ہماری ماں اگر اپنے بیٹے کو پہلی بار کسی لڑکی سے بدتمیزی یا اس پر بری نظر ڈالتے ہوئے دیکھتے ہوتے اس کی مردانگی پر صدقے واری جانے کی بجائے اگر دو تھپڑ لگا دے حتی کہ اسے سمجھا ہی دے تو اس سپوت کی جرات نہیں پڑنی کہ ساری عمر کسی لڑکی کی طرح آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ۔۔۔
معذرت ۔۔
دراصل تبدیلی رویوں کے بدلنے سے آتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔ اور رویے تربیت دے کر بدلے جاتے ہیں
۔اور
۔۔۔۔۔۔۔تربیت سڑکوں پر نہیں ہوتی ہے گھروں میں ہوتی ہے ۔۔
باہر کے مرد کو ہم کیا بدلیں گے جب ہمارے گھر مرد کا ہی غلط ہے ۔۔۔
اپنا حق مانگیے، نکلیے باہر سب کیجئیے مگر اپنا وقار مت کھوئیے ۔۔۔۔۔۔
آپ تعلیم مانگیے.. آپ شعور مانگیے.. مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں عورت کی تعلیم اس کے بالوں سے شروع ہو کر اس کے کپڑوں تک حتم ہو جاتی ہے اور اس کے علاوہ اسکی روحانی، اخلاقی، معاشرتی اور ذہنی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے ۔بات شوہر کی ذات سے شروع ہوتی ہے اور بچوں پر ختم ہو جاتی ہے.. اس کی ذات کے مقام کو برقرار رکھنے کے متعلق کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اب وہ ذات جس کے دم سے سب مقام قائم ہیں وہ اگر خود ہی بے مقام ہوتو دوسرے اپنا مقام کیسے حاصل کر سکتے ہیں.
بنت حوا یہ آپ نہیں یہ کسی اور کی سوچ ہے جو آپ کو چلا رہی ہے… پہلے خود سوچئیے سمجھیے اور پھر فیصلہ کیجئے ۔۔بنت آدم آپ بھی سنبھل جائیے.. حوا کو کمزور نہ جانیے اگر وہ بغاوت پر اتر آئے تو پھر کچھ نہیں بچتا….