کورونا وائرس نے مذہب کا مقدمہ مضبوط کیا ہے یا کمزور؟
مذہب کا ایک المیہ یہ ہے کہ لوگ پہلے اس کا ایک خود ساختہ تصور قائم کرتے اور پھر اس کی بنیاد پر اسے ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔ ‘نادان دوست‘ بھی اس کارِ خیر میں اُن کی بھرپور معاونت کرتے ہیں‘ جب دنیا کی تقدیر کو کسی مردِ درویش کی ایک نگاہ کے تابع کر دیتے ہیں یا خود تراشیدہ روحانی علاج کو مذہبی رنگ دے کر اسے نسخۂ شفا بتاتے ہیں۔
یہ طرزِ عمل مذہب ہی کے ساتھ خاص نہیں‘ دیگر افکار و نظریات کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا ہے۔ ہم انہیں اپنی مرضی کے معانی پہناتے اور پھر تنقید کرتے ہیں۔ ‘عورت مارچ‘ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس سارے عمل کو پہلے حیا باختگی قرار دیا گیا اور پھر اسے مذہب کے نظامِ اقدار کے بالمقابل لا کھڑا کیا گیا۔ ‘عورت مارچ‘ کے نادان دوست‘ بالخصوص نعرے تراشنے والے‘ یہاں بھی ناقدین سے بھرپور تعاون کرتے دکھائی دیے۔
کورونا نمودار ہوا تو کچھ لوگوں نے اسے ‘مذہب بالمقابل سائنس‘ کا معرکہ بنا دیا۔ بیت اللہ کا طواف رک گیا۔ معبد خالی ہو گئے۔ اسے مذہب کی شکست قرار دیا گیا۔ پھر تفاخر کے ساتھ سوال اٹھایا گیا: سائنس کے سوا کون ہے جو یہاں تمہاری دست گیری کر سکتا ہے؟ یہ گویا سائنس کو حاجت روا ماننے کی دعوت ہے۔
اکثریت کی علمی و فکری پرواز یہیں تک ہے۔ یہ بحث اٹھانے والے مذہب کے دعوے سے واقف ہیں نہ سائنس کی حدود سے۔ یہ مذہب سے وہ باتیں منسوب کر رہے ہیں جو اس کے اصل مقدمے کا حصہ ہی نہیں۔ اسی طرح سائنس کو بھی وہ مقام دے رہے ہیں‘ جس کا خود سائنس نے کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ مجھے یہ ایک علمی تھیٹر کا منظر لگتا ہے جس میں مصنوعی طور پر ایک رزم گاہ کو آباد کیا جاتا ہے اور ہیرو کو فاتح بنایا جاتا ہے۔ علم کی حقیقی دنیا میں واقعے کی نوعیت کچھ اور ہے۔
یہ دراصل وہ میدان ہے جہاں دین اور سائنس کے علما کو اصل مسائل کا سامنا ہے اور جو مجھ جیسے طالب علموں کے لیے غور و فکر کا محل ہے۔ سوال یہ ہے کہ ارتقا اور دریافت کا عمل‘ خدا کی موجودگی کے امکانات پر گواہ ہے یا اس نے خدا کے بغیر کائنات کی تعبیر کو ممکن بنا دیا ہے؟ کورونا کی صورت میں عالمِ انسانیت کو جس چیلنج کا سامنا ہے‘ اس سے کیا نتیجہ اخذ ہو رہا ہے؟
خدا کے انکار پر فکر کی عمارت اٹھانے والوں کا خیال ہے کہ مذہب کا تمام تر مقدمہ ‘نامعلوم‘ کا مقدمہ ہے۔ ‘نامعلوم‘ وہ مقام ہے جہاں سے توہمات کو انسانی زندگی میں قدم رکھنے کا موقع ملتا ہے جس کی ایک صورت مذہب بھی ہے۔ جیسے ہی کوئی بات ‘نامعلوم‘ کے خلا سے نکل کر ‘معلوم‘ کے دائرے میں آ جاتی ہے‘ مذہب کے اندھیرے سے نکل کر علم کی روشنی میں آ جاتی ہے۔ نامعلوم سے معلوم کا یہ سفر مذہب کے دائرے کو تنگ کرتا چلا جا رہا ہے۔ جب یہ سفر اپنی منزل تک پہنچے گا‘ مذہب کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
گویا مذہب کی حاجت اسی وقت تک ہے جب تک اشیا پر نامعلوم کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ جس دن یہ پردہ اٹھ گیا‘ انسانی بول چال سے ‘خدا بہتر جانتا ہے‘ جیسے جملے نکل جائیں گے۔ اس مقدمے میں جہالت یا لا علمی کو مذہب کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔ جس دن تمام مسائل کا حل انسانی علم کی گرفت میں آ جائے گا‘ اس وقت مافوق الفطرت مدد و استعانت کا تصور دم توڑ دے گا۔
جب تک بیماریوں کا علاج دریافت نہیں ہوا تھا‘ دم اور جھاڑ پھونک سے علاج ہوتا تھا کہ امراض کے اسباب بھی نامعلوم تھے اور علاج بھی۔ جیسے ہی اسباب و علاج معلوم ہوئے‘ جھاڑ پھونک کا دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔ اس باب میں انسان نے جس سرعت کے ساتھ نامعلوم سے معلوم کی طرف پیش قدمی کی ہے‘ یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ یہ سفر لازماً ایک منزل تک پہنچے گا۔
کورونا وائرس کے باب میں اس کا اطلاق یوں کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی مافوق الفطرت ہستی موجود ہے تو اسے آواز دی جائے کہ انسان کو اس سے نجات دلائے۔ چونکہ ایسی کوئی ہستی محض ایک وہم ہے‘ اس لیے اس کا کوئی امکان نہیں کہ اس آواز کو جواب ملے۔ ہمیں تجربہ گاہوں میں دن رات ایک کیے سائنس دانوں ہی پر بھروسہ کرنا ہو گا کہ وہ کوئی ویکسین لے کر نمودار ہوں‘ جیسے وہ اس سے پہلے بھی کئی بار کر چکے ہیں۔ ہماری امیدیں کسی ان دیکھی ہستی سے نہیں‘ سائنس دانوں سے وابستہ ہیں۔ یوں ایک بار پھر سائنس جیت گئی اور مذہب ہار گیا۔
مذہب نے کہیں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ دنیا میں درپیش تمام انسانی مسائل کا حل پیش کرنے آیا ہے۔ یہاں مذہب سے میری مراد اسلام ہے۔ اس کا اصل مقدمہ بعد از موت زندگی سے متعلق ہے۔ جسمانی امراض اور سماجی مسائل کے بارے میں اس کی عمومی تعلیم یہی ہے کہ انسانی جسم اور سماج کے ماہرین اور معالجین کی طرف رجوع کیا جائے؛ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ عالم کا پروردگار انسانی زندگی سے مکمل طور پر لا تعلق ہوگیا ہے اور اس نے تمام معاملات ان ماہرین کو سونپ دیے ہیں۔
اگر ایسا ہوتا تو ہر مرض قابلِ علاج ہوتا۔ ہر سماجی و معاشی مسئلہ حل ہو جاتا۔ اس دور میں انسان یہ دعویٰ کرنے لگ گیا تھا کہ انسان نے موت کے سوا‘ انسانی جسم کو درپیش ہر مسئلے کا حل تلاش کر لیا ہے۔ اس نے قحط پر قابو پا لیا ہے۔ اس نے خشک سالی ختم کر دی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں اب لوگ موٹاپے سے مر تے ہیں‘ بھوک سے نہیں۔ کورونا نے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔
نوح ہریری نے اپنی کتاب Homo Deus میں مذہب بالمقابل سائنس کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اب موت محض ایک فنی (Technical) مسئلہ ہے اور ہر فنی مسئلے کا فنی حل موجود ہوتا ہے۔ کسی لمحے سائنس کے ہاتھوں موت کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ بیسویں صدی میں متوقع عمر کی حد چالیس سے ستر سال ہو گئی۔ کوئی وجہ نہیں کہ اکیسویں صدی میں یہ دگنی یعنی ایک سو پچاس سال نہ ہو جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2100ء تک انسان موت پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گا یا زیادہ سے زیادہ 2200ء تک۔
کورونا وائرس نے بتایا کہ عالمِ امکانات میں ابھی موت کے کئی ایسی اسباب موجود ہیں جو سائنس کی دسترس سے باہر ہیں اور اس کے لیے غیر متوقع بھی۔ ایک سبب پر قابو پانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان موت پر مکمل فتح کا دعویٰ کرنے لگ جائے۔ انسان کی کوشش جاری ہے لیکن اس نظامِ کائنات میں کوئی اور ایسی قوت بھی موجود ہے جو اس نظام کو کہیں تھمنے نہیں دے رہی ہے۔ اگر وہ حرکت کے تسلسل کو باقی رکھے ہوئے ہے تو اس کی حرکت کو روک بھی سکتی ہے۔
کورونا وائرس نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا کو ایک لمحے میں‘ ایک صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ سائنس نے ترقی یافتہ انسان کو جو فوقیت دی تھی‘ وہ پل بھر میں ختم ہو گئی۔ انسان آج بھی یکساں موت کی دسترس میں ہیں‘ وہ ترقی یافتہ دنیا کے باشندے ہوں یا ترقی پذیر دنیا کے۔ سائنس کی کوئی کوشش انسان کو موت سے دور نہیں کر سکی۔ جس طرح اپنے تجربات کی روشنی میں سائنس یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ نامعلوم سے معلوم کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے‘ بالکل اسی طرح یہ دعویٰ بھی کیا جا سکتا ہے کہ نامعلوم کی حد کا تعین ابھی تک انسان کی علمی سرحد سے کہیں پرے ہے۔ بہت کچھ جاننے کے باوجود‘ انسان آج بھی بے بسی کے اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں فرشتے تخلیق آدم کے وقت کھڑے تھے اور اپنے رب کے حضور میں اپنے عجز کا اعتراف کر رہے تھے؛ ”آپ کی ذات ہر عیب سے منزہ ہے۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں‘ جتنا آپ نے بتایا ہے۔ علیم و حکیم تو اصل میں آپ ہی ہیں۔‘‘ (البقرہ: 32)۔ زبانِ قال سے نہ سہی‘ انسان زبانِ حال سے یہی اعتراف کر رہا ہے۔
کورونا کے حملے نے مذہب کا مقدمہ ایک بار پھر مضبوط کر دیا ہے۔