ہیڈلائن

کورونا وائرس: پاکستان میں 237 متاثرین، وزیرِ خارجہ کا چین سے واپسی پر سیلف آئسولیشن کا اعلان

Share

سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں منگل کو نئے مریض سامنے آنے کے بعد پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 237 تک پہنچ گئی ہے جبکہ ملک کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے چین کے دورے سے واپسی پر پانچ دن کے لیے ’سیلف آئسولیشن‘ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر خارجہ نے یہ بات بدھ کو پاکستان واپسی پر نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے ٹیسٹ کے نتائج بدھ کی شام تک متوقع ہیں تاہم اگر وہ منفی بھی ہوئے تب بھی وہ رضاکارانہ طور پر پانچ دن کے لیے ’خود ساختہ تنہائی‘ میں رہنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔

شاہ محمود قریشی پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے ہمراہ چین کے دورے پر گئے تھے۔

ادھر سندھ میں مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کے بعد صوبائی حکومت نے بدھ سے صوبے بھر میں جزوی ’لاک ڈاؤن‘ کا اعلان کیا ہے جس کے تحت کاروباری مراکز، پارک اور ریستوران 15 دن کے لیے بند کر دیے گئے ہیں جبکہ جمعرات سے سرکاری دفاتر بھی بند کر دیے جائیں گے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس وقت سندھ میں 170، پنجاب میں 26، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں 16، 16، اسلام آباد میں چار اور گلگت بلتستان میں کورونا کے تین مریض موجود ہیں۔

اس طرح ملک میں کورونا وائرس سے کے زیر علاج مریضوں کی مجموعی تعداد 235 ہے جبکہ دو مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے ملک بھر میں تمام تعلیمی اداروں کو پہلے ہی پانچ اپریل تک بند کیا جا چکا ہے جبکہ ملک کی سرحدیں بھی پندرہ روز تک مکمل بند اور بین الاقوامی پروازیں محدود کی جا چکی ہیں۔

سندھ سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ

پاکستان میں صوبہ سندھ بدستور اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے جہاں اب تک 172 افراد میں کووڈ-19 وائرس کی تصدیق کی جا چکی ہے۔

صوبہ سندھ کے محکمہ صحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 170 افراد زیرِ علاج ہیں جبکہ دو مکمل صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔

منگل کو وزیر صحت سندھ کی میڈیا کوارڈینٹر کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق سکھر میں قرنطینہ میں رکھے گئے 134 زائرین میں اب تک کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔ یہ تمام افراد تفتان کے قرنطینہ میں 14 دن کا وقت گزارنے کے بعد سکھر لائے گئے جہاں ان کا ٹیسٹ کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ کراچی میں 35 جبکہ حیدرآباد میں ایک مریض موجود ہے۔

نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق سندھ حکومت نے صوبے میں جزوی ’لاک ڈاؤن‘ کا اعلان کیا ہے اور صوبے کے تمام ریستوران اور شاپنگ مراکز بدھ سے 15 دن کے لیے بند کر دیے گئے ہیں تاہم کریانہ سٹور کے علاوہ سبزی اور گوشت اور دیگر اشیائے ضرورت کی دکانیں کھلی رہیں گی۔

فیصلے کے مطابق صوبے کے عوامی پارک اور کراچی میں ساحلِ سمندر بھی بدھ سے بند کر دیا گیا ہے جبکہ تمام اقسام کی اجتماعات کے اجازت نامے بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق صوبے میں سرکاری دفاتر بھی جمعرات سے بند کر دیے جائیں گے جس کا نوٹیفکیشن چیف سیکریٹری جاری کریں گے۔

سندھ میں کورونا سے بچاؤ کے اقدامات کے تحت صوبے کے تمام نجی اور سرکاری تعلیمی ادارے پہلے ہی 31 مئی تک بند کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبے بھر میں شادی ہال، سینما گھر، مزار اور درگاہیں تین ہفتوں کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے تین ارب رپے کا کورونا ریلیف فنڈ بھی قائم کیا ہے اور وزیر، مشیر قانون مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ کابینہ کے تمام ارکان، پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی ایک ماہ کی تنخواہ اس فنڈ میں جمع کرائیں گے۔

پاکستانی شہری
Image captionپاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد بازار میں اشیائے خوردونوش خریدنے والوں کا رش دیکھا گیا ہے

پنجاب میں کوروناکے مریضوں میں اضافہ

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی ایران سے آنے والے زائرین کے پہنچنے کے بعد کورونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور متاثرہ افراد کی تعداد 26 تک پہنچ گئی ہے۔

منگل کو پنجاب میں 25 افراد میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی جن میں سے 24 ان زائرین میں سے تھے جو تفتان کے قرنطینہ میں وقت گزارنے کے بعد پنجاب لائے گئے تھے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے ٹوئٹر پر نئے مریضوں کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حکام اب ڈیرہ غازی خان میں قرنطینہ میں رکھے گئے تمام 736 زائرین کا ٹیسٹ کر رہے ہیں جبکہ وہاں تفتان سے آنے والے مزید 1276 زائرین کا بھی ٹیسٹ کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ گجرات میں بھی ایک مریض کی تصدیق کی گئی ہے جو کہ سپین سے پاکستان آیا تھا جبکہ لاہور میں ایک 54 سالہ مریض پہلے ہی موجود ہے جو 10 مارچ کو برطانیہ سے واپس لوٹا تھا۔

خیال رہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت نے جمعرات کو کورونا کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے صوبے بھر میں طبی ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔

صوبائی وزیرِ صحت یاسمین راشد کے مطابق کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور درپیش صورتحال سے نمٹنے کے لیے تعلیمی ادارے بند کیے جا چکے ہیں جبکہ ہر قسم کے عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کی گئی ہے تاہم کاروباری سرگرمیاں محدود کرنے کے حوالے سے ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

پنجاب کی صوبائی وزیر صحت کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت علما ومشائخ سے بھی رابطے میں ہے کہ مساجد میں بھی لوگوں کے اکٹھے ہونے کے حوالے سے فیصلہ کیا جا سکے۔

وائرس سے بچنے کے لیے ایسے ہاتھ دھوئیے

خیبر پختونخوا میں 16 مریضوں کی تصدیق

صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیرِ صحت تیمور جھگڑا کے مطابق اب تک صوبے میں جن 65 افراد کے ٹیسٹ کیے گئے ہیں ان میں سے 16 میں کورونا وائرس پایا گیا جبکہ 17 افراد کے ٹیسٹ کے نتائج آنا باقی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جن 16 افراد میں کورونا کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں سے 15 کا تعلق زائرین کے اس گروپ سے ہے جو ایران سے واپس آیا ہے۔

اس کے علاوہ ایک مریض کا تعلق مانسہرہ سے ہے۔ مذکورہ شخص حال ہی میں برطانیہ سے پاکستان آیا تھا۔

وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات اجمل وزیر کے مطابق تفتان میں موجود صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے مزید 225 افراد کو منگل کو ڈیرہ اسماعیل خان لایا گیا ہے اور صوبائی حکومت نے اُن تمام افراد کو قرنطینہ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے کورونا وائرس کی صورتحال کے پیش نظر صوبے میں 50 سال سے زائد عمر کے سرکاری ملازمین کو 15 دن کی چھٹی دے دی ہے جبکہ حاملہ اور دیگر سنگین امراض میں مبتلا سرکاری ملازمین کو بھی 15 یوم کی رخصت دی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ صوبے کی جیلوں میں قید افراد کی سزاؤں میں 2 ماہ کی کمی کی جائے گی۔

اجمل وزیر کا کہنا تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان شہر کے مفتی محمود ہسپتال میں 200 افراد کے لیے قرنطینہ قائم کیا گیا ہے۔ جبکہ صوبے بھر میں 1000 افراد کو قرنطینہ میں رکھنے کے انتظامات کر لیے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے صوبے کے 26 ہسپتالوں میں قرنطینہ مراکز قائم کیے گئے ہیں جبکہ 20 مزید ہسپتالوں میں بھی ضرورت کے پیش نظر قرنطینہ کے انتظامات مکمل ہیں۔

خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیشِ نظر پہلے ہی 15 روز کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی اور عوامی اجتماعات پر پابندی لگانے،ہاسٹل بند کرنے اور جیلوں میں قیدیوں سے ملاقاتیں معطل کرنے کے فیصلے بھی کیے جا چکے ہیں۔

پاکستان

بلوچستان میں قرنطینہ کے مسائل

بلوچستان میں بھی کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھ کر 16 ہو چکی ہے۔

صوبائی حکومت نے حفاظتی اقدامات کے تحت تین ہفتے کے لیے صوبے بھر میں تمام مزار، درگاہیں، پارک، جمنازیم، کھیل کے میدان اور بچوں کے کھیل کھود کے مقامات بند کرنے کا حکم دیا ہے۔

صوبے کے ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان میں قائم کیے گئے قرنطینہ میں سہولیات پر سوال اٹھائے جانے کے باوجود حکام نے افغانستان سے متصل بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں بھی کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر ایک ویسا ہی قرنطینہ مرکز قائم کیا ہے۔

کیا تفتان پاکستان کا ووہان ثابت ہو سکتا ہے؟

خیمہ بستی کی شکل میں قائم یہ تیسرا بڑا صوبائی قرنطینہ مرکز ہے۔ اس سے قبل تفتان کے علاوہ اور کوئٹہ شہر کے قریب میاں غنڈی میں قرنطینہ مراکز قائم کیے گئے تھے۔

بلوچستان میں پی ڈی ایم اے کے ترجمان فیصل نسیم پانیزئی کا کہنا ہے کہ چمن میں قائم کیے گئے قرنطینہ مرکز میں ایک ہزار افراد کی گنجائش ہے تاہم لوگوں کو الگ الگ خیموں میں رکھنے کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔

انھوں نے تفتان یا میاں غنڈی میں لوگوں کو اکٹھا رکھنے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’سب کے لیے الگ الگ انتظامات کیے جانے کے باوجود لوگ اکٹھے ہوتے تھے۔‘

تفتان کے قرنطینہ مرکز میں اب بھی دو ہزار سے زیادہ زائرین موجود ہیں جنھیں ان کے متعلقہ علاقوں میں بھیجنے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔

نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق کمشنر ایاز خان مندوخیل نے بی بی سی کو بتایا کہ زائرین کی روانگی کے سلسلے میں بسوں کی دستیابی ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ’پہلے جن بسوں میں زائرین کو پنجاب لے جایا گیا تھا انھیں قرنطینہ کی شرائط کے باعث واپس نہیں آنے دیا گیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ زائرین کو ایک ساتھ پہنچانے کے لیے 65 بسوں کی ضرورت ہے جو کہ کوششوں کے باوجود فوری طور پر دستیاب نہیں تاہم پی ڈی ایم نے پہلے مرحلے میں 15بسوں کا انتظام کیا ہے جن میں پہلے سندھ سے تعلق رکھنے والے زائرین کو بھیجا جائے گا۔

عمران خان

’گھبرانا نہیں ہے‘

کورونا کی وبا سامنے آنے کے بعد منگل کی شب پہلی مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ لوگوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں تاہم اس وائرس کے خلاف جنگ حکومت اکیلے نہیں لڑ سکتی اور اس میں تمام شہریوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عوام احتیاط کریں اور کورونا کے معاملے پر افراتفری پیدا کرنے کی ضرورت نہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں ملکی معیشت متاثر ہو گی جس کے لیے اقتصادی کمیٹی بنائی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہوائی کمپینوں سمیت متعدد صنعتوں کو کورونا وائرس سے نقصان ہوا ہے اور ہماری معیشت ویسے ہی دباؤ کا شکار تھی، پاکستان کی برآمدات پر کورونا وائرس کا اثر پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر روز اقتصادی کمیٹی دیکھے گی کہ کون کون سے شعبے متاثر ہو رہے ہیں اور ان کی کیا مدد کرنی ہے۔

وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں ذخیرہ اندوزی کے بارے میں تنبیہ کی کہ اقتصادی کمیٹی یہ بھی دیکھے گی کہ کھانے کی چیزیں مہنگی نہ ہوں، جیسے پہلے چینی اور آٹے کی ذخیرہ اندوزی کی گئی تو ان کو تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ ریاست ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔

وزیراعظم عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ اور برطانیہ نے اپنے شہر بند کر دیے لیکن پاکستان میں وہ حالات نہیں ہیں کیونکہ اگر شہر بند کر دیں تو ایک طرف لوگوں کو کورونا سے بچائیں گے مگر دوسری طرف لوگ بھوک سے مرجائیں گے۔