دکھ، آسودگی کے ساتھ!
دکھ موت کا فطری نتیجہ ہے لیکن کوئی موت ایسی بھی ہوتی ہے جو دکھ کے ساتھ آسودگی لاتی ہے۔ یہ آسودگی مگر عندالطلب ملتی ہے۔ یہ محبت اور توفیق کے بغیر ارزاں نہیں ہوتی۔
میں اُس کیفیت کو سمجھ سکتا ہوں، جس نے ان دنوں برادرم بابر اعوان کا حصار کر رکھا ہے۔ گیارہ برس ہو گئے میری والدہ محترمہ کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ ماہ و سال مسلسل گزر رہے ہیں مگر وہ دن آنکھوں میں کچھ اس طرح ٹھہر گیا ہے کہ گزرتا ہی نہیں۔ یہ بارہ رجب کی ڈھلتی شام تھی جب میں برادرم بابر اعوان کو اِسی کیفیت میں دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنی والدہ کے جسدِ خاکی کو زمین کے حوالے کر رہے تھے۔ وہ بار بار جذبات کے سامنے ضبط کا بند باندھنے کی کوشش کرتے مگر کرب تھا کہ ان کی کوشش کو بار بار ناکام بناتا، آنکھوں کے کناروں سے بہہ نکلتا تھا۔
مجھے وہ لوگ اچھے لگتے ہیں جو رشتوں میں گندھے ہوئے ہوں۔ معاشرت کے باب میں، میں ایک روایتی آدمی ہوں۔ وہ نفوس ہمارے معاشرے کی بقا کے ضامن ہیں جو رشتوں کو سمجھتے اور ان میں رچ بس کر جیتے ہیں۔ یہی خوبی ڈاکٹر بابر اعوان میں بھی ہے۔ رشتوں کو نبھانے میں، وہ کسی سیاسی مجبوری یا دنیاوی مصلحت کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ماں کا رشتہ تو خیر سب سے بڑھ کر ہے۔
مجھے یاد ہے کہ میری والدہ محترمہ ایک بار بیمار پڑیں تو انہیں ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ بابر اعوان اُس وقت وفاقی وزیر تھے۔ میں نے ذکر نہیں کیا۔ کہیں سے خبر ملی تو ہسپتال پہنچ گئے۔ اللہ نے صحت دی اور والدہ گھر آ گئیں۔ بعد میں ان کی عیادت کے لیے ڈاکٹر صاحب گھر آتے رہے۔ جب بھی میرے ہاں آئے والدہ کو ملنا کبھی نہیں بھولے۔ مجھے بھی چھوٹا بھائی سمجھ کر معاملہ کیا۔ وہ تعلق اور رشتوں کے معاملے میں ایسے ہی حساس ہیں۔
اب تو خیر معاملہ حقیقی والدہ کا تھا۔ ماں کی جدائی ان پر کتنی گراں گزری ہے، مجھے اس کا اندازہ ہو رہا تھا۔ پینتالیس سال پہلے ڈاکٹر صاحب کے والد صاحب کا انتقال ہوا۔ والدہ نے باپ کی ذمہ داری بھی اپنے سر لے لی۔ بچوں کی تعلیم اور تربیت کو پہلی اور آخری ترجیح بنا لیا۔ حالات کی سختی کے سامنے خود کو بچوں کی ڈھال بنا لیا۔ وہ گزرے ماہ و سال کا ذکر کرتے اور جذبات سے بے قابو ہو جاتے۔ بظاہر مضبوط اور ٹھوس دکھائی دینے والا آدمی، اگر رشتوں کے روح سے واقف ہو تو اپنوں کے بچھڑ جانے پر اسی طرح پانی بن جاتا ہے۔
رشتوں میں جو حیثیت والدین کی ہے، اس کی نوعیت بہت مختلف ہے۔ الہامی ادب میں اس کا ذکر بہت اہتمام کے ساتھ ہوا ہے۔ قرآن مجید نے توحید کے بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا۔ سورہ بنی اسرائیل میں ہے: ”اور تیرے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔تمہارے سامنے اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”ہوں‘‘ تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ادب کی بات کہو اور ان کے سامنے مہرومحبت سے عاجزی کے بازو جھکائے رکھو اور دعا کرتے رہو کہ پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھے پالا تھا۔‘‘
سورہ لقمان میں ماں کا خصوصی ذکر کیا اور خدا کے بعد والدین کا شکر گزار ہونے کی تاکید کی: ”اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں نصیحت کی۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہوا۔ (ہم نے اس کو نصیحت کی ہے) کہ میرے شکر گزار ہو اور اپنے والدین کا شکر بجا لاؤ۔ بالآخر پلٹنا میری ہی طرف ہے۔‘‘
عالم کے پروردگار نے ایک جگہ توحید کے بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا ذکر کیا اور دوسری جگہ اپنے شکر کے بعد والدین کا شکر ادا کرنے کو کہا۔ اس سے معلوم ہوا کہ والدین کے اطاعت اور شکر گزاری، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور شکر گزاری کے بعد ہے لیکن باقی سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے۔ رسالت مآبﷺ نے ایک دوسرے اسلوب میں اس کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: والدین کی نافرمانی، شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔ (بخاری، مسلم)۔
مذہب کے ساتھ ہماری مقامی معاشرت میں بھی والدین سے محبت اور اطاعت ایک بنیادی تہذیبی قدر سمجھا گیا ہے۔ کسی فرد کے معاشرتی مقام کے تعین میں، یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ اس کا معاملہ اپنے والدین کے ساتھ کیسا ہے۔ اگر کوئی مروجہ پیمانوں پر پورا نہ اترے تو لوگوں کی نظر سے گر جاتا ہے۔ ارد گرد کے لوگ اس سے کوئی رشتہ قائم کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔ وہ اپنے ہی ماحول میں اجنبی ہو جاتا ہے۔
بابر اعوان کی والدہ کو اللہ نے طویل عمر دی۔ عمر کی یہ طوالت ان کی نیکیوں میں اضافے کا باعث بنی۔ ڈاکٹر صاحب ان کی ایک خوبی کا کثرت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اور وہ انفاق ہے۔ ان کے سنائے ہوئے بعض واقعات تو حیران کن ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے اپنی والدہ کو ایک شال پیش کی جس کی قیمت بارہ لاکھ روپے تھی۔ ہفتہ عشرہ گزرا تو انہوں نے دیکھا کہ وہ ان کے کندھوں پر نہیں۔ پوچھا: کیا آپ کو پسند نہیں آئی۔ کہا: ایسا نہیں ہے۔ پھر اپنی ایک تیماردار نرس کے بارے میں بتایا کہ کل آئی تو سردی میں ٹھٹھر رہی تھی۔ میں نے اتار کر اسے دے دی۔ بیٹا ماں کے لیے نئے کپڑے سلواتا تو گاؤں کی خواتین میں بانٹ دیتیں۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ انفاق انسان کے وسائل میں برکت ڈال دیتا ہے۔ جیسے جیسے وہ خدا کے راستے میں خرچ کرتا جاتا ہے، اس کا خزانہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ اس دنیا کا قصہ ہے۔ ورنہ آخرت کا معاملہ تو الگ ہے کہ وہ اجر ہمارے حساب کتاب کے دائرے سے باہر ہے۔ خدا کے ساتھ یہ تجارت کیسی منافع بخش ہے کہ انسان اس دنیا میں نوازا جاتا ہے اور آخرت میں بھی۔ اس کو قرآن بہترین تجارت کہتا ہے۔ بابر اعوان کی والدہ بھی اپنے رب کے ساتھ تجارت کرتی تھیں۔
کسی گھرانے میں انفاق اگر روایت بن جائے تو کیا کہنے! کئی سال پہلے ڈاکٹر بابر اعوان نے ‘پیر کا لنگر‘ شروع کیا تھا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہر پیر کو ان کے گھر بہت سے ضرورت مند اکٹھے ہوتے ہیں۔ ان کی ضیافت کی جاتی ہے جس میں ڈاکٹر صاحب خود بھی شریک ہوتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ان کی والدہ کا حسنِ عمل ہے جو صدقہ جاریہ بن گیا ہے۔
بابر اعوان اپنی والدہ کے جدائی پر دکھی تھے مگر ان کے لیے اطمینان کا پہلو یہ تھا کہ انہیں بڑھاپے میں اپنی والدہ کی خدمت کی توفیق ارزاں ہوئی۔ دکھ اگر اطمینان کے ساتھ ہو تو اس کا سہنا آسان ہو جاتا ہے۔ کسی کا عزیز شہید ہو جائے تو اس کی جدائی اداس کرتی ہے؛ تاہم اس میں آسودگی کا ایک پہلو یہ ہوتا ہے کہ جانے والے نے کسی عظیم مقصد کے لیے متاعِ جاں لٹا دی۔ اسی طرح والدین کی موت ایک بڑا صدمہ ہے لیکن اگر کسی نے بڑھاپے میں خدمت کر لی اور خدا کے حکم کے تحت ان کے سامنے عاجزی کے بازو بچھائے رکھے تو اسے مطمئن ہونا چاہیے کہ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں اجر ہے۔
ڈاکٹر بابر اعوان کی والدہ اپنی خوبیوں اور نیکیوں کے ساتھ رخصت ہوئیں تو ان کی موت نے ان کے لیے ایک تذکیر کا موقع پیدا کر دیا جن کے والدین ابھی زندہ ہیں۔ یہ کالم اسی پیغام کے ساتھ لکھا جا رہا ہے کہ وہ والدین کی وجود کو خدا کا احسان سمجھیں کہ اس نے دنیا اور آخرت کی کامیابی کا سامان ان کے گھر میں رکھ دیا ہے۔ یہ کیسی محرومی ہے کہ کوئی سامنے پڑی جنت سے منہ موڑ لے۔
میں ڈاکٹر بابر اعوان، ان کے بھائیوں اور خاندان کے لیے صبر اور ان کی والدہ محترمہ کے لیے مغفرت کے ساتھ، یہ دعا بھی کرتا ہوں کہ وہ محروموں کے لیے اپنی والدہ کے اس جذبۂ انفاق کی حقیقی وارث بنیں جس کی جڑیں مخلوقِ خدا کے ساتھ محبت کی مٹی میں پیوست ہیں۔