کورونا وائرس گذشتہ برس دسمبر میں سامنے آیا لیکن اب کوویڈ-19 عالمی وبا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
اس بیماری میں مبتلا ہونے والے زیادہ تر افراد میں اس بیماری کا اتنا اثر نہیں ہوتا اور وہ صحت یاب بھی ہو رہے ہیں، تاہم کچھ افراد اس کی وجہ سے ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ وائرس جسم پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں کچھ افراد ہلاک کیوں ہو رہے ہیں اور اس بیماری کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
انکیوبیشن یا نگہداشت کا دورانیہ
اس دورانیے میں وائرس اپنی جگہ پکڑ رہا ہوتا ہے۔ وائرسز عام طور پر آپ کے جسم کے خلیوں کے اندر تک رسائی حاصل کر کے ان کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔
کورونا وائرس جسے سارس-کووی-2 کہا جا رہا ہے آپ کے جسم پر اس وقت حملہ آور ہوتا ہے جب آپ سانس کے ذریعے اسے اندر لے جاتے ہیں (جب کوئی قریب کھانسے) یا آپ کسی ایسی چیز کو چھونے کے بعد اپنے چہرے کو چھو لیں جس پر وائرس موجود ہو۔
سب سے پہلے یہ وائرس ان خلیوں کو متاثر کرتا ہے جو آپ کے گلے، سانس کی نالی اور پھیپھڑوں میں ہوتے ہیں اور انھیں ‘کورونا وائرس کی فیکٹریوں’ میں تبدیل کر دیتا ہے جو مزید ایسے مزید وائرس پیدا کرتی ہیں جن سے مزید خلیے متاثر ہوتے ہیں۔
ابتدائی مرحلے میں آپ بیمار نہیں ہوں گے اور اکثر افراد میں اس بیماری کی علامات بھی ظاہر نہیں ہوں گی۔
نگہداشت کے دورانیے میں انفیکشن ہونے اور اس کی علامات ظاہر ہونے کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے لیکن یہ اوسطاً پانچ دن بتایا جاتا ہے۔
ہلکی پھلکی بیماری
زیادہ تر افراد کے بیماری کے دوران ایک جیسے تاثرات ہوتے ہیں۔ کوویڈ-19 دس میں سے آٹھ افراد کے لیے ایک معمولی انفیکشن ثابت ہوتا ہے اور اس کی بنیادی علامات میں بخار اور کھانسی شامل ہیں۔
جسم میں درد، گلے میں خراش اور سر درد بھی اس کی علامات میں سے ہیں لیکن ان علامات کا ظاہر ہونا ضروری نہیں ہے۔
بخار اور طبیعت میں گرانی جسم میں انفیکشن کے خلاف قوت مدافعت کے رد عمل کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ وائرس کو ایک مشکلات پیدا کرنے والے حملہ آور کے طور پر شناخت کرتا ہے اور پورے جسم میں سائٹوکنز نامی کیمیائی مادہ خارج کرکے سنگل بھیجتا ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہو رہی ہے۔
اس کی وجہ سے جسم میں مدافعتی نظام حرکت میں آجاتا ہے لیکن اس کی وجہ سے جسماںی درد، تکلیف اور بخار کی کیفیات بھی پیدا ہوتی ہیں۔
کورونا وائرس میں ابتدائی طور پر خشک کھانسی ہوتی ہے (بلغم نہیں آتا) اور یہ شاید خلیوں میں وآئرس کی وجہ سے متاثر ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچینی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
کچھ لوگوں کو آخر کار بلغم جیسا گاڑھا مواد آنے لگتا ہے جس میں وائرس کی وجہ سے مرنے ہونے والے خلیے بھی شامل ہوتے ہیں۔
ان علامتوں کو آرام، بہت زیادہ مقدار میں پانی اور مشروب کے ساتھ پیراسیٹامول لے کر دور کیا جا سکتا ہے۔ آپ کو اس کے لیے ہسپتال یا ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ مرحلہ ایک ہفتے تک جاری رہتا ہے بیشتر لوگ اسی مرحلے پر صحت یاب ہو گئے کیونکہ ان کے مدافعتی نظام نے وائرس سے مقابلہ کیا۔
تاہم کچھ لوگوں میں کووڈ-19 کی نسبتاً سنگیں حالت پیدا ہوئی۔
ہم اب تک اس مرحلے کے بارے میں اتنا ہی جان پائے ہیں تاہم زمینی مشاہدوں سے پتا چلا ہے کہ اس بیماری میں سردی لگ جانے جیسی علامات بھی پائی گئی ہیں جن میں ناک کا بہنا شامل ہیں۔
شدید بیماری
اگر یہ بیماری بڑھتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مدافعتی نظام وائرس کے تیئں ضرورت سے زیادہ رد عمل دکھا رہا ہے۔
جسم میں بھیجے جانے والے کیمیائی سگنل جلن کا باعث بنتے ہیں۔ تاہم اسے بہت نزاکت سے متوازن کیا جانا چاہیے۔ بہت زیادہ انفلیشین سے پورے جسم میں نقصانات ہوتے ہیں۔
کنگز کالج لندن کے ڈاکٹر نتھالی میکڈرموٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ وائرس مدافعتی نظام میں عدم توازن پیدا کرتا ہے اس کی وجہ سے بہت زیادہ سوزش ہوتی ہے اور یہ کس طرح کا ہے ابھی ہم یہ جان نہیں پائے۔‘
پھیپھڑوں کی انفلیمیشن کو نمونیہ کہتے ہیں۔ اگر منہ کے راستے اندر جانا ممکن ہوتا تو آپ ہوا کی نالی سے ہو کر چھوٹی چھوٹی ٹیوبز سے گزر کر چھوٹی چھوٹی ہوا کی تھیلیوں میں جا پہنچتے۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں آکسیجن خون میں شامل شامل ہوتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ باہر نکلتی ہے لیکن نمونیہ کی حالت میں انہی چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں پانی بھر جاتا ہے اور سانس اکھڑنے لگتا ہے اور سانس لینے میں دشواری ہونے لگتی ہے۔
کچھ لوگوں کو سانس لینے کے لیے وینٹیلیٹر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
چین سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق 14 فیصد لوگ اس مرحلے تک متاثر ہوئے۔
تشویش ناک بیماری
ایک اندازے کے مطابق اس بیماری میں مبتلا افراد میں سے صرف چھ فیصد کی حالت تشویش ناک حد تک پہنچی۔
اس وقت جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا اور موت کے امکانات پیدا ہو گئے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت مدافعتی نظام بے قابو ہو کر گھومنے لگتا ہے اور پورے جسم کو نقاصان پہنچاتا چلا جاتا ہے۔
اس کی وجہ سے جسم سیپٹیک شاک میں چلا جاتا ہے اور فشار خون خطرناک حد تک کم ہو جاتا ہے اور اعضا کام کرنا بند کر دیتے ہیں یا مکمل طور پر ناکارہ ہو جاتے ہیں۔
پھیپھڑوں میں انفلیمینش کے سبب سانس کی شدید تکلیف پیدا ہوتی ہے اور جسم میں ضرورت کے مطابق آکسیجن نہیں پہنچ پاتی۔ اس کی وجہ سے گردوں کی صفائی کا عمل رک جاتا ہے اور آنتوں کی تہیں خراب ہو جاتی ہیں۔
ڈاکٹر بھرت پنکھانیا کا کہنا ہے کہ ’اس وائرس سے اس قدر انفلیمیشن ہوتی ہے کہ لوگ دم توڑ دیتے ہیں اور کئی اعضا کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔‘
اگر مدافعتی نظام اس وائرس پر قابو پانے میں ناکام ہوتا ہے تو یہ جسم کے ہر کونے میں چلا جاتا ہے جس سے مزید نقصان ہوتا ہے۔
اس مرحلے تک آتے آتے علاج بہت ہی سخت ہو سکتا ہے جس میں ای سی ایم او یعنی ایکسٹرا کورپوریئل ممبرین آکسیجینیشن شامل ہے۔
یہ ایک مصنوعی پھیپھڑا ہوتا ہے جو موٹی موٹی ٹیوبز کے ذریعے خون جسم سے نکالتا ہے ان میں آکسیجن بھرتا اور واپس جسم میں ڈالتا ہے۔
لیکن آخر کار نقصان ہلاکت تک جا پہنچتا ہے اور اعضا جسم کو زندہ رکھنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔
ابتدائی اموات
ڈاکٹرز نے بتایا کہ ان کی بہترین کوششوں کے باجود کیسے کچھ مریض ہلاک ہوگئے۔
چین کے شہر ووہان کے ہسپتال میں جو پہلے دو مریض ہلاک ہوئے وہ پہلے صحت مند تھے، اگرچہ وہ طویل عرصے سے تمباکو نوشی کرتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کے پھیپھڑے کمزور تھے۔
پہلے 61 سالہ ایک آدمی کو ہسپتال لانے تک شدید نمونیہ ہوگیا۔ انھیں سانس لینے میں شدید تکلیف تھی اور وینٹیلیٹر پر ڈالنے کے باوجود ان کے پھیپھڑے ناکارہ ہو گئے اور دل نے کام کرنا بند کر دیا۔ وہ 11 دن بعد مر گئے۔
دوسرے مریض 69 برس کے تھے انھیں بھی سانس کی تکلیف ہوئی۔ انھیں بھی مشینوں کی مدد سے زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ ناکافی ثابت ہوا۔ وہ شدید نمونیا اور سیپٹیک شاک کی وجہ سے اس وقت ہلاک ہوگئے جب ان کا بلڈ پریشر گر گیا۔