وفاقی حکومت نے تجویز دی ہے کہ کراچی میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاون سے جو اربوں روپے کی رقم موصول ہونی ہے اس کو سندھ کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس رقم کو مختلف منصوبوں پر خرچ کرنے کی مجاز ہو۔
وفاق کی طرف سے یہ تجویز اٹارنی جنرل خالد جاوید نے بحریہ ٹاؤن سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لیے تشکیل دیے گئے بینچ کے سامنے دی۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے منگل کے روز ملک ریاض سے حاصل ہونے والی رقم کے حوالے سے وفاق اور سندھ کی طرف سے دائر کی گئی درخواستوں پر سماعت کی۔
وفاق کی طرف سے دی گئی اس تجویز کے مطابق اس کمیٹی کے دیگر ارکان میں چیف سیکرٹری سندھ کے علاوہ سیکرٹری پلاننگ ڈویژن، صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے دو شہری اور ایک ٹاون پلینر شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ تجویزاس لیے دی گئی ہے تاکہ منصوبوں پر عمل درآمد شفاف طریقے سے ہو۔
اٹارنی جنرل کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس تجویز سے اتفاق کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس تجویز پر سندھ حکومت سے جواب طلب کرلیا ہے۔
وفاقی حکومت کا موقف
اس سے پہلے وفاق کی طرف سے ان درخواستوں کی سماعت کے دوران یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت بحریہ ٹاؤن سے حاصل ہونے والی رقم کو ملک بھر میں فلاحی کاموں پر استعمال کرنے کی اجازت دے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے اسے 460 ارب روپے سرکاری خزانے میں جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے عدالتی احکامات کی روشنی میں اب تک 57 ارب روپے جمع کروائے ہیں جبکہ بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں اب تک 70 ارب روپے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروائے جاچکے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ اس رقم میں وہ پیسے بھی شامل ہیں جو بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے لندن میں جائیداد فروخت کی تھی تاہم اُنھوں نے اس کی مزید تفصیل نہیں بتائی۔
اُنھوں نے کہا کہ اس ضمن میں اگلی قسط اس سال نومبر میں ادا کی جائے گی۔ آئندہ قسط میں کتنے پیسے جمع کروائے جائیں گے اس بارے میں بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے کچھ نہیں بتایا۔
سندھ کے ایڈووکٹ جنرل سلمان طالب الدین نے عدالت کو بتایا کہ چونکہ جس زمین کے بارے میں عدالت نے فیصلہ دیا ہے وہ سندھ میں ہیں لہٰذا منصوبے بھی سندھ حکومت کے ہی ہوں گے جس پر بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ رقم سندھ حکومت کی نہیں بلکہ سندھ کی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہوں گی۔
اُنھوں نے کہا کہ منصوبے کی نشاندہی کرنے اور منصوبوں پر عمل درآمد کرنے میں بڑا فرق ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ اگر صوبے کے کسی شہری کو اس اس منصوبے کے بارے میں کوئی اعتراض ہو تو وہ سپریم کورٹ میں درخواست دے سکتا ہے اور اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ بھی اس بارے میں کارروائی کرنے کی مجاز ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کسی صوبے کی نہیں بلکہ پاکستان کی سپریم کورٹ ہے۔
’ایم ڈی اے تو یہ زمین تحفے میں دے چکی تھی‘
بینچ کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس رقم سے جتنے بھی منصوبے لگائے جائیں اس کا فائدہ سندھ کی عوام کو ہو۔
سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت منصوبے تیار کرے گی جس میں کراچی کے علاوہ صوبے بھر میں انفراسٹرکچر اور تعلیم کے علاوہ صاف پانی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اس میں وفاقی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ کوئی تجویز دے گی، جس پر جسٹس اعجاز الااحسن نے سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ وفاق کے ساتھ بیٹھیں اور یہ کوئی انڈیا کی حکومت نہیں ہے جس کے ساتھ نہیں بیٹھا جا سکتا۔
سماعت کے دوران ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے موقف اختیار کیا کہ بحریہ ٹاؤن کو جو زمین فراہم کی گئی تھی وہ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دائرہ اختیار میں آتی ہے، لہٰذا یہ رقم اُنھیں فراہم کی جائے جس پر جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایم ڈی اے تو یہ زمین تحفے میں دے چکی تھی۔
بینچ کے سربراہ نے ایم ڈی اے کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا اُنھیں معلوم ہے کہ بحریہ ٹاون کراچی کے پاس 16 ہزار ایکٹر اراضی ہے یا اس سے زیادہ؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ وہ اس بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہہ سکتے۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ایم ڈی اے اپنی زمینوں کی حفاظت کیوں نہیں کرسکا اور پہلے ایم ڈی اے اپنی زمینوں پر قبضہ واگزار کروائے۔
اُنھوں نے کہا کہ سپر ہائی وے کے اردگرد پتھریلی زمین ہے اور قابل کاشت بھی نہیں ہے تو پھر وہ زمین موروثی کیسے ہوسکتی ہے؟
عدالت نے ان درخواستوں کی سماعت 2 اپریل تک ملتوی کردی۔