سنہ 2011 میں میں ریلیز ہونے والی ہالی وڈ فلم کونٹیجیئن کو شاید ہی باکس آفس پر بلاک بسٹر کے طور پر بیان کیا جاسکے۔
میٹ ڈیمن، جوڈ لا، گیونتھ پیلٹرو، کیٹ ونسلٹ اور مائیکل ڈگلس سمیت ایک معروف کاسٹ ہونے کے باوجود یہ فلم اُس برس دنیا بھر سے زیادہ کمائی کرنے والی فلموں میں 61ویں نمبر پر تھی۔
لیکن کونٹیجین نے گوگل پر سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی فلم اور امریکہ میں ایپل کے آئی ٹیونز سٹور پر سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی فلموں کی فہرست میں حیرت انگیز واپسی کی ہے۔
وارنر برادرز سٹوڈیو کا، جس نے کونٹیجیئن بنائی تھی، کہنا ہے کہ دسمبر میں جب چین میں کوویڈ ۔19 پھیلنے کی پہلی خبر سامنے آئی۔ اس کی کیٹلوگ کا یہ صرف 270 واں مقبول ٹائٹل تھا۔
اور اب تین ماہ، فلم کونٹیجیئن صرف ہیری پوٹر فرنچائز کی آٹھ فلموں سے پیچھے ہے۔
یہ سب کچھ کورونا وائرس اور موجودہ وباء اور اس فلم کے مرکزی خیال (پلاٹ) کے درمیان مماثلت جو ایک دہائی قبل کی گئی تھی کی وجہ سے ہے۔
فلم کی نقل کرتی زندگی
اس فلم میں ایک کاروباری خاتون(پیلٹرو) ایک پراسرار اور مہلک وائرس کے ذریعہ ہلاک ہوجاتی ہے، جس سے وہ چین کے دورے کے دوران متاثر ہوتی ہے اور پھر یہ وائرس پوری دنیا میں ہنگامی صورتحال پیدا کردیتا ہے۔
فلم میں چین والا پہلو اس میں دیگر کچھ باتوں میں سے ایک ہے جو حقیقی زندگی سے معلوم ہوتی ہیں اور اسی بات نے حالیہ ہفتوں میں فلم کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے۔
فلم میں دلچسپی اداکارہ گیوینتھ پیلٹرو کی ایک ‘حرکت’ کی وجہ سے ایک بار پھر روشن ہوگئی: امریکی اداکارہ نے 26 فروری کو ٹرانزلانٹک پرواز میں اپنے چہرے پر ایک ماسک پہنے تصویر پوسٹ کی تھی۔
ان کی اس انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا تھا، ‘پیرس کے راستے میں۔ محتاط؟ ہوشیار؟ خوفزدہ؟ پرسکون؟ وبائی مرض؟ پروپیگنڈا؟ پیلٹرو ’پروگرام کے مطابق آگے بڑھے گی اور اس سب کے ساتھ سو جائے گی۔‘
پیلٹرو نے، جن کے 6 ملین فالوور ہیں، لکھا ’میں پہلے ہی اس فلم میں آ چکی ہوں۔ محفوظ رہیں۔ ہاتھ مت ملائیں۔ بار بار ہاتھ دھوئیں۔’
مماثلتیں
کونٹیجیئن فلم میں حقیقت کے ساتھ متاثر کن حد تک مماثلت ہے۔
اس فلم میں پیلٹرو کے کردار کو ایم ای وی ون نامی وائرس ہانگ کانگ کے ایک شیف سے ہاتھ ملانے سے لگتا ہے۔ اس شیف کو یہ وائرس ایک ذبح شدہ سور کو ہاتھ لگانے سے لگا تھا جو کہ ایک چمگادڑ سے متاثر ہوا تھا۔
اس کے بعد وہ گھر واپس آتی ہیں، شدید بیمار ہوجاتیں ہیں اور اس کے چند دن بعد ہی ہلاک ہو جاتی ہیں۔ ان کا بیٹا بھی جلد ہی مر جاتا ہے لیکن میٹ ڈیمن کا مدفعتی نظام، جو اس فلم میں ان کے شوہر کا کردار نبھا رہے ہیں، اس وائرس سے انھیں محفوظ رکھتا ہے۔
اور اب حقیقت میں بھی ماہرین صحت کا خیال ہے کہ گذشتہ برس دسمبر میں چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والا کوویڈ- 19 کورونا وائرس جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہوا تھا۔
حتی کہ یہاں تک بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کورونا وائرس بھی چمگادڑوں سے شروع ہوا بالکل اسی طرح جیسے سنہ 2002-2003 میں سارس وبا شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد یہ دوسرے جانوروں سے انسانوں تک پہنچا تھا۔
اس بارے میں کوئی اتفاق رائے نہیں ہے کہ وہ دوسرا جانور کونسا تھا (فلم کونٹیجیئن میں یہ جانور سور تھا)، لیکن چینی حکام نے ووہان شہر کی ایک زندہ جانوروں کی منڈی کو اس وائرس کے پھیلاؤ کے طور پر شناخت کیا ہے۔
کوویڈ 19 کے نام سے جانے جانے والے کورونا وائرس کے موجودہ پھیلاؤ کی طرح، فلم میں فرضی وائرس بھی انسانوں کے مابین قریبی رابطے کے ذریعہ یا آلودہ جگہوں کو چھونے سے پھیلا۔
حقیقی زندگی سے تحریک لینا
فلم میں دکھائی گئی اور حقیقی دونوں بیماریاں سانس کے مسائل کا سبب بنتی ہیں، لیکن فلم کا ایم ای وی 1 نامی وائرس ایک حقیقی وائرس نیپاہ سے ماخوذ ہے جو کوویڈ 19 کے وائرس کی قسم سے نہیں ہے۔
حقیقت میں حالیہ وبا فرضی وبا سے کہیں کم مہلک ہے۔ فلم میں کرداروں کی اموات کی شرح کو 25 فیصد بتایا گیا تھا، جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق کوویڈ 19 کی شرح اموات فی الحال 3.4 فیصد کے لگ بھگ ہے۔
فلم کونٹیجیئن میں ایم ای وی ون وائرس سے ایک ماہ میں دنیا بھر میں 26 ملین افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ جبکہ چین سے پھیلنے والے اس نئے کورونا وائرس کے ابتدائی تین ماہ میں ہلاکتوں کی تعداد 4000 تک پہنچی ہے۔
حالیہ تاریخ میں اس فلم سے موازنے میں پھیلنے والی وبائی بیماری صرف ہسپانوی فلو تھی جو سنہ 1918-1920 میں پھیلی تھی اور جس میں 50 ملین سے زیادہ افراد کو ہلاک ہوئے تھے۔
الگ رہنا
جب فلم میں وبا پھیلنے کا شبہ ہوتا ہے تو، ایک اصلی ادارے ایپی ڈیمک انٹیلی جنس سروس کے عملے کو روانہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ متاثرہ لوگوں کی شناخت اور انھیں الگ تھلگ کرنے کی کوشش کریں۔
فلم میں امریکی شہر شکاگو کو قرنطینہ کیا جاتا ہے جو چین میں رونما ہونے والے بڑے پیمانے پر لاک ڈاؤن کا آئینہ دار ہے۔
اٹلی نے کوویڈ ۔19 کے پھیلاؤ سے نمٹنے کی کوشش میں اب کئی شمالی علاقوں کو بھی باقی مقامات سے کاٹ دیا گیا ہے۔
خوف اور بیماری کے اثرات
کونٹیجیئن کی دوبارہ واپسی نے سکاٹ زیڈ برنز کو حیرت میں ڈال دیا ہے جنھوں نے اس فلم کا سکرپٹ لکھا تھا۔
تاہم فارچون میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ کونٹیجیئن فلم کا اصل مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ جدید معاشرہ کو اس طرح کی وبا کا خطرہ ہے۔
برنز نے کہا کہ ‘ہماری فلم کونٹیجیئن اور کورونا وائرس کے درمیان مماثلت غیر ضروری، حادثاتی اور واقعی اتنی اہم نہیں ہے۔’
‘جو زیادہ اہم اور درست بات ہے وہ یہ ہے کہ معاشرتی ردعمل اور خوف کا پھیلاؤ اور اس کے اثر انگیز اثرات۔’
وہ غالباً کونٹیجیئن کےایک مخصوص کردار ایلن کرومویڈے نامی ایک سازشی تھیوری بلاگر کا حوالہ دے رہے تھے۔
اس کردار کو جیوڈ لا نے نبھایا تھا اور اس میں کردار کرموئیدے نے وائرس کے بارے میں بے بنیاد افواہوں کو پھیلاتے ہوئے اس وائرس کے جعلی علاج کو مشہور کیا۔
حقیقت سے مماثلت رکھتے ہوئے ایمازون نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اس نے جھوٹے دعوؤں والی دس لاکھ سے زیادہ ایسی اشیا کی فروخت کو روک دیا ہے جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ کویڈ – 19 کو روکنے یا ان کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔
امریکہ کی مشہور ٹی وی شخصیت جم بیکر کو نیویارک حکام کی جانب سے اس ہفتے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انھوں نے وائرس کے علاج کے لیے چاندی سے بنے ایک ٹانک کو فروغ دیا۔
موجودہ وبا نے ایسی جعلی خبروں اور افواہوں کو بھی جنم دیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ وائرس کو اصل میں ایک کیمیائی ہتھیار کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔
خود برنز بھی ایک سازشی تھیوری کا نشانہ بن گئے۔
نیو یارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ان تک پہنچنے والے کچھ لوگوں نے ان پر عالمی معاملات پر قابو پانے کے لیے کسی خفیہ تنظیم کا ممبر ہونے کا الزام لگایا۔
‘مجھے اس بات کی زیادہ فکر ہے کہ غلط فہمی پھیلنا وائرس جتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔’
سائنسی بنیاد
کونٹیجیئن کی مقبولیت کی وضاحت اس بات سے بھی کی جاسکتی ہے کہ برنز اس فلم کو سائنسی اعتبار سے قابل اعتبار بنانے کے لیے کس قدر پرعزم تھے۔
فلم کا سکرپٹ لکھتے وقت انھوں نے ڈبلیو ایچ او کے ماہرین سمیت وائرولوجسٹ اور وبائی امراض کے ماہرین سے مشاورت کی۔
ان ماہرین کے پاس ان کے لیے کچھ حیران کن مشورے تھا۔
برنز نے ہالی ووڈ کے رپورٹر کو بتایا کہ ‘جب میں نے اس شعبے کے ماہرین سے بات کی ، تو ان سب نے مجھ سے کہا کہ سوال یہ نہیں کہ وبا پھیلے گی یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کب۔’