Site icon DUNYA PAKISTAN

صوبہ جنوبی پنجاب، دیکھیں کیا گزرے ہے…؟

Share

ایک پرانا (بلکہ بہت ہی پرانا) لطیفہ ہے (جس کے حقیقی ہونے کا امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا ہے) ”تقسیم‘‘ سے پہلے کی بات ہے، انگریز سرکار نے پنجاب میں ایک نئے کالج کے قیام کی منظوری دی تو ”سردار صاحبان‘‘ میں کالج کے محل وقوع پر بحث چھڑ گئی کہ یہ لاہور میں ہو یا امرتسر میں؟ بحث مباحثہ گھنٹوں جاری رہا، یہاں تک کہ ”بارہ‘‘ بج گئے اور پنچایت اس فیصلے پر اختتام کو پہنچی کہ لاہور اور امرتسر میں سے ایک شہر میں کالج اور دوسرے میں ہوسٹل بنا لیا جائے۔ جناب شاہ محمود قریشی نے (فردوس عاشق اعوان صاحبہ کے ہمراہ) میڈیا سے گفتگو میں جنوبی پنجاب والوں کو خوشخبری دی کہ جناب وزیر اعظم کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی طرف اہم پیش رفت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اگلے ماہ اس کے لیے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا جائے گا۔ چونکہ آئین کے آرٹیکل 239 کے تحت کسی نئے صوبے کے قیام کے لیے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کی تائید لازم ہے (اسی آرٹیکل کے تحت جس صوبے سے نیا صوبہ نکالنا مقصود ہو، وہاں کی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت کی حمایت بھی ضروری ہے) اور پی ٹی آئی کو دونوں جگہ (پارلیمنٹ اور پنجاب اسمبلی میں) دو تہائی اکثریت حاصل نہیں، اس لیے جناب وزیر اعظم نے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سے رابطے (اور ”مشاورت‘‘)کی بھی تلقین کی۔
جنوبی پنجاب صوبے کے وجود میں آنے تک ”وسیب‘‘ کے عوام کو ”ایڈیشنل سیکرٹریٹ‘‘ کا لالی پاپ دینے کا فیصلہ کیا گیا، لیکن یہ سیکرٹریٹ کہاں ہو؟ اس پر بھی خود پی ٹی آئی میں شدید اختلافات سامنے آئے۔ شاہ محمود قریشی ملتان پر اصرار کر رہے تھے کہ انہیں اس میں اپنا سیاسی فائدہ نظر آتا تھا۔ جہانگیر ترین (اور ان کے گروپ) کی رائے مختلف تھی؛ چنانچہ ایک کی بجائے دو سیکرٹریٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ملتان میں ایڈیشنل آئی جی (سائوتھ) بیٹھیں گے اور بہاولپور ایڈیشنل چیف سیکرٹری (سائوتھ) کا مسکن ہو گا۔ جنوبی پنجاب صوبے کے مستقل سیکرٹریٹ کا فیصلہ نئے صوبے کی منتخب اسمبلی کرے گی۔
ناقدین نے ایک سوال یہ اٹھایا کہ وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے اس اہم فیصلے کا اعلان جناب وزیر خارجہ نے کیوں کیا، اس فیصلے کا امور خارجہ سے کیا تعلق؟ اس کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے یاد دلایا، وہ پارٹی میں چیئرمین عمران خان کے بعد اہم ترین پوزیشن کے حامل ہیں‘ اس لیے کسی بھی اہم فیصلے کے اعلان کا استحقاق رکھتے ہیں۔ لیکن مخالفین کا کہنا ہے کہ ملتان کا سجادہ نشین، اس کا کریڈٹ خود لینا چاہتا تھا۔ وزارتِ اعلیٰ ان کا دیرینہ خواب ہے۔ یہ خواب 2018 کے انتخابات میں بھی موجود تھا، تبھی تو انہوں نے ملتان سے پنجاب اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا‘ لیکن قسمت نے یاوری نہ کی اور وہ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے والے اپنی ہی پارٹی کے ایک نوجوان کارکن سے جو (الیکشن لڑنے کے لیے مطلوبہ عمر کی حد کو بھی چند روز پہلے ہی پہنچا تھا) شکست کھا گئے۔ (جہانگیر ترین نومنتخب ایم پی اے کو اپنے جہاز میں بنی گالہ لے گئے، جہاں اس نے پی ٹی آئی میں (دوبارہ) شمولیت کا اعلان کر دیا)۔
جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے اس اعلان کے ذریعے شاہ محمود قریشی کی پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کی خواہش اپنی جگہ، لیکن فی الحال تو انہیں بہاولپور میں سیکرٹریٹ کے قیام پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ناقدین اسے ”وسیب‘‘ سے غداری کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔
جولائی2018 کے عام انتخابات چند ماہ کے فاصلے پر تھے، جب اچانک جنوبی پنجاب صوبہ محاذ منظر عام پر آیا۔ رحیم یار خان کے خسرو بختیار اس کے روحِ رواں تھے۔ انہیں سردار بلخ شیر مزاری سمیت ڈیرہ غازی خان کے بعض بزرگ سیاستدانوں کی تائید بھی حاصل تھی۔ نوزائیدہ صوبہ محاذ میں، مسلم لیگ (ن) کے وابستگان بھی خاصی تعداد میں شامل تھے؛ چنانچہ دور کی کوڑی لانے والے اسے مسلم لیگ (ن) کو کٹ ٹو سائز کرنے کی ”حکمت عملی‘‘ کا حصہ بھی قرار دے رہے تھے۔ انہیں انتخابات میں پی ٹی آئی کا اتحادی بننا تھا۔ لیکن عمران خان کے اصرار پر، صوبہ محاذ نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی (صوبہ محاذ سے پہلے خسرو بختیار کی ”آخری‘‘ پارٹی مسلم لیگ (ن) ہی تھی)۔
جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے ادغام کے وقت عمران خان نے برسراقتدار آنے کے بعد 100 روز کے اندر صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ خان کی وزارتِ عظمیٰ (اور پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کو بھی) ایک سال سات ماہ گزر چکے۔ بہاولپور اور ملتان کے لیے ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی کا تقرر ابھی اگلے ماہ ہونا ہے جبکہ یہ دونوں سیکرٹریٹ نئے بجٹ کی منظوری کے بعد، جولائی میں کام شروع کریں گے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ صبح شام اپوزیشن کوگالیاں دینے والی پی ٹی آئی کیا پارلیمنٹ اور پنجاب اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کا اہتمام کر پائے گی؟ اور اپوزیشن اس کار خیر میں، فی سبیل اللہ تعاون پر آمادہ ہو جائے گی؟ یہاں تو عالم یہ ہے کہ خود پی ٹی آئی کسی ایک شہر میں سیکرٹریٹ کے قیام پر، اپنے اندر اتفاق رائے قائم نہیں کر سکی۔
پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کا معاملہ وقتاً فوقتاً زیر بحث آتا رہا ہے۔ ہمارے جنرل ضیاالحق صاحب کے دور میں تو ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دینے جیسی نادر روزگار تجاویز بھی زیر بحث آتی رہیں۔ جنوبی پنجاب صوبے کے وجود میں آنے کے امکانات کے ساتھ، دیگر علاقوں میں نئے صوبوں کے قیام کے پرانے مطالبات بھی اٹھ کھڑے ہوں گے۔ بلوچستان کے پشتون علاقوں کو خیبر پختونخوا کے ساتھ ملانے کی تجویز بھی موجود رہی ہے۔ اور خود خیبر پختونخوا میں ہزارہ کو الگ صوبے بنانے کا مطالبہ خاصا قدیم ہے۔ بابا خان زمان کی زیر قیادت، ابھی چند سال پہلے ہزارہ میں یہ تحریک بہت شدت سے اٹھی تھی اور اس میں چند لوگ مارے بھی گئے تھے۔ 18ویں آئینی ترمیم میں شمال مغربی سرحدی صوبہ (NWFP) کا نام ”پختونخوا‘‘ رکھنے پر بھی صوبے کے غیر پختون علاقوں میں شدید اضطراب دیکھنے میں آیا۔ وہ تو نواز شریف صاحب تھے جو یہ ترمیم پارلیمنٹ میں پیش ہونے سے ایک روز قبل ”پختونخوا‘‘ کے ساتھ ”خیبر‘‘ کے اضافے پر ڈٹ گئے اور یوں ہزارہ والوں کی قدرے تشفی ہو گئی۔ سندھ میں بھی نئے صوبے کی چہ میگوئیاں سننے میں آتی رہتی ہیں (کراچی کو الگ صوبہ بنانے کی آوازیں) پاکستان کے قبائلی علاقوں (فاٹا) کو حال ہی میں خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا۔ یہاں کے پی کے اسمبلی کی اضافی نشستوں پر انتخابات بھی ہو چکے ہیں‘ لیکن یہاں الگ صوبے کا مطالبہ بھی موجود رہا ہے۔
خود ”جنوبی پنجاب صوبے‘‘ میں قوم پرست، سرائیکی صوبے کی بات کرتے ہیں اور اس کی حدود سرائیکی بولنے والے تمام علاقوں، جھنگ اور میانوالی سے بھی آگے کے پی کے ڈیرہ اسماعیل خان اور سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقوں تک بھی پھیلا دیتے ہیں۔ اگرچہ سرائیکی قوم پرستوں کو کبھی عوامی (اور انتخابی) سطح پر پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ یہ الیکشن لڑیں تو شاید اپنی ضمانتیں بھی نہ بچا سکیں۔ یاد آیا، تاج محمد لنگاہ نے ایس کیو ایم (سرائیکی قومی موومنٹ) بنائی تھی۔ اس کے نام پر الیکشن لڑا، تو ضمانت بھی ضبط کروا بیٹھے حالانکہ 1970 کے انتخابات میں وہاڑی سے پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے تو یہاں ان کے مقابل پاکستان مسلم لیگ (کونسل) کے صدر جناب میاں ممتاز محمد خان دولتانہ جیسے نامور سیاستدان کو دانتوں پسینا آ گیا تھا اور وہ بمشکل چند ہزار ووٹوں سے جیت پائے تھے۔ (دولتانہ کی سیاسی ذہانت سے خوف زدہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں انگلستان میں پاکستان کا ہائی کمشنر بننے کی پیشکش کی تھی۔ دولتانہ صاحب کو بھٹو کی فسطائیت کا ڈر تھا؛ چنانچہ انہوں نے بھی عملی سیاست سے دستبرداری ہی میں عافیت جانی اور ہائی کمشنر بن کر لندن سدھار گئے) (جاری)

Exit mobile version