفیہ نگرانی سے متعلق سوال میں 2012 کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں امریکا،برطانیہ، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور ناروے میں کے قوانین شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے موجود تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے صدارتی ریفرنس جاری کیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔
ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔
بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا 10 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔