مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے دفتر خارجہ کی سابق ترجمان تسنیم اسلم کے سوشل میڈیا پر چلنے والے انٹرویو کی تردید کر دی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے دفتر خارجہ کو انڈیا کے خلاف بیان نہ دینے کی ہدایات دی تھیں۔
خواجہ آصف نے موقف اختیار کیا: ’میں نے وزیر دفاع اور خارجہ کی حیثیت سے بھارت کے متعلق سخت رویہ اپنایا، ریکارڈ کی بات ہے مجھے تو کسی نے ہدایت نہ دی کہ ایسا نہ کرو یا روکا۔‘
نجی ٹی وی چینل جیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’آج تک موجودہ وزیراعظم سے کلبھوشن کا نام نہیں سنا، کشمیر، دلی اور انڈیا کے طول وعرض میں مسلمانوں پر قیامتیں ٹوٹ گئیں، عمران خان اسلامی کانفرنس اجلاس نہ بلاسکے، معذرت خواہانہ رویے سے قوم کی تضحیک ہوتی رہی اور ہم appeasement کرتے آ رہے ھیں، بات لمبی ہوجائے گی، ادھار رہا۔‘
خیال رہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کی سابق ترجمان تسنیم اسلم نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک انٹرویو میں الزام عائد کیا تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف دفتر خارجہ کو انڈیا کے خلاف بیان نہ دینے کی ہدایات دیتے رہتے تھے، ان کی یہ لائن تھی کہ انڈیا کے خلاف زیادہ بات نہ کریں۔
اسلام آباد میں مقیم صحافی عیسیٰ نقوی کو ان کے یوٹیوب چینل کے لیے انٹرویو دیتے ہوئے سابق ترجمان نے اس سوال سے اتفاق کیا کہ ’شریف فیملی انڈین نواز تھی، شاید ان کے کاروباری مفادات تھے۔‘
اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لیے انھوں نے بتایا کہ یہ پاکستان کی پرانی پالیسی ہے کہ جب بھی کوئی رہنما انڈیا کا دورہ کرتا ہے تو وہاں دلی میں حریت رہنماؤں کے ساتھ ملاقات ضرور کرتا ہے جبکہ نواز شریف نے اپنے دورہ انڈیا کہ دوران حریت رہنماؤں سے ملاقات نہیں کی۔
سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اس کے جواب میں کہا کہ نواز شریف کے کوئی کاروباری مفادات انڈیا سے وابستہ نہیں رہے، یہ صرف مخالف سیاسی پروپیگنڈہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تسنیم اسلم کے انٹرویو میں سیاسی زاویہ ہوسکتا ہے حقائق بلکل نہیں۔
سابق سفارتکاروں کا رد عمل
ٹی وی چینلز نے تسنیم اسلم کے اس بیان کو خوب کوریج دی۔ سابق ترجمان کے اس بیان پر بی بی سی نے اس موضوع پر کچھ سابق سفارتکاروں سے بھی بات کی ہے۔
سابق سفیر جہانگیر اشرف قاضی کا کہنا ہے کہ یہ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ (تسنیم اسلم) کی اپنی ذاتی رائے ہے، یہ حکومت کی سوچ کی عکاس نہیں ہے۔
واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر جلیل عباس جیلانی نے سابق ترجمان کے بیان پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا تو دلی میں پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط خان نے بی بی سی کو بتایا کہ کبھی کوئی وزیر اعظم دفتر خارجہ کو اس طرح ہدایات نہیں دیتا۔
ان کے مطابق اس انٹرویو میں جس طرح بڑھا چڑھا کر حقائق بتائے گئے ہیں وہ دفتر خارجہ کا طریقہ کار سے ہی مختلف ہیں۔ سابق سفیر کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے زبانی ہدایات اپنے قریبی مشیروں کے ذریعے دینی ہوتی ہیں وہ تو سکیریٹری خارجہ سے بات کرتا ہے اور نہ ہی ترجمان سے۔ ان کے خیال میں ادارے کو اس طرح واضح انداز میں کبھی نہیں روکا جاتا۔
’مجھے یاد ہے کہ نواز شریف کے مشیر طارق فاطمی ہمیں وزیر اعظم کی زبانی ہدایات پہنچاتے تھے لیکن وزیر اعظم نے خود کبھی نہیں کہا کہ ایسا کرو اور ایسا مت کرو۔‘
عبدالباسط کے مطابق پاکستان کی حکومت تبدیلی کے باوجود انڈیا اور کلبھوشن سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں آئی۔
ان کا کہنا ہے جب نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے گئے تو انھوں نے خود تو کلبھوشن کا نام نہیں لیا تاہم انھوں نے ملیحہ لودھی کو اپنی تقریر میں اس معاملے پر بات کرنے کا کہا۔
تسنیم اسلم نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ نواز شریف کی اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقریر دفتر خارجہ نے ہی لکھی تھی، جس میں کشمیر پالیسی کا ذکر موجود تھا۔
عبدالباسط کے مطابق پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود کشمیر اور کلبھوشن پالیسی میں تسلسل رہا۔ ان کے مطابق دو سال سے کلبھوشن کا مقدمہ تو اس حکومت کے پاس بھی پڑا ہے تو انھوں نے کیا فیصلہ کرلیا جو پہلے رکا ہوا تھا۔
تسنیم اسلم سے رابطہ کیا گیا تاہم انھوں نے اپنا ردعمل نہیں دیا۔
سوشل میڈیا پر رد عمل
سابق ترجمان کے اس انٹرویو پر سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے۔
تحریک انصاف کی رہنما اور وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ تسنیم اسلم نے وہی بات کی جو ہم پہلے سے جانتے تھے اور اس پر بات بھی کرتے تھے۔
انھوں نے ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے حوصلے کی تعریف کرتے ہوئے سوال بھی اٹھایا کہ دفتر خارجہ اس پالیسی پر کتنے عرصے تک عمل پیرا رہا۔
انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبون کے خارجہ امور پر نامہ نگار کامران یوسف نے ٹوئٹر پر تسنیم اسلم کے انٹرویو پر اپنے رد عمل میں کہا کہ ’اس وقت پاکستان اور بھارت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ مذاکرات کے لیے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی نہیں کریں گے۔ یہی وجہ تھی بھارت نے پٹھان کوٹ حملے کے بعد پاکستان کے کردار کی تعریف کی اور اس وجہ سے بھارتی اپوزیشن نے مودی کو پاکستان کے یار کے طعنے دیے۔‘
صحافی رضا رومی نے لکھا کہ ’نواز شریف پہ یہ الزام تراشی ایک پرانی پراپیگنڈا مہم ہے۔ پہلے یہی کچھ بے نظیر کے ساتھ بھی کیا چکا ہے۔۔ بابو خواتین و حضرات نوکری کے دوران اور نوکری کے بعد بھی اپنے مفادات کے پیچھے بھاگتے ہیں۔‘