وائرس کا مقابلہ بذریعہ مسخرہ پن
آج کل سب سے زیادہ مزے میں وہ ہے جس کی یا تو گرد و پیش کے حالات تک رسائی نہیں یا ہے بھی تو اسے اپنے محلے یا شہر یا صوبے یا زیادہ سے زیادہ ملک سے باہر کے حالات جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔
اس وقت انٹرنیٹ آگہی سے زیادہ فروغِ جہل کا آلہ بنا ہوا ہے۔ کورونا کے بارے میں ہر سنی سنائی بات یا پوسٹ بلا تصدیق اور پوری طرح پڑھے بغیر دکھی انسانیت کے جذبے سے سرشار ٹویٹچی، فیس بکیے، انسٹا گرامیے، یو ٹیوبیے تھوک کے حساب سے فارورڈ کر رہے ہیں۔
کاروباری حضرات کورونا کو ایک سنہری تجارتی موقع سمجھ کر بے دردی سے استعمال کر رہے ہیں۔
مثلاً احتیاطی ماسک عوام الناس کو نہیں بلکہ چھینک نزلے زکام اور کھانسی والے لوگوں کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے لیکن میڈیکل سٹور والے ہر گاہک کو بتا رہے ہیں کہ بڑی مشکل سے سو ماسک آج لایا ہوں، شام تک ختم ہو جائیں گے، پھر جانے کب سپلائی آئے۔
مطلب یہ ہے کہ تمہیں ضرورت ہے یا نہیں مگر ماسک خرید لو۔ نتیجہ یہ ہے کہ گلی میں آدھے لوگ ماسک پہن کر گھوم رہے ہیں اور باقی آدھے انھیں دیکھ رہے ہیں۔
احتیاطی ماسک کے ساتھ بھی وہی تماشا ہو رہا ہے جو ایوب دور میں خاندانی منصوبہ بندی محکمے کی جانب سے مفت تقسیم کیے جانے والے شفاف احتیاطی غباروں کا ہوا تھا۔ بڑے انھیں استعمال کرنے کے موڈ میں نہیں تھے اور بچے ان میں ہوا بھر کے گلی گلی اڑاتے پھر رہے تھے۔
نیز ان دنوں جس کا نشہ نہیں بک رہا اس نے افواہ پھیلا دی کہ کوکین اور الکوحل کورونا سے بچاتی ہے۔ جس کا ہومیوپیتھی کا کاروبار مندا ہے وہ مشورے دے رہا ہے کہ میاں آرسینیکم تھرٹی صبح شام چاب لو کورونا قریب بھی نہیں پھٹکے گا۔
پیروں فقیروں نے دافع بلیات منتر، دم، جھاڑ پھونک اور کالے بکرے کی قربانی کی فہرست میں محبوب آپ کے قدموں میں اور مردانہ کمزوری سے چوبیس گھنٹے میں نجات کے ساتھ ساتھ کورونا سے تحفظ کے عملیات کو بھی شامل کر لیا ہے(ان سب کو چارٹرڈ فلائٹ سے چین، ایران اور اٹلی روانہ کر دینا چاہیے۔)
عام لوگ تو رہے ایک طرف، خواندہ اور پروفیشنلز کو بھی یقین نہیں کہ کورونا واقعی کوئی سنجیدہ مسئلہ ہے۔
کل شام ہی ایک شادی کی تقریب میں ایک ڈاکٹر صاحب نے سرگوشی کی ’بھائی صاحب آپ تو میڈیا کے آدمی ہیں ۔اندر کی بات کیا ہے ۔ کورونا کو اتنا خطرناک کیوں بتایا جا رہا ہے۔ کیا واقعی یہ خود بخود پھیلا ہے یا جیسا کہ چین کہہ رہا ہے کہ امریکہ نے پھیلایا ہے؟
اسی تقریب میں ایک ایکسپورٹر نے مجھے بتایا کہ دراصل یہ کورونا بڑے ملکوں کی تجارتی رقابت کا ہتھیار اور ایک دوسرے کی مارکیٹ خراب کرنے کی جنگ ہے۔ ہم لوگ خواہ مخواہ گھبرا رہے ہیں اور عالمی پروپیگنڈے کا شکار ہو رہے ہیں اور پھر انھوں نے جیب سے سینٹائزر نکال کے ہاتھ پر ملا اور قورمے کی جانب لپکے۔
چین اور جنوبی کوریا نے مزید مریضوں کا انتظار کیے بغیر بڑے پیمانے پر عوامی سطح پر ٹیسٹنگ اور مشتبہ مریضوں کو فوری طور پر الگ تھلگ کرنے اور لاک ڈاؤن جیسے جارحانہ طریقوں کے زریعے کورونا کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔
پاکستان جیسے ممالک کا صحت ڈھانچہ ایک وقت میں دس بیس ہزار مریضوں سے بھی نمٹنے کا اہل ہے کہ نہیں؟ اس بارے میں محض اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں۔
ان حالات میں کورونا جیسی وباؤں کا راستہ روکنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ لونڈیہار پن کے رویے کو کچھ عرصے کے لیے ترک کر کے تھوڑی سی سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے اسے اجتماعی قومی زمہ داری محسوس کرتے ہوئے انفرادی سطح ہر ممکن احتیاط نبھائی جائے۔
مگر ہم سب چونکہ مزاجاً ہر کام کی ذمہ داری ریاست پر لادنے اور ریاستی ناکامی کی صورت میں اوپر والے پر بوجھ بننے کے عادی ہیں لہذا بچ گئے تب بھی اور نہ بچے تب بھی ہمارا ذاتی قصور ممکن ہی نہیں۔
باقی دنیا میں کورونا شہہ سرخی ہے۔ ہمارے ہاں شہباز شریف لندن سے کب آئیں گے؟ میر شکیل کی گرفتاری آزادیِ صحافت پر حملہ ہے کہ کرپشن کا کیس؟ ایم این اے علی وزیر کو نااہل قرار دینے کے لیے ہائی کورٹ میں پیٹیشن کس کے کہنے پر دائر؟ اور پھر ان سب ’اہمیات‘ سے جگہ بچ جائے تو یہ بریکنگ نیوز کہ وفاق اور صوبے کورونا سے نمٹنے کے لیے آخر ایک پیج پر کیوں نہیں؟ ڈھنچک ڈھنچک ڈھنچک۔۔۔
مجھے پہلی بار وہ قصہ سچ لگ رہا ہے کہ جنوری 1258 میں بغداد کے محاصرے کے بعد جب منگول ایلچی ہتھیار ڈالنے کا الٹی میٹم لے کر خلیفہ المستعصم کے دربار میں پہنچا تو وہاں علما و امرا کے مابین دھواں دار بحث جاری تھی کہ سوئی کے ناکے سے بیک وقت کتنے اونٹ گزر سکتے ہیں؟