مرے دل مرے مسافر، ہوا پھر سے حکم صادر… ہر اک اجنبی سے پوچھیں، جو پتا تھا اپنے گھر کا۔ میر شکیل الرحمٰن گرفتار کر لئے گئے۔ لفظ کو ہتھکڑی پہنائی گئی ہے۔
انسانوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ لفظ کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ لات، منات اور عزیٰ کی دھوپ ڈھل جاتی ہے۔ اِن الباطل کان زھوقا۔ (بےشک باطل مٹنے ہی والا تھا)۔
کوندے کی طرح خیال تو لپکا ہوگا کہ سیکولر صحافی ایک ہی جھٹکے میں الہامی آیات کے حوالوں پر اتر آیا۔ لبرل ہونے کے دعوے ہوا ہو گئے۔ سیٹھ کی مدافعت میں نمک حلالی کے جوہر دکھا رہا ہے۔ عرض ہے کہ ناانصافی کی سنگی دیوار پر حرفِ حق سے دستک کی روایت بہت پرانی ہے۔ ہمارے لشکر میں نام اور مقام کا امتیاز نہیں۔
لفظ کی شناخت پریڈ وقت کے کٹہرے میں ہوتی ہے اور کالم کی زنبیل میں محض ایک ہزار لفظوں کی رسد پائی جاتی ہے۔ تفصیل کا یارا نہیں۔ 1998کے موسمِ خزاں پر بائیس برس گزر چکے۔ نواز شریف وزیراعظم تھے، احتساب کا تماشا جاری تھا۔ یادش بخیر! سیف الرحمٰن کا طوطی بول رہا تھا۔ اہلِ حکم نے 14راندۂ درگاہ صحافیوں کی فہرست روزنامہ جنگ کو ارسال کی کہ انہیں خارج البلد کیا جائے۔ اخبار ڈٹ گیا۔
وقت کے کٹہرے سے ملنے والی شہادت کی تفصیل ملاحظہ کیجئے۔ میاں نواز شریف اور ان کے رفقا کسی اور کے احتساب کی زد میں ہیں۔ چودہ گردن زدنی صحافیوں کا سرخیل آپ کے ہاتھ میں موجود ادارتی صفحے کا مدیر ہے۔ اخبار کا مدیر اعلیٰ بارہ روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کی حراست میں ہے۔
سیف الرحمٰن کی کوئی خبر نہیں، کسی نامعلوم سیارے کی رصد گاہوں میں کھو گئے۔ اس شناخت پریڈ میں پیادہ سپاہی کی گواہی مگر ابھی باقی ہے۔ درویش 1993میں روزنامہ دی نیوز سے رخصت ہو کر انسانی حقوق کی تعلیم پھیلانے نکل گیا تھا۔
اگر آپ کسی اور کو نہیں بتائیں تو راز کھول دیتا ہوں۔ انسانی حقوق کی اوٹ میں اس خوش رنگ پرندے کے لئے دام بچھایا تھا جسے جمہوری حکمرانی اور دستور کی بالادستی کہتے ہیں۔
کیا تھا شعر کو پردہ سخن کا… اس سفر کا ایک پڑاؤ ماہنامہ ’نوائے انسان‘ بھی تھا۔ نوائے انسان کی فائلیں اب مٹیالی ہو چلی ہیں۔ نومبر 1998کے آزادیٔ صحافت نمبر کا اداریہ اس عاجز نے لکھا تھا۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔
’انسانی ترقی، انصاف اور امن کی برکھا ان بنجر ٹیلوں پر نہیں برستی جہاں نئے خیالات اور پُرامن اختلافِ رائے کے بیج نہ بوئے جائیں۔۔۔ آزادی اظہار وہ لکیر ہے جو چراگاہوں میں قائم مویشی باڑوں کو مہذب انسانی سماج سے جدا کرتی ہے۔۔۔ حکمران طبقہ نئے خیال سے خوفزدہ ہوتا ہے۔
سر جھکا کر زمیں پر گھاس ڈھونڈتی بھیڑوں پر حکمرانی کرنا آسان ہوتا ہے۔ مگر ایسی حکمرانی میں قبرستان کا سناٹا اور مرگھٹ کا خوف ہوتا ہے۔ خوف، لاعلمی اور خاموشی کے اندھیرے میں بدعنوان، نااہل اور ظالم حکومت کا درندہ پلتا ہے۔ آزادیٔ اظہار کا معیار یہ ہے کہ اپنے ضمیر کی روشنی میں، صحیح وقت پر اور صحیح مقام پر اپنی حقیقی رائے کا اعلان بلا خوف و خطر کیا جائے۔
ایسی آواز بھلے صحرا میں اذان ہو مگر بہار کی آمد کا اعلان تو خزاں زدہ ٹہنی پر پھوٹنے والی کونپل ہی کرتی ہے۔ سرسبز پیڑوں پر پھیلتی آکاس بیل نہیں‘۔
اس قضیے میں ایک لفظ ’کرپشن‘ نے دہشت پھیلا رکھی ہے۔ سوال کیا جاتا ہے کہ صحافت سے وابستہ کسی شخص کی کرپشن کو قانون سے ماورا قرار کیوں دیا جائے۔ کرپشن پر گرفت کو آزادیٔ صحافت پر حملہ کیونکر سمجھا جائے؟ کیا صحافت کرپشن کی کھلی چھٹی کا نام ہے؟ ان سوالات کا قانونی جواب تو بیرسٹر اعتزاز احسن عدالت میں دیں گے۔
یہ الگ بات کہ پہلے روز کی سماعت کے بعد دلیل سر بزانو دکھائی دیتی ہے۔ اتمامِ حجت کے لئے صحافی کا جواب حاضر ہے۔ اگر اپریل2014 سے ایک صحافتی ادارہ مسلسل حملوں کی زد میں ہے، اس ادارے کے جید صحافیوں پر حملے کئے گئے ہیں، اس ادارے کے اخبارات کی ترسیل میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں، نشریاتی رابطوں میں خلل ڈالا گیا ہے، مرغانِ دست آموز کو اتہام اور دشنام کی مہم سونپی گئی ہے۔
برسراقتدار سیاسی جماعت کے سربراہ نے نام لے کر اخبار کے مدیر اعلیٰ کو دھمکیاں دی ہیں، ایک ہفتہ پہلے وفاق اور حکمران جماعت کے زیر نگیں دو صوبوں میں اس اخبار کے سرکاری اشتہارات پر مکمل پابندی کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے اور حکومت اس فیصلے کا دفاع کر رہی ہے۔ احتسابی ادارے کی کارکردگی اور اس کے سربراہ کا رویہ غبار آلود ہیں۔
حزبِ اختلاف کھلے لفظوں میں ایک مفرور غاصب کے تراشیدہ احتسابی بندوبست کو سیاسی صنم تراشی کا کارخانہ قرار دیتی ہے۔ اور اب ایک مصدقہ پرچہ نویس کی بظاہر مجہول شکایت پر غیر مطبوعہ بیانیے کے حامل صحافتی ادارے کا قانون پسند مالک پُراسرار حالات میں گرفتار کیا جاتا ہے تو واقعاتی تناظر سے آگاہ حلقے اسے آزادی صحافت پر حملہ کیوں نہ قرار دیں؟
کرپشن ایک گمراہ کن اصطلاح ہے جسے اس ملک میں دہائیوں سے جمہوری اور تمدنی قوتوں کو بے دست وپا کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جاننا چاہئے کہ عوام کے حق حکمرانی میں غیر آئینی مداخلت کرپشن کی بدترین صورت ہے اور معاشرے کے حقیقی بدعنوان عناصر ایسی کرپشن کے بہترین اتحادی ہیں۔ ریاستی بندوبست میں کرپشن ایک منجدھار ہے جو کردار سے عاری عناصر کو پوری قوت سے اپنے مرکزے کی طرف کھینچتی ہے۔
اس کرپشن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ قوم کا اجتماعی تشخص داغ دار ہو جاتا ہے اور اس ذلت کے دھبوں سے کوئی شہری محفوظ نہیں رہتا۔ جو مزاحمت کرتے ہیں، ان کی آزادیاں سلب ہوتی ہیں، ان کا معاش مجروح ہوتا ہے، انہیں یک طرفہ تفتیش کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔
اور جو ایسی کرپشن میں شرکت پر آمادہ ہوتے ہیں وہ ملکی افلاس کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں قوم خسارے میں رہتی ہے۔ حقیقی اور مفروضہ کرپٹ عناصر میں فرق کرنا ہماری قوم جانتی ہے۔ میر شکیل الرحمٰن کے لئے احمد مشتاق نے بہت پہلے کہہ رکھا ہے
پریوں کی تلاش میں گیا تھا
لوٹا نہیں آدمی ہمارا