بر صغیر پاک و ہند کے مشہور لکھاری اور صحافی سردار خشونت سنگھ نے بڑی لمبی عمر پائی۔ ننانوے سال کے تھے جب اس جہان سے گئے۔ بھرپور زندگی گزاری اور تقریباً آخری سالوں تک اپنا ریگولر کالم لکھتے رہے۔ اُن کی باتوں سے کبھی لگتا کہ بڑے عیاش قسم کے انسان ہیں۔ اپنی لکھائی میں ٹھرک کی باتیں بھی کرتے حالانکہ اصل میں بڑے ڈسپلن کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی گزاری۔
صبح تڑکے اُٹھتے اور اپنی چائے خود بناتے۔ چونکہ سکھ انتہا پسندوں کی طرف سے انہیں خطرہ تھا؛ چنانچہ حکومت کی طرف سے انہیں سکیورٹی ملی۔ صبح جو چائے بناتے خود بھی پیتے اور محافظوں کیلئے بھی تیار کرتے۔ توانا تھے تو صبح ٹینس کھیلتے۔ اس کے بعد بہت ہی ہلکا ناشتہ کر کے اپنے کام، جو کہ لکھائی پڑھائی کا تھا، میں جُت جاتے۔ دوپہر کو سُوپ قسم کا ایک پیالہ پیتے، پھر پینتالیس منٹ کیلئے قیلولہ کرتے۔ شام کو ٹینس کھیلتے یا واک کے لئے جاتے۔ سارا دن بغیر اپوائنٹمنٹ کے کسی سے نہ ملتے۔ شام سات بجے اُن کے گھر کے دروازے کھل جاتے۔ کوئی بھی آ کے اُن سے مل سکتا تھا۔ اُس وقت محفل جمتی اور سامانِ شب کا اہتمام ہوتا۔ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے اُن کی بیگم اعلان کرتیں کہ محفل کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ تمام مہمانوں کو اُس وقت گھر سے نکلنا پڑتا۔ سردار صاحب کا کھانا لگتا اور قریب ساڑھے نو بجے وہ اپنے بستر پہ جا لیٹتے۔ اِس سے زیادہ نظم و ضبط کی زندگی کیا ہو سکتی ہے۔
اپنے مضامین میں کئی بار اچھی صحت رکھنے کے راز بھی بیان کرتے ہیں۔ ایک تو کہتے کہ کم کھانا چاہیے اور بہتر یہی ہے کہ کھانا آرام سے اکیلے میں کھایا جائے۔ ظاہر ہے ورزش کی اہمیت پہ بھی زور دیتے۔ ساتھ ہی ایک اور نسخے کی طرف اشارہ کرتے کہ روزانہ کی مالش صحت کیلئے بہت مفید ہے۔ سردار صاحب کی نصیحت پہ چلتے ہوئے اپنا جی بھی مالش کی طرف راغب ہوتا ہے۔ پرابلم یہ ہے کہ باقاعدہ یا ریگولر قسم کا کوئی ذریعہ نہیں۔ چکوال بیکار لوگوں سے بھرا پڑا ہے‘ لیکن کوئی ڈھنگ کا مالش کرنے والا نظر نہیں آتا۔ ایک زمانہ تھا جب مالش کرنے والے تیل کی شیشیاں اُٹھائے پھرا کرتے تھے۔ ایک عدد یہاں چکوال میں ہو گا اور گزرے زمانوں میں لاہور میں تو عام تھا کہ آپ لکشمی چوک گئے یا اندرون شہر کسی اور جگہ اور مالشیے پھر رہے ہوتے۔ اب بھی رواج ہو گا لیکن اتنا عام نہیں رہا؛ البتہ نیا زمانہ ہے اور اِس کے اپنے تقاضے ہیں۔ لاہور کے نئے علاقوں میں نئے قسم کے ٹھکانے بن چکے ہیں‘ جہاں پہ فزیکل تھراپی کا معقول انتظام دیکھا جا سکتا ہے۔ ہم جیسے مسافروں کیلئے‘ جو دوسرے شہروں سے آتے ہیں اور جن کا قیام لاہور میں مختصر وقت کیلئے ہوتا ہے‘ یہ بڑی غنیمت ہے۔ نئے ٹھکانوں کی مناسب ایڈورٹائزنگ سوشل میڈیا پہ ہو جاتی ہے۔ راز اب راز اتنے نہیں رہے۔
چھوٹے شہروں سے آئے ہوئے ہم جیسے مسافروں کی دو تین ضروریات ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ لاہور میں ٹھہرنے کا معقول انتظام ہو۔ یہ ضرورت تو ہمارا کلب پورا کر دیتا ہے جو کہ مال پہ واقع ہے۔ سستا رہنا ہو تو وہاں کمرہ بک کرا لیتے ہیں۔ کسی نے مہربانی کی ہو تو اُس سے نسبتاً مہنگے سرائے میں قیام ہوتا ہے جس کا محل وقوع بھی مال پہ ہے۔ ہمارا لاہور ہے بھی بڑا محدود، وہی لاہور کے پرانے علاقے جو کہ مال کے ارد گرد ہیں۔ زیادہ تیر چلایا تو اندرون شہر چلے گئے۔ قلعے اور بادشاہی مسجد کے قریب فوڈ سٹریٹ پہ بھی جایا کرتے تھے لیکن اب دل زیادہ نہیں چاہتا۔ ایک زمانہ تھا رات کو گھومنا اچھا لگتا تھا۔ اب شاید عمر کا تقاضا ہے کہ سرائے کے کمرے میں شام کو بیٹھ گئے، ایک آدھ دوست آ گیا، شب کا کچھ انتظام کیا اور پھر جی یہی چاہتا ہے کہ وہیں رہیں اور قدم باہر نہ رکھنا پڑے۔
ہمارے وزیر اعظم کی زبان پہ کچھ مافیاز کا ذکر آتا ہے، شوگر مافیا، آٹا مافیا وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ اُن کا رجحان اُس طرف نہیں ہے اور کبھی رہا بھی نہیں‘ لہٰذا اُنہیں ایک عدد اور مافیا کا علم نہیں۔ اگر وہ جانچ کرتے یا انہیں عوامی تکالیف کا صحیح ادراک ہوتا تو وہ جان جاتے کہ عام تفریح کے حوالے سے لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں بہت شدید قسم کا بحران آیا ہوا ہے۔ یہ محاورہ تو ہم سنتے تھے کہ فلاں چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ تسکینِ روح کے حوالے سے اس محاورے نے حقیقت کا روپ دھار لیا ہے۔ تسکینِ روح کے تقاضے یا تو ہاتھ آتے نہیں، آتے ہیں تو وہی محاورے والی بات کہ قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ چند اشیا کی قیمتوں کا مجھے جب بتایا گیا تو کانوں کو یقین نہ آیا کہ عام سی چیزیں جن کا کسی مہذب معاشرے میں پرابلم نہیں ہونا چاہیے اتنی ہوشربا قیمتوں پہ فروخت ہو رہی ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ پھر بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ مال صاف ہے اور اُس کا استعمال صحت کے اصولوں کے خلاف نہیں۔
ہم تو اوروں کا رونا رو رہے ہیں یا یوں سمجھیے کہ مفادِ عامہ کی بات کر رہے ہیں حالانکہ اپنا ذاتی کوئی مسئلہ نہیں۔ ایک تو جس سرائے میں آتے ہیں وہاں کے یوں کہیے پرانے پاپی ہیں۔ لوگ لحاظ کرتے ہیں، جملہ ضروریاتِ زندگی پوری ہو جاتی ہیں‘ لیکن عام شہریوں کا تو مسئلہ ہے۔ اور اُن کو کون سی وافر سہولیات مہیا ہو رہی ہیں کہ وہ چیزیں جو دیگر ممالک میں آسان سمجھی جاتی ہیں اُن کا حصول یہاں اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ بہرحال ہمارے کہنے سے کوئی اصلاح نہیں ہونی۔ ہم تو سمجھے تھے کہ سردار عثمان بزدار عوامی طرز کے چیف منسٹر ہوں گے اور جہاں نیک لوگوں کیلئے نیکیاں پیدا کریں گے ہم جیسے گناہگاروں کا بھی کچھ خیال رکھیں گے۔ لیکن یہاں معاملہ سراسر اُلٹ ہے۔ شریفوں کے زمانے میں حصولِ ضروری اشیا میں وہ مشکلیں نہ تھیں جو کہ اس تبدیلی کے دور میں آ چکی ہیں۔ لوگ مارے مارے پھرتے ہیں اور چبلوں کے سامنے تقاضا کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن پھر کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا پرابلم نہیں۔ اس لحاظ سے ہم آسودہ حال ہیں۔
گویا لاہور کے حوالے سے دو بنیادی مسائل تو حل ہو گئے۔ سرائے کا بھی بندوبست ہے اور تسکینِ روح بھی ہو جاتی ہے۔ رہ گئی سردار خشونت سنگھ والی نصیحت جس کے مطابق برقراریٔ صحت کیلئے دیگر لوازمات کے علاوہ مالش بھی ضروری ہے۔ کچھ تو لُغت کا مسئلہ ہے۔ مالش پرانا لفظ ہے۔ زبان پہ لائیں تو پہلوانوں کے اکھاڑے اور تیل کی بوتلیں اٹھائے پرانے مالشیے ذہن میں آتے ہیں۔ مالش کا انگریزی ترجمہ مساج ہے لیکن اس لفظ کے استعمال کرنے سے بنکاک اور دوبئی کے مناظر سامنے آ جاتے ہیں۔ لہٰذا اس لفظ کا استعمال بھی مشکوک ٹھہرتا ہے۔ اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے فزیکل تھراپی ہی بہتر اصطلاح لگتی ہے۔ بہرحال الفاظ کے ہیر پھیر کو ایک طرف رکھتے ہوئے، صحت کی یہ بنیادی ضرورت بھی اب مشکل نہیں رہی۔ آپ فزیکل تھراپی کرائیں تو پھر سمجھ آتی ہے کہ سردار صاحب کتنا ٹھیک کہتے تھے۔ رگوں میں خون کی گردش ذرا بہتر ہو جاتی ہے۔ جسم ہلکا محسوس ہونے لگتا ہے۔ اچھی فزیکل تھراپی ہو تو جوڑوں میں جو ٹینشن دبی رہتی ہے وہ کم ہو جاتی ہے۔ انسان ریلیکسڈ محسوس کرتا ہے۔ موڈ بہتر ہو جاتا ہے۔ چہرے پہ مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ یہ فوائد کیا کم ہیں؟
ایک البتہ لاہور کا پرابلم ہے اور وہ آنے جانے کا ہے۔ مال سے آپ چلیں اور ٹھوکر نیاز بیگ سے نکلنا ہو تو اتنا وقت لگ جاتا ہے۔ ساری لاہور کی بھیڑ کینال روڈ پہ پڑی ہوئی ہے اور گو اس سڑک کو کشادہ کیا گیا ہے لیکن رش بعض اوقات اتنا ہو جاتا ہے کہ گاڑیاں رینگتے رینگتے چلتی ہیں۔ ایک اور راستہ سگیاں پل کا ہے لیکن قباحت اس میں یہ ہے کہ سگیاں روڈ سے لے کر فیض پور انٹر چینج تک کئی جگہ سڑک اتنی خراب ہے کہ چلنا محال ہو جاتا ہے۔ یہ کوئی عام شہر نہیں ہے لاہور ہے، پنجاب کا دل، پنجاب کا دارالحکومت۔ ایک اہم سڑک جو کینال روڈ کا متبادل بن سکتی ہے‘ اُسے ہمارے لائق حکمران ٹھیک نہیں کر سکتے۔ فیض پور انٹرچینج والی روڈ ٹھیک ہو جائے تو بہت سے لاہور سے باہر جانے والے لوگ یہ راستہ اختیار کریں۔ لیکن اس بارے میں کون سوچے گا؟