شاعر مشرق علامہ اقبال نے لگ بھگ ایک صدی پہلے کہا تھا۔۔۔۔ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا۔۔۔۔مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں۔۔۔ایک اور مقام پہ علامہ کہتے ہیں،
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔۔۔۔۔۔اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں۔۔۔۔شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اسکی۔۔۔کہ ہر شرف ہے اسی درج کا درمکنوں۔۔۔مکالمات فلاطون نہ لکھ سکی لیکن۔۔۔۔اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں۔۔۔
عورت کے مقام، اسکی آزادی اور اس کے معاشرتی حقوق کے مسئلے کی حساسیت ہمیشہ ہی ایک معمہ رہی ہے۔ علامہ اقبال کے مرتبہ و مقام کا شخص بھی اس پہ اظہار خیال کرتے ہوئے تذبذب میں ہے بلکہ اسی طرح کے شدید ردعمل سے ڈرتا ہے جس طرح کے رد عمل کا سامنا کسی ایک فریق بلکہ دونوں فریقین کو آج بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ ” ضرب کلیم” میں آزادی نسواں کے عنوان سے اپنی چھوٹی سی نظم میں کہتے ہیں۔۔۔۔۔اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا۔۔۔گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے، وہ قند۔۔۔۔کیا فائدہ،کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب۔۔۔۔پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند۔۔۔اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرئے فاش۔۔۔۔مجبور ہیں، معذوز ہیں مردان خرد مند۔۔۔
” عورت کی حفاظت” علامہ کی انتہائی مختصر سی نظم ہے جس کے صرف تین اشعار ہیں۔اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور۔۔۔کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد۔۔۔نے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی۔۔۔نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد۔۔۔جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا۔۔۔اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد۔۔۔اور پھر اس مسئلے پر اپنی بے چارگی کا اظہار اس شعر میں کرتے ہیں۔میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غم ناک بہت۔۔۔نہیں ممکن مگر اس عقدہ مشکل کی کشود!۔۔۔
تو معاملہ یہ ہے کہ جس مسئلے پر علامہ اقبال بھی کھل کر اظہار خیال کرتے ہوئے اس لئے ہچکچاتے تھے کہ انہیں فساد خلق کا ڈر تھا، اس مسئلے پر اگر آج بھی تو تکار ہو رہی ہے، گالم گلوچ کا بازار گرم ہے اور میڈیا پر اخلاق سے گری ہوئی، بازاری باتوں کا چلن عام ہو گیا ہے تو یہ حیرت کی کوئی بات نہیں بلکہ افسوس کا مقام ہے۔
عورت کو درپیش مسائل، عورت کے حقوق، عورتوں پر گھریلو تشدد، ان پر لاگو کر دی جانے والی کڑی پابندیاں، طرح طرح کی قدغنیں اور تذکیر و تانیث کی بنیاد پر صنفی استحصال سے کون انکار کر سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے کو، ایک اسلامی معاشرہ ہوتے ہوئے بھی، ان مسائل کا سامنا ہے اور بلاشبہ عورت دوسرے تیسرے درجے کی مخلوق بنا دی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ معاشرے کے تمام طبقات کی طرح خواتین کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ آئین پاکستان میں دی گئی حدود کے اندر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کریں، سیمینارز اور کانفرنسزکریں، احتجاجی مارچ کریں یا اس کے لئے کوئی بھی دوسرا دستوری طریقہ کار استعمال کریں۔ یہ حق جس طرح معاشرے کے کسی بھی طبقے سے نہیں چھینا جا سکتا اسی طرح خواتین کو بھی اس سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
تازہ قضیہ عورت مارچ سے جڑا ہوا ہے۔ اس سال بھی 8 مارچ کو یہ مارچ ہوا۔یہ مارچ عالمی یوم خواتین کے حوالے سے ہوتا ہے اور یہ دن دنیا بھر میں عورتوں کو درپیش مسائل، ان کی محرومیوں کے ازالے اور ان کے حقوق کی پاسداری کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے عورت مارچ کی تاریخ صرف دو سال پرانی ہے۔ 2018 میں یہ مارچ ” ہم عورتیں ” نامی فورم کے پلیٹ فارم سے منایا گیا۔ اس دفعہ کے مارچ کا مرکزی خیال ” خود مختاری” تجویز ہوا تھا۔
پاکستان میں صنفی تفریق یا جنسی امتیاز (gender discrimination) کی صورت حال کس قدر ناگفتہ بہ ہے، اس کا اندازہ ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے جاری حالیہ رپورٹ سے ہوتا ہے۔ عورتوں کے حوالے سے مجموعی طرز عمل، سلوک، حقوق یا مواقع کے حوالے سے رپورٹ میں دنیا کے 153 ممالک کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزہ رپورٹ میں پاکستان کا نمبر 151 ہے۔ یعنی جنوبی ایشیاکے تمام ممالک سمیت دنیا کے 150 ممالک کی صورت حال ہم سے بہتر ہے۔ صرف یمن اور عراق ہم سے نیچے آتے ہیں۔ خواتین کی معاشی سرگرمیوں میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے پاکستان کا نمبر 150 ہے۔ صرف یمن، عراق اور شام اس سے نیچے ہیں۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش سمیت جنوبی ایشیا کے تمام ممالک اس سے بہتر ہیں۔ حصول تعلیم کے مواقع کے اعتبار سے پاکستان 153 میں سے 143 ویں نمبر پہ ہے اور خواتین کو میسر صحت کی سہولتوں کے اعتبار سے وہ 149 نمبر پر ہے۔ یہ صورتحال کس قدر افسوسناک ہے کہ اس کا اندازہ نہ حکومت کو ہے نہ ہمارے ذرائع ابلاغ کو، نہ دانشوروں کو اور نہ شاید خود خواتین کو۔
جب ہم اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالتے ہیں تو خواتین کے ساتھ ناروا صنفی تفریق کی مثالیں قدم قدم پہ ملتی ہیں۔ ان کا سلسلہ گھریلو تشدد، گھروں اور دفتروں میں کام کرنیوالی خواتین کو درپیش مسائل اور عمومی معاشرتی رویوں تک پھیلا ہوا ہے۔
ان حالات میں اگر خواتین منظم ہو کر اپنے حقوق کو اجاگر کرنے کے لئے، دنیا بھر کی خواتین کے ساتھ مل کر، عالمی یوم خواتین پر مارچ کرتی اور اپنی آواز اٹھاتی ہیں تو یہ انکا آئینی حق ہے۔ ان کے اس آئینی حق کو لاہور ہائی کورٹ نے بھی تسلیم کیا اور کچھ حدود کے احترام کے ساتھ مارچ کی اجازت دے دی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تو اسے سماعت کے قابل بھی قرار نہیں دیا اور اپنے ریمارکس میں کہا کہ خواتین جو مانگ رہی ہیں وہ ہمارے آئین اور اسلامی تعلیمات سے منافی نہیں۔
شور و غوغا، عورت مارچ میں سامنے آنے والے ایک نعرے سے اٹھا۔ ” میرا جسم میری مرضی” کا چار لفظی نعرہ عورت مارچ کے سارے اغراض و مقاصد پر حاوی ہو گیا ہے۔ اگرچہ عورت مارچ کا انتظام کرنے والی خواتین نے اس نعرے کی وضاحت اور تشریح جاری کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس سے نعرے کے الفاظ میں پائی جانے والی باغیانہ سوچ کا جواز تلاش نہیں کیا جا سکا۔ جب بھی کسی نعرے کی تشریح، توضیح کی ضرورت پیش آجائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس میں کوئی نہ کوئی خرابی ضرور ہے جس نے اصل مفہوم کو مسخ کر دیا ہے اور ابلاغ کے تقاضے پورے نہیں ہو رہے۔ غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو بھی یہ نعرہ خواتین کے حقوق سے کہیں آگے کی بات کرتا ہے۔ اس میں آزادی کا نہیں،” آزاد روی ” کا تاثر ہے۔ ” میری مرضی” کے الفاظ بھی اپنے اندر تہذیب و معاشرت کے مروجہ ضابطوں سے کھلی بغاوت کا اشارہ دیتے ہیں اور ان میں غیر جمہوری سوچ بھی کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ جب کوئی عورت یا مرد یا کوئی بھی طبقہ ” میری مرضی” کا نعرہ لگاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی خواہش اور اپنی مرضی کو تمام تہذیبی، سماجی، مذہبی اور دستوری تقاضوں پر حاوی خیال کرتا ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات ضرور قرار دیا گیا ہے لیکن اسے جانوروں (اور دیگر مخلوقات) پر فضیلت دینے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ اسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، اچھے برے کی پہچان اور اپنے نفس پر قابو پانے کی قدرت دی گئی ہے اور اندھا دھند ” اپنی مرضی” سے روکا گیا ہے۔یہ تمام تقاضے ” میری مرضی” کی نفی کرتے ہیں۔ ذرا تصور کیجئے۔ اگر ایک جوان بیٹی اپنی ماں کے سامنے تن کر کھڑی ہو جاتی اور نعرہ لگاتی ہے کہ ” میرا جسم میری مرضی” تو عورت مارچ کے منتظمین یا اس مارچ میں شریک ہونے والی کتنی خواتین اس کی اجازت دیں گی۔ یہ نعرہ صرف جسم کی آزادی کی طرف نہیں، ہمارے نوجوانوں کو بے مہار اور بے راہ رو آزادی کا درس دیتا نظر آتاہے جو کسی طور مناسب نہیں۔ عورت مارچ کرنے والی خواتین کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا انہیں مقاصد اور حقوق سے دلچسپی ہے یا وہ اپنی ساری تگ و دو کو ” میرا جسم میری مرضی” جیسے متنازعہ نعرے کے تحفظ پر صرف کر دینا چاہتی ہیں۔ اگر وہ ضد اور ہٹ دھرمی سے اپنے اس نعرے کے تحفظ کو ہی اپنی سب سے بڑی ترجیح بنا لیتی ہیں تو اس جدوجہد کو خود ہی شدید نقصان پہنچائیں گی۔
اور ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس کے اپنے تہذیبی اور سماجی تقاضے ہیں۔ عورتوں کے حقوق کے زبر دست حامیوں کے لئے بھی ” میرا جسم میری مرضی” جیسے نعرے کی تائید بہت مشکل ہے۔