Site icon DUNYA PAKISTAN

’’بہاولپور‘‘ کا مقدمہ…جنوبی پنجاب صوبہ…(2)

Share

جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے ‘ جناب وزیر اعظم کے زیرِصدارت اعلیٰ سطحی اجلاس کے فیصلے نے‘ صوبے کے حامیوں میں اطمینان وتشکر کی بجائے نئے سوالات پیدا کردیئے ہیں۔ مثلاًیہ کہ پی ٹی آئی (اور اس کی حکومت)واقعی سنجیدہ ہے تو (پہلے مرحلے پر )ایڈیشنل چیف سیکرٹری (سائوتھ)اور ایڈیشنل آئی جی پولیس (سائوتھ) کا تقرر کیوں؟ مکمل اختیارات کے ساتھ چیف سیکرٹری اور آئی جی کیوں نہیں‘ جو براہِ راست وزیر اعلیٰ کو جواب دہ ہوں؟ (معترضین کے بقول) اس کے لیے تو کسی دوتہائی اکثریت کی ضرورت بھی نہیں۔ انہیں بہاولپور اور ملتان میں الگ الگ (ایڈیشنل) سیکرٹریٹس کے قیام پر بھی اعتراض ہے۔ شاہ محمود قریشی صاحب کے ابتدائی اعلان کے مطابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری بہاولپور میں (اور ایڈیشنل آئی جی ملتان میں) بیٹھیں گے ‘اس سے بعض حلقوں میں اس خدشے نے سرابھارا کہ جنوبی پنجاب صوبے کامستقل سیکرٹریٹ بھی بہاولپورہوگا۔ جناب جاوید ہاشمی اسے جنوبی پنجاب صوبے کے اصل کا ز کو سبوتاژ کرنے (اور نیا بحران پیدا کرنے) کے مترادف قراردیتے ہیں۔ان کے بقول‘ پی ٹی آئی اپنے مینڈیٹ سے اس غداری کے بعد آئندہ انتخابات میں ‘ یہاں سے ایک نشست بھی نہیں جیت سکے گی۔ سرائیکی قوم پرست‘ نئے صوبے کو سرائیکی صوبے (یا سرائیکستان) کا نام دینے کے علاوہ اس کی حدود کو ملتان‘ ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور کے تین ڈویژنوں تک محدود کرنے کی بجائے‘میانوالی ‘بھکر اور (خیبر پختو نخوا کے) ڈیرہ اسماعیل خاں اور ٹانک تک وسیع کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں‘ ان میں سے بعض کا دعویٰ تو سندھ اور بلوچستان کے سرائیکی سپیکنگ ایریاز تک بھی ہے۔ ادھر میانوالی کے بعض دانشور‘ یہاں پشتونوں کی بڑی تعداد کے باعث اسے سرائیکی صوبے کی بجائے خیبر پختونخوا میں شامل کرنے کی بات کرتے ہیں(وزیر اعظم عمران خان کا نیازی قبیلہ بھی نسلاً پشتون ہے‘ (لیکن اے این پی کے اسفند یار ولی خان اسے پشتون نہیں مانتے کہ ان کے بقول‘ پشتون وہ ہے جو پختونخوا میں آباد ہے یا پشتوبولتا ہے)۔
ملتان کے سجادہ نشین کا معاملہ ”نماز بخشوانے گئے‘ روزے گلے پڑ گئے‘‘والا ہوگیا ہے۔ نئے صوبے کا کریڈٹ اپنے نام کرنے کے لیے انہوں نے وزیر اعظم کے زیر صدارت ہونے والے اس فیصلے کا اعلان خود کرنا ضروری سمجھا‘ پہلے مرحلے میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو بہاولپورمیں بیٹھنا تھا‘ جس سے بہاولپور کو صوبہ جنوبی پنجاب کا مستقل سیکرٹریٹ بننے کے خدشے نے جنم لیا‘اس کے ازالے کے لیے قریشی صاحب کو ملتان میں باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے اپنے پہلے بیان کی تردید کرنا پڑی ۔اب ان کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی کے سیکرٹریٹس کا فیصلہ ابھی ہونا ہے اور یہ بھی کہ نئے صوبے کے مستقل سیکرٹریٹ کا فیصلہ اس کی اسمبلی کرے گی۔ ادھر پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ایم این اے مرتضیٰ جاوید عباسی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے سینیٹر طلحہ محمود نے ہزارہ کا نیا صوبہ بنانے کے لیے آئینی ترامیم جمع کرادی ہیں۔
صدر جنرل مشرف کے وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی بھی لب کشا ہوئے ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے ایک وفد سے ملاقات میںفرمایا کہ انہوں نے پنجاب کو تین صوبوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی نے موقع غنیمت جانا اور نئے صوبوں کے قیام کی حمایت کرتے ہوئے ”جہاں جس کا ‘ جتنا کریڈٹ ہے‘‘ اسے قبول کرنے پر زوردیا ۔کیا یہ کراچی صوبہ کی طرف اشارہ تھا؟ جنابِ جمالی نے کراچی کو ملک کا دارالحکومت بنانے پر زور دیا کہ ایوب خاں کے دور میں دارالحکومت کی اسلام آباد منتقلی کی غلطی کا ازالہ ہو سکے۔ ظاہر ہے اس کے بعد کراچی کو صوبہ بنانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
ادھر مسلم لیگ(ن) ”جنوبی پنجاب‘‘کی حمایت کے ساتھ بہاولپور کو الگ صوبہ بنانے کے موقف پر قائم ہے۔ اس کے لیے وہ پنجاب اسمبلی کی (11مئی2012ء کی) اتفاق رائے سے منظور کردہ قرار داد کا حوالہ دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے بہاولپور والوں کا مطالبہ منطقی ہے۔ یہ نئے صوبے کا نہیں ‘ پرانے صوبے کی بحالی کا مطالبہ ہے۔ ریاست بہاولپور ‘ متحدہ ہندوستان کی ان ریاستوں میں تھی جنہیں تقسیم کے وقت پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا حق دیا گیا تھا۔ نہرو اور پٹیل کی پُرکشش (اور پُر فریب) پیشکشوں کے باوجود نواب صاحب نے پاکستان کے ساتھ (ایک فیڈریٹنگ یونٹ کے طور پر)شمولیت کا فیصلہ کیا۔
ریاست بہاولپور کا شمار متمول ریاستوں میں ہوتا تھا۔ لاہور کے فیروز پور روڈ پر قرطبہ چوک (مزنگ چونگی) کے پہلو میں وسیع وعریض بہاولپور ہائوس (اب درجنوںسرکاری افسران کی رہائش گاہ GOR)پنجاب یونیورسٹی کا اولڈ کیمپس اور ایچی سن کالج وغیرہ اسی دور کی یاد گار ہیں۔ قائد اعظم11اگست کو کراچی پہنچے تو انہیں نواب آف بہاولپور کی قیام گاہ پر بہاولپور کی فوج نے ہی گارڈ آف آنر پیش کیاتھا۔ تب نواب صاحب کی گاڑی ہی گورنر جنرل کے زیر استعمال رہی(یہ اب بھی اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل میں یاد گار کے طور پر موجود ہے)۔1951ء میں وفاق پاکستان کے ساتھ معاہدے کے تحت بہاولپور کو صوبے کا درجہ دے دیا گیا۔ 1952ء میں بہاولپور (صوبائی )اسمبلی کے انتخابات ہوئے جن میں جناب مخدوم زادہ سید حسن محمود(مخدوم احمد محمود کے والد) وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کے آئینی مسودے (1954ء)میں بھی بہاولپور الگ صوبے کے طور پر موجود تھا(آئین ساز اسمبلی میں اس کی پہلی خواندگی ہوچکی تھی کہ گورنر جنرل غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی توڑ دی)۔1955ء میں ”ون یونٹ‘‘ بنا تومغربی پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح‘ بہاولپور بھی اس کا حصہ بن گیا۔ 1969ء میں جنرل یحییٰ نے مارشل لائی اختیارات کے تحت ون یونٹ توڑ کر صوبے بحال کردئے لیکن بہاولپور کو پنجاب کاحصہ بنا دیا۔ اس پر 1970ء میں بہاولپور صوبے کی بحالی کی تحریک چلی جس میں بے شمار گرفتاریاں ہوئیں‘ دوافراد مارے گئے ۔صوبہ محاذ کے لیڈر میاں نظام الدین حیدر اور مخدوم نورمحمد ہاشمی ایم این اے منتخب ہوئے (یہ ان ارکان قومی اسمبلی میں شامل تھے‘ جنہوں نے 1973ء کے آئین کی تائید نہیں کی تھی) علامہ رحمت اللہ ارشد پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنے‘ تابش الوری بھی یہاں بہاولپور کی توانا آواز تھے۔
جولائی 2018ء کے عام انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے قیام کو مسلم لیگ(ن) کو کٹ ٹوسائز کرنے کی حکمت عملی بھی قرار دیا گیا۔ یہ محاذ ‘ 100دن میں صوبے کے قیام کے وعدے پر پی ٹی آئی میں ضم ہوگیا(اس میں بعض نادیدہ ہاتھوں کی کارفرمائی کی بات بھی سننے میں آئی) محمد علی درانی نے صوبہ بہاولپور بحالی کا نعرہ بلند کیا (لیکن بہاولپور صوبے کے حامیوں نے اسے سنجیدہ نہ لیا)پی ٹی آئی ”جنوبی پنجاب صوبے ‘‘ کو اپنے مینڈیٹ کا تقاضا قرار دیتی ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مینڈیٹ کے حوالے سے پی ٹی آ ئی (بہاولپور ڈویژن کی حد تک )اجارہ داری کا دعویٰ نہیں کرسکتی کہ یہاں قومی اسمبلی کی15نشستوں میں سے صرف5اس کے حصے میں آئی تھیں۔ دیگر 10 نشستوں میں سے6 مسلم لیگ (ن) نے ‘1قاف لیگ نے ‘2پیپلز پارٹی نے اور 1آزاد امید وار نے جیتی ۔ضلع بہاولنگر کی چاروں قومی نشستیں پی ٹی آ ئے ہار گئی ‘ یہاں تین پر مسلم لیگ(ن) بڑے مارجن سے جیتی‘ ضلع بہاولپور کی 5میں سے 2 پی ٹی آئی نے ‘2 مسلم لیگ(ن) نے اور 1 قاف لیگ نے جیتی۔
قاف لیگ کے طارق بشیر چیمہ (عمران خان کی کابینہ کے وزیر ہائوسنگ )‘ مسلم لیگ(ن) کے چودھری سعود مجید سے پانچ سو سے بھی کم ووٹوں کی سبقت حاصل کرسکے) رحیم یار خان کی 6 میں سے 3 سیٹیں پی ٹی آئی نے ‘ 2 پیپلز پارٹی نے اور1 مسلم لیگ(ن) نے جیتی۔ بہاولپور ڈویژن سے پنجاب اسمبلی کی 31نشستوں میں سے13مسلم لیگ(ن) نے ‘10پی ٹی آئی نے‘ 3پیپلز پارٹی نے‘ 2قاف لیگ نے اور 3آزاد امید واروں نے جیتیں۔پسماندگی کو نئے صوبے کا جواز بنایا جائے‘ تو ”جنوبی پنجاب‘‘میں (ون یونٹ کے بعد سے) سب زیادہ پسماندگی بہاولپور ڈویژن کا مقدر بنی۔ گزشتہ برسوں میں پنجاب کے 18نئے اضلاع(اور نصف درجن نئے ڈویژن بنے)‘ خود ملتان میں ڈی جی خان کا نیا ڈویژن بنا۔ اب ملتان اور ڈی جی خاں کے چا ر چار اضلاع ہیں(ملتان ‘وہاڑی‘ خانیوال‘ لودھراں۔ ادھر ڈی جی خاں ‘ راجن پور ‘ مظفر گڑھ اور لیہ) لیکن بہاولپور کے اب بھی وہی تین اضلاع ہیں(بہاولپور‘ رحیم یار خاں اور بہاولنگر) ۔
بہاولپور صوبے کی بحالی کے حق میں کئی مزید دلائل بھی دیئے جا سکتے ہیں۔ ملتان والوں کے مقابلے میں اس کی سیاسی محرومیوں کی داستان بھی کہیں زیادہ طویل ہے۔ جنوبی پنجاب کی پسماندگی میں یہاں کے وڈیرے کس حد تک ذمہ دار ہیں ‘ جو ماضی کے ہر سیاسی و غیر سیاسی دور میں اقتدار میں حصہ دار رہے۔ صدارت‘وزارتِ عظمیٰ‘ قومی اور صوبائی اسمبلی کی سپیکر شپ‘ گورنری ‘ وزارتِ اعلی اور وفاقی و صوبائی وزارتوں سمیت کونسا اہم ریاستی عہدہ ہے‘ جو ملتان (اور ڈیرہ غازی خاں) والوں کے حصے میں نہیں آیا۔ جنوبی پنجاب کے فنڈز لاہور پر خرچ کرنے کی دعووں میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا فسانہ؟ یہ بھی ایک طویل کہانی ہے جسے ہم آئندہ کسی وقت پر اٹھا رکھتے ہیں…یار زندہ صحبت باقی۔

Exit mobile version