کالم

کرونا کے خطرات اور حفاظتی اقدامات

Share

سال 2018 ء میں حیرت انگیز طور پر بل گیٹس نے کہا تھا کہ ایک بیماری آنے والی ہے جو چھ ماہ میں ساڑھے تین کروڑ لوگوں کی جان لے گی۔آج پوری دنیا کرونا وائرس کے خوف میں مبتلا ہے، کہیں اس سے نبٹنے کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں تو کہیں اس کے بچاؤ کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں۔ اور اس وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کے بزنس مین، تاجر،ایئرلائنز کے حصص ہولڈرز، اسٹاک مارکیٹ سے وابستہ افراد،امپورٹرز و ایکسپورٹرز سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ اس وائرس کی وجہ سے کاروبار شدید نقصان سے دوچار ہیں اور اس وائرس نے عالمی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دو ماہ قبل چینی شہر ووہان سے پھیلنے والی اس وبائی بیماری سے ابتک 18 ممالک کے شہریوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں چائنہ، آسٹریلیا، کمبوڈیا، کینیڈا،فرانس، جرمنی، جاپان، ملائشیاء، نیپال،سنگاپور، ساؤتھ کوریا،سری لنکا، تھائی لینڈ، تائیوان، یونائیٹڈ اسٹیٹ، ویتنام شامل ہیں، اور یہ 1 لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد کو متاثر کرتے ہوئے تقریباً 4 ہزار7 سو افراد کو لقمہ اجل بنا چکی ہے۔جبکہ ابتک اس وائرس کے پھیلنے کی اصل وجوہات کا تعین نہیں ہو سکا ہے، اور نہ ہی اس کی کوئی حفاظتی ویکسین تیار ہو سکی ہے۔ اس وائرس کی ابتدا بھی ابھی تک ایک مفروضہ ہے، کہا جا رہا ہے کہ کورونا کی یہ قسم چمگادڑوں سے پھیلی ہے، مگر حقیقت جو بھی ہو، جانوروں سے انسان اور پھر انسان سے انسان تک بہ آسانی پھیلنے والے کورونا وائرس کے خوف سے دنیا بھر میں ہنگامی صورتحال پیدا ہوچکی ہے، تمام ممالک نے متاثرہ ممالک کے ساتھ آمدورفت اور تجارت معطل کر دی ہے۔ سعودی عرب نے عمرہ زائرین کے داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے، متاثرہ ممالک سے پروازیں معطل ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے دو ہمسایہ ممالک چین اور ایران اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، جس کے باعث پاکستان میں کورونا وائرس پھیلنے کے شدید خطرات موجود ہیں، کیونکہ پاکستان میں اس وقت قریب 50 ہزار چینی سی پیک اور مختلف پروجیکٹس پرکام کررہے ہیں، اور دونوں ممالک کے افراد کی ایک بڑی تعداد مختلف سرگرمیوں کی غرض سے ملتی جلتی ہے۔ ہزاروں پاکستانی طلبہ چین میں زیرتعلیم ہیں، اسی طرح ایران کے ساتھ ہماری طویل سرحد ہے، جہاں سے روزانہ ہزاروں افراد بلوچستان اور کراچی کا سفرکرتے ہیں اور ہزاروں زائرین ایران کے مذہبی مقامات پربھی جاتے ہیں۔ اس وجہ سے پاکستان میں اس وباء کے پھیلنے کے خطرات موجود ہیں جس پر پاکستان نے متاثرہ ممالک کے ساتھ روابط کو محدودکردیا ہے، اور حفاظتی اقدامات کے طور پر ملک بھر کے تعلیمی ادارے، شادی ہال بند کردیے کئے ہیں جبکہ عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کرتے ہوئے شہریوں کو حفاظتی تدابیراختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق کرونا وائرس کی علامات عام فلو کی طرح ہیں،بخار، کھانسی، زکام، سردرد، سانس لینے میں دُشواری کرونا وائرس کی ابتدائی علامات ہو سکتی ہیں۔لیکن ضروری نہیں کہ ایسی تمام علامات رکھنے والا مریض کرونا وائرس کا ہی شکار ہو۔ البتہ متاثرہ ممالک سے آنے والے مسافروں یا مشتبہ مریضوں سے میل جول رکھنے والے افراد میں اس وائرس کی منتقلی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔اگر بیماری شدت اختیار کر جائے تو مریض کو نمونیہ ہو سکتا ہے۔ اور اگر نمونیہ بگڑ جائے تو مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ماہرین صحت کے مطابق انفیکشن سے لے کر علامات ظاہر ہونے تک 14 روز لگ سکتے ہیں،لہٰذا ایسے مریضوں میں وائرس کی تصدیق کے لیے انہیں الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔صحت مند افراد جب کرونا وائرس کے مریض سے ہاتھ ملاتے ہیں یا گلے ملتے ہیں تو یہ وائرس ہاتھ اور سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس انتہائی سرعت کے ساتھ ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو جاتا ہے لہٰذا اس وائرس میں مبتلا مریضوں کا علاج کرنے والے طبی عملے کو بھی انتہائی سخت حفاظی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے سب لوگ اپنے ہاتھ بار بار دھویں، چھینکتے وقت منہ پر ہاتھ رکھیں، رومال یا ٹشو استعمال کریں، جانوروں سے دور رہیں،غیرضروری سفر سے پرہیز کریں۔کورونا وائرس کسی بھی چیز کی سطح پر چند گھنٹے موجود رہ سکتا ہے اس لیے غیر ضروری چیزیں نہ چھوئیں۔ وبا کو عذاب سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے پرانے وقتوں میں طاعون، ہیضہ، گردن توڑ بخار، چیچک اور یرقان وغیرہ جان لیوا امراض تھے۔ مگر اس دورجدید میں ایبولا، سارس، مرس، ڈینگی او ر کورونا وبائی امراض کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان سے بچاؤ کے لیے ہم سب کو اجتماعی توبہ کرنی چاہیے، حلال کھانے کو فروغ دینا چاہیے، اور حفاظتی اقدامات کے ساتھ ساتھ احکامات الٰہی کے مطابق اور خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کے مطابق زندگی گزارنا چاہیے اور پاکی و طہارت کا اہتمام کرنا چاہیے۔