منتخب تحریریں

اللّٰہ لوک!

Share

روزنِ دیوارسے…عطاءالحق قاسمی

کچھ عرصے سے زندگی بور بور سی لگنے لگی تھی۔ اس کی وجہ معمولات کی یکسانیت تھی۔ صبح اٹھنا، ناشتہ کرنا، ’’معاصر‘‘ کے دفتر آنا، وہاں بیٹھ کر کالم لکھنا، ایک کتاب کی ترتیب و تدوین کرنا، ملاقات کے لئے آئے ہوئے دوستوں سے گپ شپ کرنا، شام کو کسی تقریب میں شرکت کرنا، رات کو گھر پہنچنا، بچوں کے ساتھ کھیلنا، ٹی وی پر سیاسی دنگل دیکھنا، رات کو سونے سے پہلے کوئی کتاب پڑھنا، سونا اور پھر صبح اٹھ کر دوبارہ یہ سب کچھ کرنا، بس زندگی اسی دائرے میں گھوم رہی تھی۔ میں اس دنیا داری سے تنگ آگیا تھا لیکن چند روز پیشتر اچانک اس روٹین میں ایک غیرمعمولی تبدیلی آئی۔ میں نے محسوس کیا کہ دنیا سے میرا جی اچاٹ ہوگیا ہے اور میں صوفی سا ہوتا جارہا ہوں۔ اس کی وجہ وہ شدید نزلہ زکام (فلو) تھا جس نے مجھے اپنی زد میں لے لیا تھا۔ مجھے علم نہیں تھا کہ یہ بیماری اچانک میرے درجات کتنے بلند کردے گی۔ آپ کو یہ بات شاید اس طرح سمجھ نہ آئے چنانچہ مجھے سمجھانا پڑے گی۔

جس روز مجھ پر فلو کا حملہ ہوا میں روزمرہ کے دنیاوی کاموں میں مشغول تھا، جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا زندگی صرف کھانے پینے اور سونے جاگنے تک محدود تھی۔ اللّٰہ یاد ہی نہیں رہا تھا لیکن جب فلو نے دماغ پوری طرح جکڑ لیا تو دھیان کسی طرف جاتا ہی نہیں تھا اور جب اس کے ساتھ ناک بہنا شروع ہوئی تو میں نے خود کو ایک معصوم بچے کی طرح محسوس کیا۔ اس کے ساتھ چھینکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور غنودگی سی محسوس ہونے لگی چنانچہ اب میں گزشتہ چند روز سے آنکھیں بند کرکے گیان دھیان کے عالم میں بیٹھا رہتا ہوں۔ لوگ میرے پاس سٹے کا نمبر پوچھنے کے لئے آنے لگے ہیں۔ ابھی کل میرے پاس ایک ٹی وی چینل کے اینکر آئے اور کہنے لگے ’’بابا جی یہ حکومت کب جائے گی؟‘‘میں اللّٰہ جانے اس وقت کس عالم میں تھا، میں نے جواب دیا ’’فائل گئی ہوئی ہے صرف سائن ہونا رہتے ہیں‘‘ لیکن وہ اللّٰہ جانے کیا سمجھا کہ خوش ہو کہ بولا ’’بابا جی، بس یہ کام ذرا جلدی کرا دیں‘‘۔

گھر والے عموماً کسی کی اولیائی کے قائل نہیں ہوا کرتے لیکن دنیا اور دنیا داری سے میری عدم دلچسپی دیکھ کر وہ بھی بہت متاثر ہو رہے ہیں، صبح میرے لئے ناشتہ لایا گیا جس میں پراٹھے وغیرہ تھے تو میرا اس کی طرف دیکھنے کو بھی جی نہیں چارہا تھا لیکن جب اہلیہ کا اصرار بڑھتا چلا گیا تو میں نے دھیرے سے کہا ’’مجھے اجازت نہیں ہے‘‘ یہ سن کر میری اہلیہ کی آنکھیں عقیدت سے چھلک پڑیں، مجھے اس کی وجہ بھی سمجھ نہیں آئی کیونکہ مجھے ڈاکٹر کی طرف سے بھاری قسم کے ناشتے کی اجازت نہیں تھی۔ اسی طرح رات کو جب میں اپنی چارپائی پر اکڑوں بیٹھا تھا۔ میری آنکھیں بند تھیں لیکن نیند مجھ سے کوسوں دور تھی تو اہلیہ کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے جب میری شب بیداری دیکھی تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اور عقیدت سے میرے پاؤں دابنا شروع کردیے۔ مجھے علم نہیں تھا کہ فلو کی اتنی برکات ہیں۔ تاہم اس سے قطع نظر، سچی بات یہ ہے کہ یہ فلو مجھے مزا بہت دے رہا ہے اور میں روزمرہ زندگی سے ہٹ کر ایک ایسی زندگی بسر کررہا ہوں جس میں رومانویت کی جھلک پائی جاتی ہے۔ جب میں فلو کی شدت میں آنکھیں بند کرکے بیٹھا ہوتا ہوں تو مجھے غالب کے اس شعر؎

جی چاہتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن

بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے

کی عملی تفسیر نظر آنے لگتی ہے۔ سب مصروفیات سے جان چھوٹ جاتی ہے اور پھر یہ بیماری ایسی بھی نہیں کہ انسان درد سے چیخنا چلانا شروع کردے یا یہ جان لیوا ثابت ہو بلکہ ایک نہایت شریف النفس اور امن پسند بیماری ہے۔ یہ چاہتی ہے کہ آپ صرف آرام کریں، دنیا داری سے تھوڑا سا ہاتھ کھینچیں، لڑائی جھگڑا نہ کریں، فضول سرگرمیوں میں وقت ضائع نہ کریں۔ یہ بیماری روزمرہ کے معمولات جو زندگی کو بور بنا دیتے ہیں، اُس میں ایک مختلف رنگ کا اضافہ کرتی ہے تاہم میری دعا ہے کہ یہ بیماری آئندہ پانچ سات سال میں صرف ایک آدھ بار میرا رُخ کرے تو بہتر ہے کیونکہ قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا۔

آخر میں برادرم نصیر خان صاحب کی بڑھاپے کے حوالے سے خوبصورت شاعری ملاحظہ فرمائیں۔

کسی کو آپ کے بالوں کی چاندی سے محبت ہو

کسی کو آپ کی آنکھوں پہ اب بھی پیار آتا ہو

لبوں پر مسکراہٹ کے گلابی پھول کھل پائیں

جبیں کی جھریوں میں روشنی سمٹی ہوئی تو

بڑھاپا خوبصورت ہے۔۔۔!

شکن آلود ہاتھوں پردمکتے ریشمی بوسے

سعادت کا، عقیدت کا، تقدس کا حوالہ ہوں

جوانی یاد کرتا دل اداسی کا سمندر ہو

اداسی کے سمندر میں کوئی ہمراہ تیرے تو

بڑھاپا خوبصورت ہے۔۔۔!

ذرا سا لڑکھڑائیں تو سہارے دوڑ کر آئیں

نئے اخبار لا کر دیں، پرانے گیت سنوائیں

بصارت کی رسائی میں پسندیدہ کتابیں ہوں

مہکتے سبز موسم ہوں، پرندے ہوں، شجر ہوں تو

بڑھاپا خوبصورت ہے۔۔۔!

پرانی داستانیں شوق سے سنتا رہے کوئی

محبت سے دل و جاں کی تھکن چنتا رہے کوئی

ذرا سی دھوپ میں حدت بڑھے توچھاؤں مل جائے

برستے بادلوں میں چھتریاں تن جائیں سر پر تو

بڑھاپا خوبصورت ہے۔۔۔!

جنہیں دیکھیں تو آنکھوں میں ستارے جگمگا اٹھیں

جنہیں چومیں تو ہونٹوں پر دعائیں جھلملا اٹھیں

جواں رشتوں کی دولت سے اگر دامن بھرا ہو تو

رفیقِ دل، شریکِ جاں برابر میں کھڑا ہو تو

بڑھاپا خوبصورت ہے۔۔۔!