علی (فرضی نام) کے مطابق وہ چھ دن قبل برطانیہ سے پاکستان پہنچے اور ان کی طبیعت آتے ہی خراب ہو گئی۔ انھوں نے کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر اپنے آپ کو پہلے ہی سب گھر والوں سے الگ کر لیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے علی نے بتایا ’میں نے کسی ڈاکٹر سے مشورہ نہیں کیا تھا لیکن مجھے محسوس ہوا کہ میرے اندر تمام وہ علامات موجود تھیں جو کورونا کے مریض میں پائی جاتی ہیں۔‘
’اس وجہ سے میں نے ایک لیب کے نمائندے کو گھر بلا کر اپنا ٹیسٹ کروایا۔ جب میرے ٹیسٹ کی رپورٹ آئی تو میرے اندر کورونا وائرس کی تصدیق ہو گئی تھی۔‘
علے کے مطابق انھوں نے اپنی بیماری کے دوران احتیاط کی اور ان کی طبیعت زیادہ بگڑی بھی نہیں لیکن لیب والوں نے فوری طور پر پنجاب کے محکمہ صحت کو ان کی رپورٹ کی اطلاع دے دی جس کے بعد ان کے نمائندے گھر آئے اور زبردستی انھیں اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔
’میں نے ان سے کہا کہ میری طبیعت بہتر ہے اور اگر آپ نے مجھے علیحدگی میں ہی رکھنا ہے تو میں گھر پر بھی الگ ہی ہوں اور میرے گھر والے بھی گھر سے باہر نہیں نکلے ہیں۔‘
’انھوں نے میری بات نہیں سنی اور مجھے لاہور کے میو ہسپتال شفٹ کر دیا۔ میں اس لیے بھی مان گیا کیونکہ وہ ماہرین ہیں اور وہ بہتر جاننے ہوں گے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ اس لیے میں ان کے ساتھ چلا گیا۔‘
علی نے مزید بتایا کہ جب وہ ہسپتال آئے تو انھیں ایسی جگہ منتقل کیا گیا جو صاف نہیں تھی۔
’میں نے ان سے شکایت کی کہ اس جگہ رہنے سے بہتر تو یہی تھا کہ میں اپنے گھر ہی رہتا۔ میری اس شکایت پر انھوں نے مجھے بہتر وارڈ میں شفٹ کر دیا۔‘
برطانیہ سے واپسی پر علی نے کیااحتیاطی تدابیر اپنائیں؟
علی نے بتایا کہ وہ دوہری شہریت رکھتے ہیں تاہم پانچ سال قبل وہ اپنی فیملی کے ہمراہ پاکستان منتقل ہو گئے تھے۔
علی کاروبار کے سلسلے میں برطانیہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کچھ دن لندن میں رہے لیکن پاکستان آنے سے قبل وہ بلکل صحت مند تھے۔
’میں یہ نہیں جانتا کہ میرے اندر یہ وائرس دوران سفر داخل ہوا یا پھر برطانیہ سے نکلنے سے پہلے۔ پاکستان پہنچنے کے بعد جب میں اگلی صبح اٹھا تو مجھے بیماری کی علامات محسوس ہوئیں۔‘
’میں نے دیر کیے بغیر اپنا ٹیسٹ کروا لیا کہ کہیں میری بیماری کسی اور شخص کے لیے مسئلہ نہ بن جائے تاہم میری طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے میری فیملی بھی گھر سے باہر نہیں گئی۔‘
’میری بیماری کی علامات کافی واضح تھیں۔ اس لیے میں نے رسک لیے بغیر ہی خود کو گھر میں علیحدہ کر لیا تھا۔ میری بیوی میری تیمارداری کر رہی تھیں لیکن انھوں نے بھی اس دوران ہر قسم کی احتیاط کی۔ اب تک میری فیلی کے ہر فرد کا ٹیسٹ نیگیٹو آیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی میں نے خود کو علیحدگی میں رکھا ہوا ہے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ان کا علاج جاری ہے اور طبیعت کافی بہتر ہے۔
ڈاکٹرز علی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
میو ہسپتال کے ڈاکٹر سلمان قاضی کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ جس مریض کی صحت مستحکم ہے اسے کے لیے اور شدید بیمار مریض کے لیے الگ الگ پرٹوکول ہونے چاہیے۔
’علی کی صحت مستحکم ہے اور کورونا وائرس کے ایسے مریض دو ہفتوں میں بلکل ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں ان کو زبردستی ہسپتال میں لانے کی ضرورت نہیں تھیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ علی نے اپنے آپ کو گھر میں ہی بہتر انداز میں ہی سنبھالا ہوا تھا اس لیے ایسے مریض کو گھر میں ہی علیحدگی میں رکھنا چاہیے۔
ڈاکٹر سلمان نے کہا ’ہمیں لوگوں میں شعور پیدا کرنا ہو گا کہ اگر کسی مریض میں کورونا وائرس کی کوئی علامات پائی جاتی ہیں تو وہ ڈاکٹر یا ہسپتال جانے کے بجائے پہلے کورونا ہیلپ لائین 1033 پر کال ملائیں اور اپنی صحت کے بارے میں بتائیں کیونکہ ایسی صورت میں گھر سے باہر نکلنا اور ہسپتال میں مریض کا جانا دوسروں کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا۔‘
ڈاکٹر سلمان نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو یہ ہدایات سختی سے جاری کرنی چائیے کہ اگر کوئی شخص باہر کے ملک کا سفر کر کے آتا ہے یا کسی فرد میں وائرس کی علامات ہیں تو وہ گھر پر رہے، ایک الگ کمرے میں رہے اور ٹیسٹ کروائے۔
’ٹیسٹ ہونے کے بعد بھی حکومت کو چاہیے کہ وہ مریضوں کو بتائے کہ آپ کو کس ہسپتال یا ڈاکٹر کے پاس جانا ہے کیونکہ جب بھی کوئی مریض ہسپتال آتا ہے تو وہ سیدھا ایمرجنسی میں جاتا ہے، جس سے وہاں موجود باقی لوگ بھی بیمار ہو سکتے ہیں۔‘